کوہ سلمان پر سورج کی ڈوبتی کرنیں جیسے رقص کر رہی ہیں، لکڑیوں کا الاؤ خنک رات میں راحت بخش ہے،کھانے کی بھینی بھینی خوشبو نے بھوک اور چمکا دی

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:139
مجھے خوشی ہے کہ ہماری تحقیق اور متعلقہ حکام کی کی بروقت کاروائی سے پچھلے چند برسوں میں ڈولفن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ خوش کن ہے لیکن ابھی بھی ہمیں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس رپورٹ کے بعد انڈس ڈولفن کی نسل کو بچانے اور دوستانہ ماحول مہیا کرنے میں مدد ملے گی۔ہاں! جہاں تک نذیر میرانی کا تعلق ہے اس کا خاندان تین نسلوں سے میری ڈولفن کی رکھوالی اور تحفظ میں لگا ہے۔ اس کا والد یہی کام کرتا تھا اب نذیر بھی اور اپنے بیٹے کو بھی وہ یہی تربیت دے رہا ہے۔ نذیر اب تک تقریباً ایک سو پچاس(150) ڈولفن کو ریسکیو کر چکا ہے۔ ڈولفن خوراک اور پانی کی کمی کی وجہ سے قریبی نہروں میں چلی جاتی ہیں اور نذیر کی ریسیکو کی گئی ڈولفن بھی نہروں میں ہی چلی گئی تھیں اگر ان کو دوبارہ میرے پانی میں نہ لایا جاتا تو یہ مر جاتیں۔میرانی ماہی گیر قبیلہ ہے جس کا گزر مچھلی کے شکار پر ہے مگر نذیر کے والد نے اپنے آبائی پیشہ چھوڑ کر ڈولفن کے تحفظ کا شوق اپنایا اور اب اس کا بیٹا اور پوتا بھی اُسی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔“ میں نے سندھو سے پوچھا؛ ”یار!تمھاری ڈولفن کو اندھا کیوں کہا جاتا ہے؟“ اس نے جواب دیا؛”سمندری ڈولفن کے برعکس میری ڈولفن کی آنکھیں صاف تصویر دیکھنے کے قابل نہیں ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈولفن لاکھوں سالوں سے میرے گدلے پانی میں رہتی چلی آئی ہے جہاں ویسے بھی صاف نظر نہیں آتا۔ طویل عرسے سے استعمال نہ ہونے کے باعث ارتقائی عمل کے تحت اس کی بنیائی ہی ختم ہو گئی ہے البتہ آنکھوں کی شکل برقرار ہے۔“
دن کی کم ہوتی روشنی اترتی شام کا پیغام ہے۔ بھوک بھی لگی ہے۔ نین تو اپنی بھوک کا کئی بار اشارہ کر چکی ہے۔مشتاق اور باس بھی بھو ک کے اشارے کر چکے ہیں۔ کشتی ساحل کا رخ کئے ہے۔ ہمارے سامنے خشک زمین ابھرنے لگی ہے۔ رات یہیں قیام ہو گا۔ کشتی لنگر ڈال چکی ہے۔ چاچا گاموں اور مشتاق حسب معمول لکڑیاں جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ رات کا کھانا مٹر چاول مچھلی اور وسٹ مرغابی۔درمیانے سائز کی چند مچھلیاں تھوڑی دیر ہی پہلے پیر بخش کے جال میں پھنسی ہیں۔ وہ ان کو صاف کرکے مصالحہ لگانے لگا ہے اورہم کیمپ گاڑنے۔
کوہ سلمان پر سورج کی ڈوبتی کرنیں جیسے رقص کر رہی ہیں۔روشنی ہر لمحہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ ہی دیر میں نارنجی رنگ کی پہاڑی چوٹیاں اندھیرے میں ڈوب جائیں گی۔ سندھو کا چمکتا پانی بھی اسی سیاہ اندھیرے میں گم جائے گا۔ گہری ہوتی خاموشی میں سندھو کا شور کچھ زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔
پھیلتی رات کے ساتھ خنکی بڑھ رہی ہے۔ لکڑیوں کا الاؤ خنک رات میں راحت بخش ہے اور جنگلی جانوروں کو دور رکھنے کا آزمودہ نسخہ ہے۔کھانے کی بھینی بھینی خوشبو نے بھوک اور چمکا دی ہے۔ زمینی فرش پر دستر خوان سجا ہے۔ واہ مٹر چاول، مچھلی اور بھنی ہوئی مرغابی۔ لگتا ہے کہ حضور بخش نے کھانا بنانے کی ساری مہارت اور ذائقہ ان پکوانون میں اتار دیا ہے۔ لذیز کھانا منٹوں میں ہی چٹ ہو گیا ہے۔ سبھی نے کھانے کی خوب تعریف کی مگرنین کی تعریف قابل ذکر ہے کہ وہ خود بھی بہت اچھا کھانا بناتی ہے کشمیرن جو ٹھہری۔ چائے کا دور ختم ہوا تو ایک ایک کرکے سبھی سونے کی تیاری میں ہیں۔واہ! آج چودھویں کا چاند ہے۔
رات کی سیاہی دور دور تک پھیلی ہے۔ چودھویں کا چاند اور اس کی چاندنی نے کمال سماں تراش دیا ہے۔ سندھو کا جل ترنگ اور چندا ماموں کی حد نظر پھیلی چاندنی اس سناٹے دار تنہائی میں میرے ساتھی ہیں۔ جل ترنگ سندھو کی محبت اور چاندنی رومانس کا سندیسہ ہے۔ مجھے نین کا انتظار ہے۔نین کے خیالوں میں ڈوبا تاحد نظر پھیلی چاندنی کو سندھو کے پانی سے مچلتے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے چاندنی میں ایک سراپا اپنی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ قریب آتا یہ سایہ نین کا ہی ہے۔ وہ میرے سامنے آ کر کھڑی ہو ئی کندھے سے نیچے تک بکھرے ہوا میں لہراتے سنہرے گیسو، گلابی چہرہ، شرابی آنکھیں، چاندنی میں نہایا ماحول۔ وہ دوزانو میرے سامنے بیٹھی ہے۔ پانی کی ایک موج ہمیں سر تا پاؤں گیلا کر کے اس رومانس پر اپنی شہادت کی مہر لگا گئی ہے۔ روشن رات کو اچانک شایدبادلوں نے تاریک کر دیا ہے صرف چند ستارے ہی کہیں کہیں ٹمٹماتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چاند بادلوں میں کھو گیا ہے۔ ہم جدا ہوئے تو پرسکون ہیں بالکل ایسے ہی جیسے صبح کے وقت سندھو پرسکون ہوتا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)