نادر شاہ  کا ہندوستان میں تاریخی استقبال کیا گیا!

نادر شاہ  کا ہندوستان میں تاریخی استقبال کیا گیا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملک شہباز علی کھوکھر ایڈووکیٹ

ایوانِ اقتدار میں ہونے والی ریشہ دوانیاں صرف موجودہ دور میں ہی نہیں دکھائی دیتیں بلکہ  ایسے واقعات ماضی میں بھی رونما ہوتے رہے۔ تاریخ`  اقتدار کے حصول کے لئے ہونے وا لے اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔20 مارچ 1739ء کو مغل دارالحکومت دلی کا منظر ملاحظہ کیجئے۔ شہری گھروں  میں موجود ہیں۔ ایران کے قزلباش (سرخ ٹوپیوں والے) سپاہی شہر کے باہر شالیمار باغ سے سرخ ریتلے پتھر کے عظیم قلعہ نما محل تک کے راستہ کے دونوں طرف قطار میں کھڑے ہیں۔بیس ہزار گھڑ سوار ایک ماہ قبل، 24 فروری کو، کرنال کی جنگ میں قبضے میں لئے گئے 100 ہاتھیوں پر سوار تفنگ برداروں کا ایک جلوس چلا آ رہا ہے۔ جلوس کے قائد اپنے سرمئی گھوڑے سے اتر کر پیدل محل میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے استقبال کے لئے توپوں کی سلامی دی  جاتی ہے۔ پورا شہر ہی ان کے استقبال کے لئے  امڈ آیا ہے۔ شور بہت زیادہ ہے۔ ایرانی بادشاہ نادر شاہ کے استقبال کا تذکرہ تاریخ کے استاد مائیکل ایکسوردی نے اپنی کتاب "دی سورڈ آف پرشیا" (ایران کی تلوار) میں کیا ہے۔نادر شاہ کا اصل نام نادر قلی بیگ تھا۔ یہ  22 اکتوبر 1688ء کو بھان، صفوی فارس  (ان دنوں ایران کا یہ نام تھا) میں پیدا ہوئے۔اس کا ترک افشار قبیلے سے تعلق تھا جو ایران کے صفوی شاہ کے وفادار تھے۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مدیر آدم زیدان کی تحقیق ہے کہ ایک مقامی سردار کے ماتحت خدمات انجام دینے کے بعد، نادر  شاہ نے ڈاکوؤں کا ایک گروہ بنایا۔ 1726ء  میں، ڈاکوؤں کے اس گروہ کے سربراہ کے طور پر، صفوی شاہ طہماسپ دوم کی حمایت میں 5000 پیروکاروں کی قیادت کی۔ایکسوردی نے لکھا ہے کہ ان دنوں فارس کے حالات بڑے مایوس کن تھے، یہ مغلوب اور ذلت کا شکار تھا۔ دارالحکومت، اصفہان، چھ سال تک افغان حملہ آوروں کے قبضہ میں رہا،  زیادہ تر شمالی اور مغربی صوبوں پر ترکوں اور روسیوں کا قبضہ تھا۔زیدان کے مطابق طہماسپ اس تخت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھے جو ان کے والد نے چار سال قبل غلزئی افغان محمود کے ہاتھوں کھو دیا تھا۔ نادر نے ایران کی فوج میں اصلاحات کیں اور شاندار فتوحات کے ایک نئے دور کے آغاز میں غلزئی افغانوں کو شکست دے کر طہماسپ کو ایرانی تخت پر بحال کیا۔اس کے بعد نادر نے حملہ کیا اور عثمانی ترکوں کو شکست دی، جنھوں نے آذربائیجان اور عراق کے ملحقہ علاقوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ دریں اثنا، شاہ طہماسپ نے ترکوں پر تابڑ توڑ حملے کیے جبکہ نادر خراسان میں بغاوت سے نمٹ رہے تھے۔لیکن شاہ کو زبردست شکست ہوئی اور وہ ترکوں کے ساتھ ذلت آمیز شرائط پر صلح کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس پر غصے میں آ کر نادر نے طہماسپ کو معزول کر کے ان کے نوزائیدہ بیٹے کو تخت پر بٹھایا، اور خود کو نائبِ ریاست قرار دیا۔
عراق میں ترکوں کے ہاتھوں شکست کے بعد، نادر نے انہیں ایران سے مکمل طور پر نکال کر خود ہی بدلہ لیا۔ پھر روس کو جنگ کی دھمکی دے کر، اسے اپنے کیسپین صوبوں کو ایران کے حوالے کرنے پر مجبور کیا۔ 1736ء  میں نادر نے طہماسپ دوم کے بیٹے نوجوان عباس سوم کو معزول کر دیا اور "نادر شاہ "کا لقب اختیار کرتے ہوئے خود ایرانی تخت سنبھال لیا۔نادر شاہ نے بحریہ کی تعمیر کی اور اس کی مدد سے نہ صرف بحرین کو عربوں سے چھینا، بلکہ عمان کو فتح کرنے میں بھی کامیاب رہے۔1737ء  میں ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔ اصفہان سے دو سال اور چار ماہ کے اپنے سفر میں نادر اور ان کے ساتھیوں نے 1,750 میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کیا اور راستے میں موجودہ افغانستان کا بیشتر حصہ فتح کر لیا۔
نادر نے اب دلی کا رخ کیا۔ وہ درہ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوئے، پشاور اور لاہور کو فتح کرتے ہوئے کرنال کے مقام تک پہنچ گئے جو دلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ان دنوں مغلیہ سلطنت کی بدانتظامی اور اندرونی خلفشار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نادر تو کابل سے 600 میل کا فاصلہ طے کر کے کرنال پہنچ گیا لیکن محمد شاہ رنگیلا اپنی پوری فوج 70 میل دور کرنال میں جمع نہیں کرسکا اور توپ خانے کے پہنچنے سے پہلے ہی لڑائی شروع ہو گئی۔ نتیجہ ظاہر تھا، نادر کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوجی بھون ڈالے، لیکن ایرانی فوج کے گنتی کے چند سپاہی ہلاک ہوئے۔ 24 فروری کو کرنال کی جنگ جیت کر نادر شاہ مارچ 1739ء  میں فاتحانہ انداز میں دلی میں داخل ہوئے اور دو ماہ تک وہاں قیام کیا۔1739ء  میں مسلم دنیا کی تین عظیم سلطنتوں عثمانی، فارس اور مغل میں سے مغل سلطنت سب سے زیادہ امیر تھی۔ دہلی دنیا کے عظیم دارالحکومتوں میں سے ایک تھا۔
اپنی تاریخ کے تمام ادوار، خاص طور پر ایک صدی قبل شاہ جہاں کے زمانے کی یادگاروں سے سجے، عام طور پر شاہ جہان آباد کے نام سے جانے جاتے اس شہر کی آبادی تقریباً چار لاکھ تھی۔ایکسوردی لکھتا ہے کہ جب نادر شاہ دلی کے قلعہ نما محل (لال قلعہ) پہنچے تو مغل شہنشاہ محمد شاہ (رنگیلا) نے شاندار استقبال کیا اور انہیں قیمتی تحائف پیش کئے۔
دہلی میں یہ پہلی ملاقات دیوانِ خاص میں ہوئی۔ سنگ ِمرمر کی عمارت پر سورج کی روشنی سے بچنے کے لئے سرخ کپڑوں کے سائبان لگے ہوئے تھے۔ ستون، دیواریں اور چھتیں سونے اور چاندی کے ورق سے ڈھکی ہوئی تھیں۔عمارت کا مرکز اسراف تخت ِطاؤس تھا۔ کرسی کی طرح یہ تخت، تقریباً چھ فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا سونے کے چار پایوں پر کھڑا تھا۔ جس پر جواہرات جڑے تھے، کچھ بہت بڑے، کچھ کبوتر کے انڈوں کے برابر۔ زمرد سے بنے 12 ستونوں نے زیورات کی چھت کو تھام رکھا تھا۔ ہر ستون پر جواہرات سے جڑے دو مور تھے اور ہر مور کے درمیان ہیرے، زمرد، یاقوت اور موتیوں سے ڈھکا ایک درخت تھا۔ بہت بڑا کوہِ نور ہیرا تخت کے آگے یاقوت اور زمرد میں گھرا ہوا تھا۔ اپنی اصل شکل میں، ہیرے کا وزن 191 میٹرک کیرٹس سے زیادہ تھا۔ کمرے کی دیواروں پر فارسی میں جگہ جگہ لکھا تھا:
 گر فردوس بر روئے زمیں است……
 ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است 
یعنی ”اگر زمین پر کوئی جنت ہے تو یہ ہے، یہ ہے، یہ ہے“۔
نادر شاہ اور ان کے ذاتی عملے نے قلعے میں شاہی کمروں پر قبضہ کر لیا اور محمد شاہ حرم میں چلے گئے۔دہلی میں رہتے ہوئے، نادر شاہ کو شہنشاہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ جمعے کی نماز میں نادر شاہ کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا۔ فارسی میں ان کے نام کے سکے ڈھالے گئے۔ایکسوردی کے مطابق کرنال میں شکست اور فارسیوں کے فاتحانہ انداز میں داخلے کے باوجود، دلی کے باشندے پہلے پہل ان سے مرعوب نہیں ہوئے۔ بازار کے لوگ قزلباش سپاہیوں پر ہنستے تھے، جو زیادہ تر فارس کے دیہاتوں اور پہاڑیوں کے سادہ لوح آدمی تھے۔نادر نے اپنے ناساقچیوں (یہ لوگ فوج کی ملٹری پولیس کے طور پر کام کرتے تھے) کو حکم دیا کہ ”جو بھی شہریوں میں سے کسی کو زخمی کرے اس کی ناک یا کان کاٹ دیے جائیں، یا مارا پیٹا جائے“۔
مغل دربار میں امراء مختلف دھڑوں میں تقسیم تھے، جس نے مغل ریاست کو کمزور کر دیا تھا، اس سے نادر شاہ کا کام آسان ہو گیا تھا۔ ایکسوردی کے مطابق اودھ گورنر سعادت خان کی جلد بازی 24 فروری کو کرنال کی لڑائی میں مغلوں کی تباہ کن شکست اور خود ان کی گرفتاری کا باعث بنی۔
گرفتاری کے بعد انہوں نے محمد شاہ سے اپنی وفاداری ترک کر کے نادر کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہیں دہلی کے شہریوں سے خراج وصول کرنے کے لئے پہلے ہی مقرر کردیا گیا تھا، یوں وہ نادر شاہ کے ساتھ سوار ہو کر شہر میں داخل ہوئے۔محل میں، نادرشاہ نے سختی اور حقارت سے سعادت خان سے پوچھا کہ انہوں نے خراج وصول کرنا شروع کیوں نہیں کیا۔ سعادت خان نے اسے اپنی بے عزتی سمجھا اور مایوسی میں زہر کھا کر مر گئے۔
نادر شاہ نے مغل دربار اور رئیسوں کے اطوار کو ناپسند کیا۔ نادر شاہ نے ایک مغل وزیر سے پوچھا کہ ان کے حرم میں کتنی عورتیں ہیں۔ وزیر نے جواب دیا 850،نادر نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ”وہ ان میں 150 خواتین قیدیوں کو شامل کر دیں گے تاکہ وزیر من باشی (ایک ہزار کے کمانڈر) کے فوجی عہدے کے حق دار ہو جائیں“۔ایکسوردی  نے اس حوالے سے لکھا کہ دہلی کے پہاڑ گنج علاقے کے اناج خانوں میں دوپہر کے وقت کچھ فارسی فوجی مکئی کی قیمت مقرر کرنے گئے۔ مقرر کردہ کم قیمت پر ناخوش، مکئی کے کچھ تاجروں نے شام کے وقت ایک ہجوم اکٹھا کر لیا۔ اس مشتعل ہجوم نے اناج خانوں پر سپاہیوں کو مار ڈالا، پھر شہر میں نکل گئے۔ فارسی سپاہی گلیوں اور بازاروں میں ایک، ایک اور دو، دو کی ٹکڑیوں میں گھوم رہے تھے، ہندوستانی ان پر چڑھ دوڑے اور انہیں مار ڈالا۔محل میں نادر کے نوکروں نے انہیں ان واقعات کا بتایا تو انہوں نے ان کا یقین نہیں کیا۔ نادر شاہ نے کہا " میرے لوگوں نے ہندوستان کے لوگوں پر یہ جھوٹا الزام لگایا ہے تاکہ وہ انہیں قتل کر کے ان کی جائیداد لوٹ سکیں "۔

نادر نے ایک ملازم کو حقیقت جاننے کے لئے بھیجا، پھر دوسرے کو۔ دونوں کو یکے بعد دیگرے ہجوم نے محل کے دروازوں سے چند گز کے فاصلے پر قتل کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ایک ہزار سابق فوجیوں کو نظم و ضبط کی بحالی کے لئے بھیجا، اور ساتھ ہی انہیں خبردار کیا کہ کسی ایسے شخص کو نہ ماریں جو براہ ِراست فسادات میں ملوث نہ ہو۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی،لیکن فسادیوں نے فارسیوں پر بندوقیں اور تیر برسانا شروع کر دیئے۔ 22 مارچ کی صبح نادر شاہ اپنے گھوڑے پر سوار محل سے مسجد روشن الدولہ (اسے اب سنہری مسجد کہا جاتا ہے) کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک گولی چلی، جس سے ان کے ساتھ موجود ایک افسر کی موت ہو گئی۔ نادر شاہ مسجد کی چھت پر گئے اور حکم دیا کہ جہاں ان کا سپاہی مارا گیا ہے وہاں کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا جائے اور پھر اپنی تلوار کھینچ کر قتل ِعام کا اشارہ دیا۔ پہاڑ گنج میں ہنگامہ برپا کرنے والے مشتبہ افراد کو جمنا کے کنارے گرفتار کر کے لے جایا گیا اور سر قلم کر دیا گیا۔ فوجیوں نے جاتے جاتے گھروں کو لوٹا اور آگ لگا دی، اور کچھ لوگ (بنیادی طور پر عورتیں اور بچے) آگ میں جل کر مر گئے۔ مردوں نے خود کشی سے پہلے اپنے اہل ِخانہ کو قتل کر دیا، اور عورتوں نے فارسیوں سے بچنے کے لئے خود کو کنویں میں پھینک دیا۔قتل ِعام اگلے روز تک جاری رہا۔ گلیوں میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ آخر کار محمد شاہ نے نظام الملک کو قتل ِعام روکنے کی درخواست کے لئے بھیجا۔ سہ پہر کو نادر شاہ نے جان بخشی کا حکم جاری کیا۔ کوتوال کے تخمینہ کے مطابق 20 سے 30 ہزار لوگ مارے گئے۔
 نادر شاہ نے ا ب دہلی میں خراج وصول کرنا شروع کیا۔شہر کے تمام دروازوں پر پہرے بٹھا دیے، سب کو اندر آنے کی اجازت تھی، لیکن کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔کرنال کے بڑے بڑے لوگوں کا مال پہلے ضبط کیا گیا۔ انکار کرنے والوں کے ساتھ سخت سلوک کیا گیا۔ایکسوردی لکھتے ہیں کہ بنگال کے گورنر کے دربار کے نمائندے کو جب بتایا گیا کہ صوبے کی دولت کا تخمینہ سات کروڑ لگایا گیا ہے تو اس نے مذاق میں کہا کہ ’اتنی بڑی رقم کو لے جانے کے لئے بنگال سے دہلی تک گاڑیوں کی ضرورت ہوگی۔‘ اس کے اس مذاق پر اسے شدید مارا پیٹا گیا۔ اس سلوک پر اس نے خود کو اور اپنے خاندان کو زہر دے دیا۔ 27 مارچ کو نادر شاہ نے فارس میں اعلان کرنے کے لئے ایک حکم نامہ بھیجا کہ تمام علاقوں کو تین سال کے لئے ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے سپاہیوں کے بقایا جات ادا کئے اور انہیں ایک سال کی پیشگی تنخواہ دی، اور انہیں چھ ماہ کی تنخواہ انعام میں دی۔
نادر نے دلی سے جو اکٹھا کیا، اس میں محمد شاہ رنگیلا اور بڑے امرا سے ملنے والے تحفے، چندے جن میں زیورات اور نقدی کے علاوہ، عوام اور شاہی خزانے سے لی گئی رقم اور قیمتی سازو و سامان، ملبوسات، توپیں اور دیگر ہتھیار شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ 1000 ہاتھی، 7000 گھوڑے اور 10000 اونٹ بھی لے گئے۔ متعدد مستند معاصر ذرائع کل 70 کروڑ کی مالیت پر متفق ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ نادر کے سپاہیوں نے اضافی 10کروڑ چھین لئے۔مؤرخ، جیمز فریزر کے حساب سے، نادر شاہ کی لوٹی گئی کل دولت 1753ء میں 85,50,000 پاؤنڈ کی مالیت کے برابر تھی۔ان خزانوں میں سب سے نمایاں تخت ِطاؤس اور کوہِ نور ہیرا تھے۔ تخت کو بعد میں توڑا گیا، کوہِ نور فارس میں نہیں رہا، لیکن تاج کے جواہرات آج بھی تہران میں نمائش کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ ان میں دریائے نور ہیرا بھی شامل ہے،جو شاید دنیا کا سب سے بڑا گلابی ہیرا ہے۔
ایکسوردی لکھتے ہیں کہ جب رقم اکٹھی کی جا رہی تھی تو نادرشاہ نے اپنے بیٹے نصراللہ کی شادی شہنشاہ اورنگ زیب کی پڑپوتی، اور محمد شاہ رنگیلا کی بھانجی سے کروائی۔محمد شاہ نے دلہا کو خلعت، موتیوں کا ہار، ایک جڑاؤ خنجر اور سونے سے آراستہ ایک ہاتھی پیش کیا۔انہوں نے اور نادرشاہ نے جوڑے کو پیسے اور زیورات کے شاندار تحائف بھی دیے، اور دریائے جمنا  کے کنارے آتش بازی بھی کی گئی۔ شاہی قاعدے کے مطابق، شادی سے پہلے، درباری اہلکاروں کو دلہے کے نسب کی چھان بین کر کے اسے سات نسلوں تک قائم کرنا تھا۔ یہ سن کر نادر شاہ نے کہا: ”ان سے کہو کہ وہ نادر شاہ کا بیٹا ہے، تلوار کا بیٹا ہے، تلوار کا پوتا ہے۔ اور اسی طرح، یہاں تک کہ نسل سات کی بجائے 70 نسلوں تک چلی جائے“۔12 مئی کو ایک عظیم دربار منعقد کیا گیا، جس میں نادرشاہ نے مغل شہنشاہ کو کئی تحائف دیئے جن میں جڑاؤ تلواریں اور دیگر قیمتی اشیاء شامل تھیں۔ لیکن سب سے اہم تحفہ نادر شاہ کو ایک بار پھر مکمل خود مختاری دینا تھا۔محمد شاہ رنگیلا نے نادر کی اس سخاوت کا شکریہ ادا کیا، جس کے باعث انہوں نے ایک بار پھر ”خود کو دنیا کے بادشاہوں میں سے ایک پایا“ اور بدلے میں ان سے التجا کی کہ وہ سندھ کے مغرب میں تبت اور کشمیر تک تمام مغل سرزمینوں کو قبول کر لیں۔
نادرشاہ نے محمد شاہ کو حکمرانی کے بارے میں کچھ مشورے دیے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ وہ زمینیں ضبط کر لیں جو مغل امرا کو ان کے عہدوں کی مدت تک حاصل تھیں، اور اس کے بدلے انہیں شاہی خزانے سے نقد ادائیگی کر دی جائے۔انہوں نے محمد شاہ سے کہا کہ وہ 60,000 گھڑ سواروں کی تنخواہ دار فوج اپنے پاس رکھیں، اور نچلی سطح تک تمام افسران کے نام اور خاندانوں کو جانیں۔ جب موقع آئے، تو خاص کاموں کے لئے افسروں کو نامزد کریں اور انہیں کافی تعداد میں آدمیوں کی کمان دیں، لیکن جب کام پورا ہوجائے تو کمان ختم کر دیں اور سپاہی مرکز میں واپس آجائیں۔ کسی کو زیادہ دیر تک کمان نہ دی جائے۔
نادرشاہ نے محمد شاہ کو تنبیہ کی کہ وہ نظام الملک پر بھروسا نہ کریں اور کہا کہ اگر کوئی رئیس بغاوت کرے تو وہ فوری طور پر فوج بھیج سکتے ہیں یا اگر ضروری ہوا تو خود واپس آ سکتے ہیں۔ اب ان کا کردار سرپرستانہ تھا۔
محمد شاہ رنگیلا دوبارہ حکمران تو بن گئے مگر تقریباً نادرشاہ کے طفیلی کے طور پر۔  تاریخ میں لکھا ہے کہ اس کے فوراً بعد نادرشاہ نے حقارت کے ساتھ اپنے بعض قابل ِاعتماد رئیسوں کو بتایا کہ محمد شاہ حکومت کرنے کے اہل نہیں۔واپسی کے سفر میں نادرشاہ مختلف قسم کے مفید کاریگر (خاص طور پر معمار، بڑھئی اور پتھر تراشنے والے) اس ارادے سے اپنے ساتھ لے گئے کہ وہ نئے قندھار (نادرآباد)، خراسان میں قلات اور دیگر مقامات میں خوبصورت تعمیراتی منصوبوں پر کام کریں گے۔کارآمد لوگوں میں شاہی طبیب علوی خان بھی تھے تاکہ وہ ان کے جسم میں ورم (جسم کے ٹشوز میں سیال کا غیر معمولی جمع ہونا) کا علاج کر سکیں۔ 
ایکسوردی کے مطابق نادرشاہ نے کسی بھی خاتون کو دہلی سے اس کی اپنی مرضی کے بغیر لے جانے سے سختی سے منع کیا۔ جب فوج دہلی سے نکلنے کے بعد شالیمار کے باغات میں رکی تو حکم جاری کیا گیا کہ جو بھی قیدی ہو، مرد ہو یا عورت، اسے فوراً شہر واپس کر دیا جائے نیز یہ کہ جس نے بھی نافرمانی کی وہ اپنی جان اور جائیداد دونوں سے جائے گا۔نادر شاہ کی واپسی سے فوراً پہلے ایک محفل سجائی گئی، جس میں مغنیہ نور بائی نے نادرشاہ اور دیگر امرا کے لئے ایک شعر گایا جس کا مفہوم تھا:
تم نے میرے دل میں کیا چھوڑا ہے کہ تم دوبارہ آؤ
جام دو، تالی بجاؤ،رقص کرو، تم اہل ِنشاط کے ہاں نماز پڑھنے نہیں آئے
نادرشاہ نوربائی کی گائیکی اوران کی خوبصورتی سے بہت متاثر ہوا۔ انہوں نے اپنے نوکروں کو انہیں 4000 روپے دینے کا حکم دیا، اور کہا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ یہ بات سن کر کہ شاہ کا کیا ارادہ تھا، گلوکارہ بیمار پڑ گئی۔ اس کی ہچکچاہٹ کو محسوس کرتے ہوئے، نادرشاہ نے اسے زبردستی لے جانے سے منع کردیا۔
ایکسوردی لکھتے ہیں کہ گھوڑوں، خچروں اور اونٹوں کا ایک قافلہ تیار کیا گیا، جن کے سروں پر جواہر جڑی، سرخ ٹوپی پر سفید کشمیری شال پگڑی کی طرح باندھے گئے۔ نادرشاہ نے 16 مئی 1739ء کو اپنی فوج کے ساتھ دہلی سے کوچ کیا۔
وہ سر بلند سڑکوں پر جا رہے تھے۔ جب لوگ ان کی تعریف کرتے تو دونوں ہاتھوں سے روپیہ ان کی طرف پھینکتے جاتے۔ایک ہی دہائی میں نادر نے اپنے تمام دشمنوں کو شکست دے کر فارس کو قفقاز کے پہاڑوں سے لے کر دریائے جمنا تک غالب طاقت بنا دیا تھا لیکن اس حملے نے زوال پذیر مغلوں کو تباہ کر دیا۔ مرکزی طاقت کا وجود ختم ہو گیا۔ سلطنت کے انتظام کے لئے کوئی محصول باقی نہیں بچا تھا۔ صوبے آزاد ہو گئے۔
ایرانی تاریخ کے استاد اور مؤرخ علی انصاری لکھتے ہیں کہ ”یہ دراصل وہ نادر شاہ ہیں جن کے باعث ہندوستان میں برطانوی اور فرانسیسی استعمار فعال ہوئے“۔نادر شاہ کی فتح نے انگریزوں کو خبر دی کہ مغل کمزور ہیں، اور ہندوستانی صوبائی حکمران ایک دوسرے کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ 1757ء میں، لارڈ کلائیو نے پلاسی کی جنگ میں بنگال پر قبضہ کیا، اور 1764ء  میں، انگریزوں نے بکسر کی جنگ میں مغلوں کو شکست دی۔
ہندوستان کی فتح سے واپسی پر نادرشاہ نے اپنی فوج کو اپنی جائے پیدائش دکھائی اور اپنی ابتدائی زندگی کی محرومیوں کے بارے میں ایک تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”اب تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس بلندی پر فائز کر دیا ہے، اس لئے یہ سیکھو کہ ادنیٰ آدمیوں کو کبھی حقیر نہ سمجھو“۔جونس ہینوے، ایک انگریز تاجر انہوں نے نادرشاہ کو دیکھا تھا، وہ لکھتے ہیں کہ نادر شاہ کو لوگوں کے نام اور چہرے یاد رہتے تھے۔ ان کی مالیات پر مضبوط گرفت تھی اور وہ ہر صوبے سے جمع ہونے والی آمدن کی صحیح مقدار جانتے تھے۔ تقریباً چھ فٹ قد تھا، مضبوط جسم۔ وہ انتہائی توانا تھے۔ دن میں صرف چار سے پانچ گھنٹے سوتے۔ہانوے نے لکھا کہ ان کا حرم، جس نے ان کے ساتھ کئی فوجی مہمات میں حصہ لیا، تقریباً 33 خواتین پر مشتمل تھا۔
1745ء  میں نادرشاہ نے ایک لاکھ 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل عثمانی ترکوں کی ایک فوج کو پھر شکست دی جو ان کی آخری شاندار فتح تھی۔ کہا جاتا ہے کہ داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی نے نادر کو چڑچڑا بنا دیا تھا۔ایکسوردی کے مطابق وہ شکی اور بدمزاج ہو گئے اور اپنے بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض اس شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کر دیا۔ اس کے بعد ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں۔ ان بغاوتوں کو جب نادرشاہ نے سختی سے کچلا تو ان کی مخالفت عام ہو گئی۔ آخر کار 1747ء  میں ان کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات ان کے خیمے میں داخل ہو کر انہیں سوتے میں قتل کر دیا۔ 
نادرشاہ کے بعد ان کے بھتیجے علی قلی، عادل شاہ کے نام سے خراسان میں تخت نشین ہوئے، لیکن ایک سال حکومت کرپائے۔ نادرشاہ کے ایک افغان سردار احمد شاہ ابدالی نے افغانستان میں اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی اور نادر شاہ کے پوتے شاہ رخ کو 1749ء  میں تخت دلا دیا۔ افشار خاندان کی یہ حکومت افغانوں کی سرپرستی میں 1796ء تک قائم رہی۔
زیدان لکھتے ہیں کہ نادر شاہ کا واحد مقصد جنگ اور فتح تھا۔عسکری صلاحیتوں کے باعث مؤرخین انہیں ایشیا کا نپولین اور سکندر ثانی کہتے ہیں۔ایک بار جب انہیں بتایا گیا کہ جنت میں جنگ نہیں ہوگی تو انہوں نے کہا: ’پھر وہاں کا کیا مزہ؟‘
٭٭٭٭٭
final

مزید :

ایڈیشن 1 -