عقیدے کی پختگی!

عقیدے کی پختگی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اسلامی عقائد وہ بنیادی اصول ہیں جن پر انسانی زندگی کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں نئے علوم اور نئی نئی ایجادات نے عقل، دلیل، تجربہ اور مشاہدہ کی نئی دنیا میں قوموں کو نظریے اور عقیدے کی بنیادپر مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے اور وہ اپنے عقائد و نظریات کے لئے ایک دوسرے سے لڑنے مرنے پر تیار ہیں۔ وقت کی ضرورت اور حالات کے تقاضوں نے ثابت کر دیا کہ عقیدے کی پختگی ہی انسانی زندگی کی کامیابی و ترقی کا ذریعہ ہے۔ انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو عقائد سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا پہلو اعمال سے ہے۔پہلے انسان کے دل و دماغ میں آرزوئیں، امیدیں، احساسات، خیالات اور ارادے پیدا ہوتے ہیں۔پھر انسان اپنے ان ہی ارادوں کے مطابق کام کرنے لگتا ہے۔ رسول اللہ ؐ کی زبانِ اقدس میں پہلی چیز کا نام ”نیت“ ہے اور دوسری چیز کا نام ”عمل“ ہے۔
نیت وہ خیالی، ارادی یا اعتقادی تصویر ہے جس کا نقشہ صرف دماغ کے پر دے پر کھنچتا ہے۔ عمل اس تصویر کا وہ صحیح عکس ہے جو بیرونی دنیا میں تغیر و انقلاب کے ہنگامے پیدا کرتا ہے۔ سرورِ کونین ؐ نے ارشاد فرمایا: ”اعمال کی بنیاد نیتوں پر ہے۔“ لہٰذا تربیت ِ انسانی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان کی نیت اور ارادے کو درست کیا جائے۔نیت اور ارادے کو درست کرنے کے لئے رسول اللہؐ نے جو بنیادی اصول مقرر فرمائے، انہیں اسلامی عقائد کا نام دیا گیا۔ اگر ان اصولوں کو انسانی دِل و دماغ کا مقصد بنا لیا جائے تو انسانی دماغ میں کوئی غلط اور کھوٹی نیت نشوونما نہیں پا سکتی۔ گویا کہ یہ اصول پہرے دار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جہاں بھی دماغ میں کوئی خرابی بْرا ارادہ یا کھوٹی نیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ پہرے دار اسے پکڑ کر وہیں دبا دیتے ہیں۔
”عقیدے سے مراد انسان کے وہ پختہ، غیر متزلزل اور غیر مشکوک اصولی خیالات ہیں جو انسان کے تمام افعال، اعمال اور حرکات کا محور بنتے ہیں“۔ انسان کے تمام افعال، اعمال اورحرکات کا محور اس کے خیالات ہیں، یہی انسان کو بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ یہ عام خیالات درحقیقت چند پختہ غیر متزلزل اور غیر مشکوک اصولی خیالات پر مبنی ہوتے ہیں، انہی اصولی خیالات کو ”عقائد“ کہا جاتا ہے اور انسان کا یہی پختہ اور غیر متزلزل یقین ایمان کہلاتا ہے۔اب سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی دنیا میں انسان خون، رنگ، نسل، وطن، زبان اور مادی فوائد کی بنیاد پر برادری اور گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے بُری طرح دست و گریباں تھا۔ 
انسان کو اس پستی سے رہائی دلانے کے لئے خالق کائنات نے اسلام کے نام سے ایک نظام حیات انسانوں کے لئے مقرر فرمایا اور اس نظام حیات کی بنیاد پر خاتم النبیینؐ نے ایک ایسی تحریک برپا کی،جس سے انسانی برادری کے لئے ایک نہایت مستحکم بنیاد قائم ہو گئی، جس سے عالمگیر انسانی اخوت، نظری و فکری وحدت اور بندہ و خدا کے تعلق کو ایک عالمگیر برداری کی بنیاد قرار دیا گیا۔ اس نئے تصور کے تحت سر زمین حجاز میں ایک ملت وجود میں آئی جو ملت اسلامیہ کے نام سے پہچانی گئی، اور جن اصولوں پر یہ اخوت قائم ہوئی اْن کا نام ”اسلامی عقائد“ رکھا گیا۔ ان اصولوں پر مختلف اجزاء  اکٹھے ہوئے، اس کی مثال دنیا میں نہ پہلے کبھی تھی اور نہ اب مل سکتی ہے۔ حبشہ کے بلال ؓ، روم کے صہیبؓ، فارس کے سلمانؓ، عرب کے ابو بکرؓ،خون، رنگ، نسل، زبان، اور وطن کی حد بندیوں کو توڑ کر اس نئی ملت کے رکن بنے،جس کی رکنیت کی بنیاد صرف وحدتِ الہٰ اوراللہ اور اس کے رسول ؐ پرایمان تھی۔
اس کے برعکس خود مکہ کے قریش جو اس وحدتِ الٰہ اور وحدت ایمان میں شامل نہیں ہوئے، قریب ترین رشتے دار ہونے کے باوجود غیر قوم کے افراد سمجھے گئے اور اس نئی برادری کے مدِّ مخالف قرار پائے، جس کی مثال ہم بدر کے معرکہ حق و باطل میں دیکھتے ہیں کہ باب بیٹا، بھائی بھائی، ماموں بھانجا، ایک دوسرے کے مد مقابل اور حریف قرار پائے۔ یہ ایک ایسا عجیب و غریب نظارہ تھا، جیسے دیکھ کر دنیا حیران تھی، یہ اسلامی عقائد ہی کا کرشمہ تھا۔
اسلام کے بنیادی عقائد (اولین فرائض) یعنی توحید، رسالت، ملائکہ، آسمانی کتب، قیامت و حشرنشر وغیرہ پر ایمان لانے کے متعلق مکہ معظمہ کے قیام کے زمانہئ نبوی میں اکثر آیات نازل ہوئیں۔ شرک و بت پرستی کی برائی و مذمت، اللہ وحدہ لاشریک کی عظمت و جلالت کا اظہار، قیامت کا ہولناک منظر، جنت و دوزخ کا پْر اثر بیان۔ رسالت کے خواص اور اس کی ضرورت کے دلائل یہ تمام امور ان آیات میں بیان ہوئے، عقائد کا مسلسل بیان سورہئ بقرہ اور سورہئ النساء میں ہے اور یہ سورتیں مدینے میں نازل ہوئیں۔ مکی سورتوں میں زیادہ تر زور توحید، قیامت کے دن اور رسول اللہؐ  کی صداقت پر صرف ہوا ہے، لیکن مدینے میں اسلام کے تمام عقائد اور اصول اولین کی مجموعی تعلیم شروع ہو جاتی ہے۔
اسلامی عقائد کی حیرت انگیز اثر پذیری کا راز اسلامی عقائد کی بنیادی بات عقیدہئ توحید میں مضمر ہے، یعنی اس بات پر ایمان کہ کائنات کو پیدا کرنے والا زندگی کا سر چشمہ اور تمام قوتوں کا مالک اور حاکم اعلیٰ صرف ایک اللہ ہے۔ ایک مالک، صاحب اختیار اور خالق، اللہ پر ایمان لانے سے وحدتِ بنی آدم (ایک برادری) کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ عقیدہ کہ جب زندگی کا سرچشمہ ایک ہے تو زندگی کے اظہار کی صورتوں کو بھی اپنی اصل اور بنیاد کے اعتبار سے برابر ہونا ضروری ہے، اسی سے مساوات انسانی اور احترام آدمیت کی بنیاد پڑتی ہے اور اسی پر دنیا کی امن و سلامتی کا دار و مدار ہے۔ 
قرآن کریم نے جو خالص توحید ِ الٰہی کا نظریہ پیش کیا ہے اور جس عجیب انداز سے اسے بیان اور فطری دلائل سے اسے ثابت کیا ہے، دنیا کی الہامی کتب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ چند آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو،توحید کا بیان سورہئ بقرہ میں اس انداز سے ہوا کہ اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ (سورہئ البقرہ:163)سورہئ النساء میں اللہ کی یکتائی کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تو اکیلا معبود ہے۔ وہ اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کا ہے اور اللہ کافی اور کارساز ہے۔ (سورہئ النساء 171) انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء  اور پادریوں کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مسیح ابن ِ مریم کوبھی، حالانکہ انہیں یہی حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ان لوگوں کے شرک سے پاک ہے۔ (سورہئ توبہ: 31) سورہئ ابراہیم میں قرآن کو اللہ کی وحدانیت کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا: یہ قرآن لوگوں کے لئے اعلان ہے، کہ اس کے ذریعے لوگوں کو ڈرایا جائے، تاکہ وہ جان لیں کہ وہی اکیلا معبود ہے اور یہ کہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (سورہئ ابراہیم:52) اس طرح کی متعدد آیات میں عقیدہئ توحید کو دلائل کائنات کے ساتھ متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ وحدانیت کی تلقین کے ساتھ شرک کا ابطال کیا گیا ہے۔      ٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -