قرضے کی خوش خبری

   قرضے کی خوش خبری
   قرضے کی خوش خبری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر خزانہ نے یہ ’خوش خبری‘ دی ہے کہ آج، یعنی بدھ کے روز آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے پیکیج کی منظوری کا امکان ہے۔انہوں نے یہ خوش خبری بھی سنائی ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آ رہا ہے۔ یہ پتا نہیں کیسا معاشی استحکام ہے کہ مزید قرضوں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ چند روز پہلے جب آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی امید بندھی تھی تو ہمارے حکمران خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ تب ایک دوسرے کو اس کامیابی کا کریڈٹ دیتے ہوئے مبارکباد کا تبادلہ بھی کیا گیا تھا۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کیسا کریڈٹ اور کس چیز کی مبارکبادیں کہ ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں اور اپنی معاشی بقاء کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں؟ کیا اس بات کی مبارکباد کہ یہ قرضہ ملنے کی صورت میں ہم تباہی کے اس گڑھے میں گرنے سے وقتی طور پر بچ جائیں گے؟ کیا اس بات کی مبارکباد اور اس چیز کی خوشی کہ ملک اور قوم پر کئی ارب ڈالر مزید قرضہ چڑھ جائے گا۔پاکستان پر اور اس کے عوام پر پہلے ہی اتنا قرضہ چڑھ چکا ہے کہ جس کو اتارتے اتارتے صدیاں بیت جائیں گی۔اس پر مزید قرضے کا حصول اور اس پر خوشی کا اظہار چہ معنی دارد؟ 

پاکستان پر کتنا قرضہ چڑھ چکا ہے اور مزید قرضہ لینے سے ہر پاکستانی پر قرضے کا بوجھ کتنا بڑھ جائے گا اس کا اندازہ سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے مجموعی قرضے 68 ہزار 914 ارب روپے کی بلند سطح پر پہنچ گئے ہیں اور یہ کہ جون 2023ء کے مقابلے جون 2024ء میں حکومت کے مجموعی قرضوں میں 13.30 فیصد اضافہ ہوا، یعنی ایک سال میں حکومت کے مجموعی قرض میں 8 ہزار 73 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس طرح پاکستان کا ہر شہری 2 لاکھ 87 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ اس نئے پیکیج کے بعد فی کس قرضے کا حجم کہاں جا پہنچے گا،اس بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ 

امسال اگست میں وفاقی وزارت اقتصادی امور نے ملک میں برسرِ اقتدار رہنے والی مختلف سیاسی جماعتوں کے حوالے سے جو اعداد وشمار جاری کیے‘ ان کے مطابق آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے والی پاکستانی حکومتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی  7ارب 72 کروڑ 59 لاکھ ڈالر سے زائد قرض کے ساتھ سرفہرست ہے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ(ن) ہے جس نے مجموعی طور پر 6 ارب 48 کروڑ ڈالر قرض لیا۔ پاکستان تحریک انصاف مختصر عرصے میں سب سے زیادہ قرض لینے والی جماعت کی فہرست میں  6 ارب ڈالر قرضے کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ قرضوں پر قرضے لئے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ریونیو زیادہ سے زیادہ اکٹھا کرنے کے لئے فائلر اور نان فائلر کے معاملات پر سختی کی جا رہی ہے۔اس حوالے سے تازہ خبر یہ ہے کہ حکومت نے اصولی طور پر نان فائلرز کیٹیگری کو ختم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے اور اب تمام افراد کو معیشت میں نقد لین دین کو بینکنگ چینلز کے ذریعے ٹرانزیکشن کا پابند بنایا جائے گا۔ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس حوالے سے تمام اہم صنعتوں کے نمائندوں سے کہا ہے کہ ہمیں لازمی طور پر نان فائلرز کے تصور سے نکلنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ نان فائلنگ دھوکا دہی کا ایک طریقہ ہے جو مقامی طور پر قائم کیا گیا ہے، ایف بی آر ایڈیشنل ڈیٹا کی مدد سے لوگوں کے مالیاتی لین دین کا جائزہ لے گا،رجسٹرار کے دفتر میں جائیداد کی لین دین کی دو کیٹیگریز ہوں گی، اہل اور نااہل۔

