ہم کوفہ والوں کی روائیت نبھا رہے
ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان آنے سے پہلے ہی متنازعہ شخصیت بن چکے تھے۔ سوشل میڈیا دانشوروں کو خدا جانے اُن سے کیسی پرخاش تھی، اُن کا بس چلتا تو ان کا دعوت نامہ کینسل کروا دیتے۔ لیکن کار سرکار میں مداخلت کا آجکل خاصا بھاری تاوان دینا پڑتا ہے بلکہ کئی بار تو 12 ضلعوں کا سفر خالی جیب بھی طے کرنا پڑجاتا ہے اور کئی بار خاکی وردی والے چہرے پہ میٹھی مسکان سجائے ڈنڈے سے طبیعت صاف کرکے درست سمت بھی متعین کر دیتے ہیں، اس لئے ایسے دانشوروں نے براہ راست تو سرکار سے پنگا لینے سے اجتناب کیا، لیکن سرکاری مہمان کا بھی وہ حال کیا کہ وہ دنیا بھر میں جہاں بھی جائے گا، اسے شریر پاکستانی یاد آئیں گے۔ سوشل میڈیاء دانشوروں اور لبرلز کی صف میں کھڑے لوگ ایسا ایسا بول بول رہے کہ مہمان سے منہ چھپانے کی نوبت آرہی۔ (غلطی مہمان کی بھی ہے جو بلا سوچے بول رہے) خدا جانے ان دانشوروں کو اتنا شعور نہیں کہ گھر آئے دشمن سے بھی حسن سلوک کیا جاتا ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر ایسے شرارتی بچے بنے ہوئے جو مہمان کی دھوتی چھپا دیتے ہیں۔ ذاکر نائیک ہمارے دشمن نہیں سرکاری مہمان ہیں۔ کیا مہمان کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہیئے جو ہم کررہے۔ ایسا کبھی ہوا کہ گھر آیا مہمان کوئی ایسی بات کہہ دے جو ہمیں ناگوار گذرے تو جواباً ہم مہمان پر پھبتیاں کسنا شروع کردیں۔ گو کہ مہمان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ وہ ایسا کچھ نہ کرے جو میزبان کو برا لگے پھر بھی عموماً مہمان کے سامنے میزبان خاموش ہی رہتے ہیں۔
مذہب بیزار لوگ خود پہ ملحد کا ٹیگ لگا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ مولوی کتنا ہی پڑھا لکھا ہو اسے جاہل اور خود کو مہذب سمجھتے ہیں۔ لیکن یہاں ان لوگوں کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ مہمان چاہے بیوقوف ہی کیوں نہ ہو، کوئی بھی مہذب انسان اس طرح گھر آئے مہمان کا تمسخر نہیں اڑاتا، یہ مہمان کی نہیں ہماری اپنی توہین ہے، سرکار کی توہین ہے۔
ڈاکٹر ذاکر کے خلاف لکھنے والوں سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے اور مزے کی بات یہ کہ زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بھی لکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بھی لکھ رہے جنھیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ڈاکٹر ذاکر ہے کون؟ جن لوگوں کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر غلط ہیں، (بعض باتوں میں وہ ہیں بھی) تو جو لوگ مہمان بن کے آئے ڈاکٹر ذاکر کی ذات کو تمسخر کا نشانہ بنا رہے، کیا وہ ٹھیک ہیں؟
ہر انسان کی طرح ڈاکٹر ذاکر کی ذات میں بھی بہت سی خامیاں ہوں گی، کچھ لوگوں کو ان کی باتیں پسند نہیں تو کچھ کو وہ پورے کے پورے پسند نہیں ہوں گے۔ نا پسند ہونے یا کسی میں خامیاں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے گھر بلا کر بے توقیر کیا جائے۔
جنھیں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اختلاف ہے انھیں چاہیئے تھا کہ ان سے علمی نوعیت کی سطح پہ آکر مکالمہ کرتے، ڈاکٹر ذاکر کی دانشوروں، علما اور طالب علموں کے ساتھ ایک نشست لازمی ہونی چاہیئے۔ جس میں وہ سارے سوالات اٹھائے جانا چاہئیں جن سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے اور ڈاکٹر ذاکر کی ذات کا طلسم ٹوٹا، ان سے یہ بھی ضرور پوچھا جائے آپ نے ایسا کہا تو اس سے پہلے آپ ایسا کیوں کرتے رہے ہیں۔ یہ سوال بھی پوچھے جانا چاہئیں کہ غیر محرم عورت کو شیلڈ دینا غلط ہے تو غیر محرم کو انٹرویو دینا کیسے ٹھیک ہے، آپ گناہ ثواب کے چکر میں سٹیج سے اتر سکتے ہیں تو خاتون کو انٹرویو دینے سے انکار کیوں نہیں کر سکتے؟ خاتون کو انٹرویو دینے کے بعد کیا آپ کو سائیکاٹرسٹ کی ضرورت پڑی؟ اگر نہیں پڑی تو کیوں؟ آپ دین کی بات کرتے ہیں اور دین پر عمل بھی نہیں کرتے۔ پی آئی اے سے فیور بھی چاہ رہے، آپ خلاف دین کیوں جا رہے؟ یہ سوالات ان سے روبرو ہونا چاہئیں، لیکن لوگوں نے سوشل میڈیا پہ ان کی ٹرولنگ شروع کر دی۔ ہر روز ڈاکٹر ذاکر تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں، ہم خود کو حضرت محمدؐ کے امتی کہتے لیکن روائیت کوفہ والوں کی نبھارہے ہیں۔ سوچیں بلائے گئے مہمان سے ایسا سلوک کریں گے تو کون اس ملک میں آئے گا، اس طرح کرنے سے پوری دنیا میں ہمارا اپنا تاثر خراب ہورہا ہے کہ یہ کم علم اور غیرسنجیدہ لوگوں کا ملک ہے جہاں جہالت عام ہے اور پھبتیاں کسنا یہاں کے لوگوں کی خصلت ہے۔ لگتا ہے چند لوگوں نے ٹھان لی ہے کہ ملک کا یہ تاثر بھی ختم کر کے دم لیں گے کہ پاکستانی مہمان نواز ہیں۔ بحیثیت قوم اپنا اتنا بھرم تو رہنے دیں کہ آپ واقعی پڑھے لکھے باشعور لوگ ہیں، ضروری ہے کہ دوسرے کی سطح پہ آکر ہی بات کی جائے۔ گو کہ ڈاکٹر ذاکر بھی انجانے میں کوئی نہ کوئی شرلی چھوڑ دیتے ہیں۔ جس سے شغل نہ لگے ممکن نہیں رہتا لیکن یہ بھی انتہائی غیر مہذب لگ رہا کہ ہم اپنے مہمان کو وہ عزت نہیں دے پا رہے جو ہماری روائیت ہے۔ یہ ہاسیاں کھیڈیاں مہمان کے جانے کے بعد بھی ہو سکتی ہیں، کیا ضروری ہے کہ مہمان کو دوبارہ آنے سے روکنے کے لئے توبہ تائب کروا کر ہی واپس بھیجنا ہے۔