نئے منصوبے قابل تعریف، پہلے سے موجود سہولتوں کی دیکھ بھال بھی لازم!

وزیراعلیٰ مریم نواز کی صدارت میں صوبے کے لئے ترقیاتی کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب شہروں کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور ابتداء لاہور سے ہوئی ہے، اطلاعات کے مطابق لاہور کے لئے 137ارب روپے مختص کئے گئے اس بڑی رقم سے پینے کے پانی، سٹریٹ لائٹ کی تنصیب، سڑکوں گلیوں کی تعمیر و مرمت، سیوریج کا بہتر نظام،نئے ٹیوب ویل، ڈسپوزل سٹیشن اور پانی صاف کرنے کے لئے نئے فلٹر پلانٹ بھی نصب ہوں گے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کے مطابق اس جدید اور مربوط ترقیاتی پروگرام کا آغاز لاہورسے ہوا ہے نئے سال کے لئے بجٹ کی منظوری کا مرحلہ قریب ہے، دیگر شہروں کے لئے اسی نوعیت کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری نئے سال کے بجٹ میں لی جائے گی اور نیا سال نئی سہولتوں کے آغاز سے ہوگا۔
صوبائی حکومت کا یہ منصوبہ اور سلسلہ قابل قدر ہے، ہم نے ہمیشہ اچھے کام کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جبکہ نقائص کی نشاندہی اس جذبے کے ساتھ کی کہ درستگی کے لئے اقدامات کرلئے جائیں۔ مجھے یقین ہے کہ 137ارب کی خطیر رقم کے جن ترقیاتی کاموں کا تفصیل سے ذکر کیا اور اسے مشتہر بھی کیا گیا ہے تو پی سی ون کی منظوری سے قبل تمام پہلوؤں پر غور کیا گیا ہوگا، خصوصی طور پر 316کلومیٹر سیوریج لائنز کے لئے یہ طے کرلیا گیا ہوگا کہ تکنیکی طو رپر بہاؤ اور سائز درست ہو اور ماضی کی طرح نئی سڑکیں اکھاڑ پر نکاسی آب کی یہ سہولت مہیا نہ ہو، اس کے علاوہ یہ بھی قابل ذکر مسئلہ ہے کہ سیوریج کے لئے کی گئی کھدائی،تنصیب مکمل ہونے کے بعد درست اور پہلے کی طرح بحال کردی جائے گی۔ اس وقت معاشی، سیاسی اور برصغیر میں پاک بھارت کشیدگی کے جو حالات ہیں، ان سے ہر کوئی باخبر ہے ان حالات میں صوبے کے اپنے بجٹ سے اتنے بڑے بڑے منصوبوں کی شروعات اور تکمیل یقینا قابل ستائش ہے، تاہم ماضی کے حالات سبق آموز ہیں جن کے مطابق پہلے سے درست کاموں اور تھوڑی رقم سے مرمت ہو جانے والی سہولتوں کی جگہ نئے منصوبے نہ بن جائیں اور مرمت کا کام مرمت ہی کے بجٹ میں شامل ہے۔
اچھے کاموں کی تعریف لازم تو یہ عرض کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ پنجابی محاورے کے مطابق ”اگا دوڑ،پچھا چوڑ“نہ ہو اور پہلے سے موجود سہولتیں نہ صرف برقرار رہیں بلکہ ان کی دیکھ بھال بھی ہو، نئے ترقیاتی منصوبے کے تحت شہر میں 85ہزار نئی سٹریٹ لائٹس نصب ہوں گی کہ شہر روشن ہوکہ آج کل کے حالات میں جرائم پیشہ حضرات تاریکی سے تو فائدہ نہ اٹھاپائیں، تاہم دیکھنے والا عمل یہ ہے کہ پہلے سے نصب سٹریٹ لائٹس کی موجودہ پوزیشن کیا ہے اور کیا دیکھ بھال والے عملے نے اپنے فرا ئض دیانت داری سے ادا کیے ہیں، اس سلسلے میں میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ شہری ترقیاتی کاموں سے منسلک بلدیاتی یا محکمہ جاتی عملہ غفلت کا ثبوت دیتا ہے، تنصیب شدہ سٹریٹ لائٹس تو جلائی ہی نہیں جاتیں اور خراب والی درست نہیں ہوتیں۔ گزشتہ شام کینال روڈ کے راستے گھر آیا تو کینال سڑکوں کے ایک طرف کی سٹریٹ لائٹ روشن تھیں اور یہ شاید نئی تھیں، جبکہ ایک طرف اندھیرا تھا، جناح ہسپتال سے کریم بلاک کو ملانے والی سڑک کی کوئی لائٹ بھی نہیں جل رہی تھی، جبکہ وحدت روڈ کا بھی حال ایسا ہی تھا اور یہ محکمانہ غفلت ہے۔
ایسا ہی کچھ حال سیف سٹی پروگرام کا ہے، وزیراعلیٰ تو عوامی بہبود کیلئے اس شعبہ کا کام بڑھا رہی ہیں، خواتین کی شکایات دور کرنے کا شعبہ فعال ہو چکا، دیگر کام بھی ہو رہے ہیں، دائرہ کار بڑھایا جا رہا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تحفظ والے پروگرام کیلئے لگائے گئے کیمروں میں سے اکثر خراب چلے آ رہے ہیں، لائٹیں بھی خراب ہیں لیکن درستگی نہیں کی گئی،اس سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے اسی طرح صفائی کاحال ہے، ہیڈ آفس نے شکایا ت کے ازالے کے لئے جو سٹاف متعین کیا وہ فعال بھی ہے اور شکایت بھی جلد سنی جاتی ہے، لیکن یونین کونسلوں والا متعین عملہ لاپرواہی اور غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنے پورے علاقے کی صفائی پر توجہ نہیں دیتا، اگر یہ عملہ اپنی خدمات پورے علاقے میں سرانجام دے تو بہتری، بہت بہتری میں تبدیل ہو جائے گی، ایسا ہی حال واٹر فلٹریشن پلانٹس کا ہے جن کے فلٹر تبدیل نہیں کئے جاتے اور صاف/ فلٹر شدہ پانی کا غلط استعمال روکنے کے لئے بھی کچھ نہیں کیا جاتا، یہاں سے پانی کمرشل استعمال کیلئے لے جایا جاتا ہے، بلکہ کئی ٹیوب ویلوں کے فلٹریشن پلانٹ کے صاف پانی سے کپڑے اور گاڑیاں بھی دھلتی ہیں، نگرانی کا موثر انتظام نہیں۔
میں شہری سہولتوں کے حوالے سے غفلت او ر لاپرواہی کے کئی واقعات کا ذکر کر سکتا ہوں، گرین بیلٹوں کی تباہی، مویشیوں کا گرین بیلٹ کو چراگاہ بنائے رکھنا اور پارکنگ کے لئے استعمال کرنا روز ہوتا ہے۔ عملہ ان پہلوؤں کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس سے شہری سہولتوں کے حوالے سے شہریوں کو تشویش ہوتی اور وہ غصہ میں آ جاتے ہیں، اس لئے یہ بھی ایک بہتر عمل ہوگا کہ نہ صرف نئے ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل لازم ہے بلکہ گڈگورننس کے لئے پہلے سے موجود سہولتوں کی نگہبانی بھی لازم ہے، اس پر بھی توجہ کی ضررت ہے، ویسے میں ذاتی طور پر نہ صرف اچھے کام کی تعریف کرتا ہوں اور ساتھ ہی نقائص کی نشاندہی کا فریضہ سرانجام دیتا ہوں یقین کامل ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے گی۔اگر ذرا توجہ فرمائی جائے تو یہ بھی آشکار ہو گا کہ وزیر اعلی نے اپنی زبردست ہمت سے کام لے کر تجاوزات کا جو صفایا کرایا اس سے بڑی سہولتیں ہو گئیں لیکن عملے کی ملی بھگت سے پھر سے یہ دھندا شروع ہو چکا کہ کرپٹ عملے نے ریٹ بڑھا لئے ہیں۔
اسی طرح ٹریفک کا مسئلہ لاینحل ہے بلا شبہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا،لیکن چنگ چی،موٹر سائیکل رکشے اور اب لوڈروں کے ساتھ موٹر سائیکل گدھا گاڑیاں کس کی اجازت اور لاپرواہی اور رشوت خوری سے چل رہی ہیں،اب عدالت عالیہ کے حکم اورخود وزیر اعلی کی سخت ہدائت کے باوجود مسئلہ جوں کا توں کیوں ہے حل کب ہوگا، معذرت سے عرض کروں گا ٹریفک کے لئے کئی حل کسی خرچ کے بغیر ممکن ہیں صرف ہمت اور ہیلمٹ چالانوں سے ہٹ کر سوچنا اور ٹریفک ڈسلپن پیدا کرنا ہو گا، چنگ چی،لوڈروں اورموٹر سایئکل کے غلط استعمال کو جلد روکنا ہو گا۔