اچھی بات ہے ٹیکس کی ادائیگی ہر شہری کا فرض اور ہر حکومت کا حق ہے کہ اس طرح حاصل ہونے والے ریونیو سے ہی امور مملکت چلتے ہیں،حکومتی اخراجات اور سرکاری اداروں کے لوازمات پورے ہوتے ہیں، لیکن اس حوالے سے دو تین مسائل ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پنجاب میں 119، سندھ میں 82، خیبرپختونخوا میں 54 اور بلوچستان میں 12اقسام کے ٹیکسز کا اطلاق ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ٹیکسوں کے ساتھ، کیسے (ممکنہ طور پر) ان لوگوں کو رضاکارانہ طور پر سامنے آنے اور اس نظام میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتے ہیں جو اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے گریزاں ہیں؟ اس کے علاوہ ٹیکس کے موجودہ نظام میں ٹیکس  پالیسیوں کا ہدف صرف وہ لوگ ہیں جو پہلے سے ہی ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں،جبکہ ٹیکس نیٹ میں وسعت کا ہدف ان لوگوں کو ہونا چاہئے،جو ابھی تک اس نیٹ میں شامل نہیں ہیں۔

ہمارے ملک میں برسر اقتدار آنے والی تقریباً ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دے گی اور ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا جو اب تک ٹیکس نہیں دیتے یا جو ٹیکس کی چوری کرتے ہیں۔یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ٹیکس ان لوگوں سے لیا جائے گا یا زیادہ وصول کیا جائے گا جو روزانہ لاکھوں کماتے ہیں اور عوام کو ریلیف دیا جائے گا، لیکن ہوتا یہ رہا ہے کہ ٹیکس یا تو تنخواہ دار طبقے پر عائد کیا جاتا ہے یا پھر ان لوگوں پر ٹیکس بڑھایا جاتا ہے جو پہلے سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں یا پھر مختلف یوٹیلٹیز میں ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر ریونیو اکٹھا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جیسے بجلی اور گیس کے بل۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک ٹیکس نیٹ کو اس طرح وسعت نہیں دی جا سکی، جس طرح دینے کی ضرورت تھی یا اب بھی ہے۔

 میرے خیال میں جو چیز عوام کو ٹیکس کے معاملات سے دور کرتی ہے یا خدشات اور تحفظات کا شکار بناتی ہے وہ ٹیکس کے نظام کا پیچیدہ ہونا ہے۔ کوئی ایسا نظام نہیں ہے کہ ایک بندہ اگر ٹیکس دے رہا ہے تو اس کے ادا کردہ ٹیکسز کی تفصیلات ادارہ اسے فراہم کرے اور جس جس ریلیف کا وہ حق دار ہے وہ بھی اسے ملے، اُلٹا یہ کیا جاتا ہے کہ ایک بندہ جو ٹیکس دے رہا ہے وہ ہر سال ادا کردہ ٹیکسوں کے گوشوارے بھی جمع کرواتا ہے۔اس پیچیدہ نظام کی وجہ سے بھی لوگ ٹیکسز سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ حکومت کو اگر ضرورت ہے تو ٹھیک ہے ٹیکس اکٹھا کرے، اگر ضرورت ہے تو بیرون ملک سے قرض بھی لیا جانا چاہئے،لیکن اہم سوال یہ ہے کہ جو ٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے وہ کہاں جاتا ہے؟ دوسرا یہ ہے کہ اتنا ٹیکس اکٹھا کرنے کے باوجود قرضے لینے کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ جو قرضے لیے جاتے ہیں،وہ کہاں جاتے ہیں کہ ان پر واجب الادا سود کی ادائیگی تک کے لئے مزید کرتے لینا پڑتے ہیں؟ میرے خیال میں اگر ان معاملات کو، ان پیچیدگیوں کو کچھ کم کر لیا جائے تو ٹیکس ریونیو میں حکومت کی خواہش کے مطابق اضافہ ہو سکتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -