بگٹی خاندان کی بزرگ خاتون کا انتقال
نواب اکبر بگٹی سے سیاسی دوستانہ ایک عرصے پر محیط ہے۔ ان کے سرد و گرم حالات سے کچھ کچھ آگاہی ضرور ہے۔ یہ تعلق دسمبر 1973ء سے شروع ہوا اور 2006ء تک رہا۔ ان سے آخری رابطہ موبائل پر ہوا وہ اس وقت بگٹی علاقہ کے قریبی پہاڑوں میں نبرد آزما تھے۔ ایک خاندانی نواب کو تمام تر سہولتیں حاصل تھیں، ان سب کو ترک کرکے ان پہاڑوں میں چلے گئے، جس کے دامن اور سینے میں نہ جانے کتنے سور ماؤں اور بہادروں کی داستانیں رقم ہوں گی۔ ان سے کتابوں کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا ان کا تاریخ کا مطالعہ بہت وسیع تھا اس طرح بلوچی شاعری اور انگریزی شاعری سے بہت زیادہ لگاؤ تھا، بعض دفعہ اچھے موڈ میں ہوتے تو وہ بلوچی اور انگریزی شاعری سناتے تھے۔ ان سے کچھ کچھ بے تکلفی بھی تھی۔ ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جب انہوں نے اپنی محفل میں یہ سوال پوچھا تھا تو مجھے بالکل ہی خیال نہ آیا کہ نواب صاحب فیصلہ کرچکے تھے اور اس راز کو وہ سب سے چھپا رہے تھے۔ اس رات اس محفل میں خدائے نور ، حاجی سلطان ،کاکو، ملک انور کاسی موجود تھے۔ کھانے کے بعد جب محفل جم گئی تو ہنستے ہوئے پوچھا کہ آج آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں جواب ضرور دیں۔ انہوں نے سوال کیا تو ہم سب حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے ان کی آنکھوں میں شوخی تھی اور مسکرا رہے تھے کسی نے ہاں کی اور کسی نے شاید نہ کی مجھ سے پوچھا تم بتاؤ ان سے کہا اچھی بات ہے اسلام میں اس کی اجازت ہے۔ اگر آپ کو کوئی پسند آ گئی ہے تو شادی ضرور کر لیں۔۔۔ مگر پھر انہوں نے ہمارے جوابات سے پہلے شادی کرلی تھی، یہ ایرانی نژاد بلوچ خاتون تھی ان سے ان کا ایک لڑکا بھی ہوا اس سے شادی کا صرف جمیل بگٹی کو علم تھا۔ یہ مجھے جمیل بگٹی نے بتلایا کہ جب وہ اپنے چھوٹے سو تیلے بھائی کو سکول داخل کرانے لے گئے تو سکول کے پرنسپل نے پوچھا والد کا نام بتلائیں تو مَیں نے کہا محمد اکبر خان بگٹی ہے، جب نواب صاحب تصادم میں مارے گئے تو ان کے بیٹے کی عمر شاید 17 یا 18 سال تھی۔ قارئین محترم: یہ ایک طائرانہ نگاہ تھی جو نواب بگٹی کی ذاتی زندگی سے متعلق تھی۔ نواب سے بے تکلفی، ایک دور تھا اور جب ان کا موڈ اچھا ہوتا اور ان کے ساتھ رات گئے تک محفل جمتی تو پھر بہت کچھ ان سے پوچھتا تھا اور وہ مجھے سب کچھ کھل کر بتاتے تھے۔نیپ سے تعلقات کے بارے میں بہت تفصیل سے بتاتے۔ اس وقت ان کے چہرے پر کشیدگی اور کھچاؤ کے آثار بڑے نمایاں ہوتے اور آواز بھاری ہو جاتی تھی۔جب موڈ ہوتا تو کئی دن کہیں کہانیاں سناتے تھے۔ ایک ایسی شام کو ان سے پوچھا کہ نواب صاحب پہلی شادی کب ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ مَیں نویں جماعت میں پڑھ رہا تو میری شادی والد مرحوم نے کرادی یہ ان کی نو عمری کی شادی تھی، تیسری شادی اس وقت کی جب وہ 60 سال سے زیادہ عمر کے تھے نواب صاحب کی پہلی اہلیہ ان کے اپنے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ قارئین محترم: نواب بگٹی کا خاندان ان کی شہادت سے پہلے اور بعد میں بکھرا، وہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے نواب نے لڑنے سے پہلے اپنے خاندان کو کراچی پہنچادیا اور آخری معرکے سے پہلے اپنے دونوں پوتوں براہمدغ بگٹی اور نوابزادہ عالی بگٹی کو ملک سے چلے جانے کا کہا، جس طرح نواب بگٹی نے اپنی زندگی میں اپنے خاندان کے چشم و چراغ کی اموات دیکھیں اسی طرح نواب صاحب کی اہلیہ اور سلیم بگٹی اور طلال بگٹی کی والدہ نے بے شمار غم دیکھے۔ انہیں سب سے بڑا صدمہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے سلال بگٹی کے بہیمانہ قتل سے پہنچا تھا، جس روز انہیں قتل کیا گیا تو اس وقت نیشنل لیبر فیڈریشن کے دفتر واقع نتھا سنگھ سٹریٹ میں میر داد خیل کے ساتھ گپ شپ لگا رہا تھا کہ بہت تیزی سے نواب بگٹی اپنی گاڑی میں گزرے، مَیں حیران ہوگیا کہ نواب صاحب اتنی تیزی سے گاڑی کیوں چلارہے تھے، چند لمحوں بعد معلوم ہوگیا کہ ان کے صاحبزادے سلال بگٹی کو کسی نے دن دیہاڑے جناح روڈ پر قتل کردیا ہے، بازار بند ہونا شروع ہوگئے تھے اور ایک ان دیکھا خوف شہر میں طاری ہوگیا۔ مَیں فوراً بگٹی ہاؤس جانے کے لئے چل پڑا، جب بگٹی ہاؤس کی گلی میں پہنچا تو نواب کے گھر سے خواتین کی آہ و بکا بلند ہورہی تھی۔ لاش ان خواتین کے سامنے رکھی ہوئی تھی، سلال کی ماں ،بہنیں ، بیوی اور خاندان کی دیگر خواتین کی دلدوز آہ و بکا آسمان تک بلند ہورہی تھی، میرا دل بھر آیا۔ بگٹی ہاؤس نہیں جاسکا لوٹ آیا۔ اسی روز ایران روانہ ہورہا تھا فلائٹ کینسل ہوگئی تھی دوسرے روز چلا گیا آج سوچتا ہوں تو دل بیٹھنے لگتا ہے کہ سلال کی والدہ پر کیا قیامت گزری ہوگی؟ چھوٹا بیٹا ان کے سامنے لاش کی صورت موجود ہوگا، سلال سے پہلے ان کی جوان بیٹی فوت ہوگئی تھی، نواب کی اہلیہ کی زندگی میں غموں نے ڈیرے ڈال دیئے تھے، اس کے بعد ان کا سب سے بڑا بیٹا سلیم بگٹی فوت ہوگیا۔ یہ دوسرا بڑا صدمہ تھا پھر نواب کے چھوٹے بھائی احمد نواز فوت ہوگئے، ایک اور صدمہ ہوا۔ نواب اور ان کی اہلیہ کو بہت سے صدموں کا سامنا تھا اور یہ صدمے کسی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ جب تک دونوں زندہ تھے تو یہ غم ان کا مشترکہ تھا پھر اس کے بعد سلیم بگٹی کے والد اور نواب بگٹی کی اہلیہ کو سب سے بڑا غم سہنا پڑا کہ ان کا خاوند اور زندگی بھر کا ساتھی بڑے بہیمانہ طریقے سے جنرل پرویز مشرف کی ایماء پر قتل کردیا گیا۔ یہ بلوچستان کی تاریخ کا سیاہ ترین ترین باب ہے، جس کو بلوچ قوم کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ نواب اکبر بگٹی کو چند لوگوں کے درمیان دفن کردیا گیا،نواب کا خاندان اپنے بزرگ شخص کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکا۔ نواب کا خاندان اب بھی یہ یقین رکھتا ہے کہ جس کو دفن کیا گیا وہ اکبر خان کا جسم نہیں تھا معلوم نہیں کون تھا تابوت خالی تھا یا اس میں کچھ بھر دیا گیا تھا۔ نواب کی بیگم کے لئے خاوند کی شہادت سب سے بڑا صدمہ تھا اتنے بڑے غموں اور صدموں کو اس دلیر اور صابر خاتون نے بڑے حوصلے سے سہا۔ ان سارے صدموں ، غموں اور حادثات کو جھیلتے ہوئے بالآخر اس دُنیا سے رخصت ہو گئی۔ لوگوں نے بتلایا کہ نواب بگٹی کی ا ہلیہ کا جنازہ بہت بڑا تھا، ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور بڑی خیرات کی گئی۔ ان کی وفات سے قبل جمیل بگٹی کی والدہ فوت ہوئیں اور ان کے چند سال بعد طلال بگٹی کی والدہ بھی فوت ہوگئیں، اللہ سے دُعا ہے کہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے۔ یہ خواہش بھی ہے اور دُعا بھی ہے کہ نواب کا بکھرا ہوا خاندان دوبارہ ایک ہو جائے، نفرتیں اور دوریاں ختم ہوجائیں اور جو وطن سے دور ہیں، وطن لوٹ آئیں۔ *