پاکستان میں غذائی اجناس کی پیدا وار

یہ امر انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ گذشتہ5برسوں کے دوران ہمارے ہاں وافر مقدار میں گندم پیدا ہورہی ہے اور ہم بیرون ملک گندم برآمد کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ گندم کی پیدا وار میں اِس اضافے کو مستقل بنیاد فراہم کی جائے ، ہمارے زرعی سائنس دانوں نے آب وہوا میں تبدیلیوں،ناموافق موسمی حالات جن میں کم یا زیادہ بارش اور کم یا زیادہ درجہ حرارت شامل ہے، جیسے مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے اپنی کاوشیں جاری رکھیں۔ گندم ہمارے ملک کی واحد فصل ہے جس پر ابھی تک سپرے نہیں کیا جاتا ،اِس لئے گندم کی ایسی اقسام کی مسلسل تیاری بہت ضروری ہے، جن پر کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ نہ ہو، کیونکہ آئندہ سالوں میں گندم کی فصل کو سپرے سے بچانے کا یہی موثر ترین ذریعہ ہے۔یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ہمارے زرعی سائنس دان اِ ن مسائل سے غافل نہیں ہیں اور ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد اور زرعی تحقیق کے دیگر اداروں میں اِن مسائل پر توجہ دی جارہی ہے، لیکن اِن مسائل کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور زرعی تحقیق کے لئے مختص فنڈز میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے۔
جب ہم دوسری غذائی فصل چاول کی بات کرتے ہیں تو2010-11ءمیں چاو ل کا پیدا واری ہدف6.17 ملین ٹن مقرر کیا گیا تھا۔ اِس سال تو یہ ہدف حاصل نہیں کیا جاچکا لیکن بعد والے سال میں چاول کا ہدف حاصل کرلیا گیا اور اِس وقت ہمارے ہاں چاول کی پیدا واری صورت حال تسلی بخش ہے۔ہمارے زرعی سائنس دانوں نے اعلیٰ کوالٹی کی باسمتی کی جو نئی اقسام تیار کی ہیں، ہم اُن سے بھرپور استفادہ نہیں کرسکے اور بیرون ملک اعلیٰ کوالٹی کے باوجود پاکستانی چاول کی برآمدت میں مشکلات درپیش ہیں۔ مکئی کا پیدا واری ہدف2010-11ءمیں3.53 ملین ٹن مقرر کیا گیا تھا ،جبکہ ہدف سے زیادہ3.7ملین ٹن پیدا وار حاصل ہوئی۔گنے کی نہ صرف مجموعی پیدا وار بہت سے ممالک کے مقابلے میں کم ہے، جس میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ چینی کی فی کس کھپت ہمارے ہاں بہت زیادہ ہے ، جس میں اضافہ ہورہا ہے۔صورت حال اِس لحاظ سے پریشا ن کن ہے کہ چینی کے زیادہ استعمال کی وجہ سے بہت سی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔اِس سلسلے میں ہمیں اپنی غذائی عادات تبدیل کرنا ہوں گی اور چینی کا استعمال کم کرنا ہوگا۔ چینی بھی ملک میں ضرورت سے زیادہ ہے، جسے برآمد کیا جاسکتا ہے۔
پھلوں اور سبزیوں کی پیدا وار میں بھی اضافے کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں پھلوں اور سبزیوں کے برداشت اور بعد از برداشت نقصانات30تا40فیصد ہیں جن کوکم کرنے کی ضرورت ہے۔ٹنل میں سبزیاں کاشت کرکے ایک طرف تو بے موسمی سبزیاں حاصل کی جاسکتی ہیں ، دوسرے کم سے کم رقبے سے زیادہ سے زیادہ پیدا وار حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں سبزیوں کی ٹنل میں کاشت کو فروغ دے کر اور سبزیوں کے ہائی برڈ بیج تیار کرکے اُن کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔پھلوں کی نئی اقسام بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے ،لیکن سب سے اہم مسئلہ پھلوں اور سبزیوں کے بعد از برداشت نقصانات کا ہے۔اِس کے علاوہ پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ کرنے کے طریقوں میں بھی جدت لانے کی ضرورت ہے۔سبزیوں کی گھریلو پیمانے پر پیدا وار بڑھانے کے لئے صوبہ پنجاب میں کچن گارڈننگ کا پروگرم انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اِس پروگرام کے ذریعے عوام کو گھریلو پیمانے پر سبزیاں اُگانے کی ترغیب دی گئی ہے۔اِس طرح کے اقدامات خوراک کی فراہمی کی صورت حال کو بہتر بنانے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
پاکستان میں غذائی صورت حال کو درپیش اہم مسئلہ خوردنی تیل اور دالوں کی پیدا وار میں کمی کا ہے۔نامساعد موسمی حالات کی وجہ سے چنے کی پیدا وار میں کمی واقع ہوئی ہے۔دالیں غذائیت کا اہم جزوہیں اور یہ اب عام آدمی کی پہنچ سے دُور ہوتی جارہی ہیں۔ دالوں کی پیدا وار بڑھانے کے لئے حکومت، زرعی سائنس دانوں اور کاشت کاروں کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔زرعی سائنس دان ایسی پیداواری ٹیکنالوجی وضع کریں، جس کے استعمال سے دالوں کی کاشت کو منافع بخش بنایا جاسکے۔ حکومت کو بھی دالو ں کی مارکیٹنگ کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے او ر کاشت کاروں کو دالو ں کی پیدا وار اعلیٰ نرخوں پر فروخت کرنے میں جو مسائل درپیش ہیں، اُنہیں حل کرنا چاہیے۔غذائی لحاظ سے ہمارا سب سے اہم مسئلہ خوردنی تیل کی بڑھتی ہوئی درآمدات اور پیدا وار میں کمی کا مسئلہ ہے۔ خوردنی تیل کی درآمدات میں لگا تار اضافہ ہورہا ہے جوتشویش کا باعث ہے۔2008-9 ءمیں 137 ارب روپے کا خوردنی تیل درآمد کیا گیا۔2009-10ءمیں خوردنی تیل کی درآمد 162 ارب روپے تھی جو2010-11ءمیں بڑھ کر220 ارب ہوگئی ۔ اِس سال240ارب روپے خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہوں گے۔
ہمارے ہاں خوردنی تیل کا فی کس استعمال بھی بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں فی کس19کلو گرام، جبکہ انڈیا میں13کلو گرام ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر پام آئل درآمد کیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں سورج مکھی اور کینولہ سرسوں سے جو تیل حاصل ہوتا ہے، اُس کی کوالٹی پام آئل سے بہت بہتر ہے۔اِس وقت ملک میں مقامی طور پر جو خوردنی تیل پیدا ہوتا ہے، اُس میں سے51فیصد کپاس کے بیج سے،35فیصد سورج مکھی سے اور صرف14فیصد سرسوں سے حاصل ہوتا ہے۔ سرسوں کی کینولا اقسام کی کاشت کو فرو غ دینے کی ضرورت ہے۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کی دو نئی اقسام ....پنجاب سرسوں اور فیصل کینولا ....کافی بہتر ہیں،لیکن کینولا اقسام پر مزید تحقیق کرکے نئی اقسام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں خوردنی تیل اور دالوں کی پیدا وار میں کمی کے اہم مسائل میں سرفہرست یہ مسئلہ ہے کہ اُن کی کاشت کو منافع بخش نہیں بنایا جاسکا۔اگر کاشت کار کو اُن کی پیداوار کے منصفانہ معاوضے دئیے جائیں تو ملک میں دالوں اور خورد نی تیل کی پیدا وار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو خوردنی تیل اور دالوں کے حوالے سے جو غذائی مسائل درپیش ہیں، اُن کو با آسانی حل کیا جاسکتا ہے۔
عالمی یوم خوراک2012ءکے لئے اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک وزراعت نے جو تھیم دی ہے، اُس کے مطابق زرعی کوآپرٹیوز دنیا سے بھوک کے خاتمے کی کنجی ہیں۔یہ تھیم پاکستان کے حالات سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔ پاکستان میں کاشت کاروں کی اکثریت چھوٹے کاشت کاروں پر مشتمل ہے۔یہ کاشت کار چھوٹے فارم ہونے کی وجہ سے جدید زرعی ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ چھوٹے کاشت کار زرعی لوازمات، مثلاً کھاد،بیج، کرم کش زہریں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنی پیدا وار منصفانہ نرخوں پر فروخت کرسکتے ہیں۔ زرعی کوآپریٹوز کے ذریعے چھوٹے کاشت کاروں کے اِس طرح کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور اُن کی زرعی پید وار میں اضافہ ممکن ہے۔ماضی میں پاکستان میں کوآپرٹیوز کا تجربہ ناکام ہوچکاہے، لیکن ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔اُس وقت پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم تھی۔ اِس وقت دیہاتوں میں پڑھے لکھے افراد، بالخصوص نوجوان کافی تعداد میں ہیں۔تعلیم یافتہ افراد کے ذریعے زرعی کوآپرٹیوز کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔اِس وقت دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں کوآپرٹیوز کامیابی سے کا م کررہے ہیں۔اِن ممالک میں امریکہ،یورپ ،افریقی ممالک اور ایشیا میں بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور عوامی جمہوریہ چین میں کوآپریٹو کے ذریعے پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو بھی اِن ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زرعی کوآپریٹوز کے ذریعے چھوٹے کاشت کاروں کے زرعی مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