حاجی محمد رفیع مرحوم وہ ایک عظیم انسان تھے!

حاجی محمد رفیع مرحوم وہ ایک عظیم انسان تھے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لیفٹیننٹ کرنل غلام جیلانی خان (ر)
قسط نمبر1
دیباچہ
مرحوم پدماشری حاجی محمد رفیع جیسی عظیم شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ 1980ء میں اس عظیم گلوکار کی وفات پر فلمی موسیقی کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا اوراس کا ایک مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ لیکن محمد رفیع کے سدابہار گیت تو آج تک ان کے پرستاروں کے دلوں کو گرما رہے ہیں۔
میں بچپن ہی سے محمد رفیع صاحب کے نغمات کی اسیر اور ان کے گانوں کی پرستار تھی۔ بعد میں یہ میری خوش نصیبی تھی کہ میں رفیع صاحب کے خاندان میں ان کی بہو بن کر شامل ہوئی۔ میری شادی ان کے بیٹے خالد رفیع سے ہوئی۔ مجھے اس بات کا ہمیشہ قلق رہے گا کہ ان کی محبت اور میل ملاپ کا زمانہ بہت مختصر رہا۔1971ء سے 1980ء تک کے 9برسوں میں مجھے ان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کے گیتوں کو ان کی اپنی آواز میں سننے کا شرف حاصل رہا اور یہ جاننے کے لمحات بھی میسر آئے کہ وہ بحیثیت ایک انسان کتنے عظیم تھے!
میں اگرچہ رفیع صاحب کی سنہری یادوں کے خزینے کی امین تھی لیکن ان پر کتاب لکھنے کا خیال میرے دل و دماغ میں کبھی نہیں آیا تھا۔ لیکن پھر جو یہ کہاجاتا ہے کہ ہر چیز کے وقوع پذیر ہونے کا ایک وقت ہوتا ہے تو ایسے ہوا کہ جنوری 2005ء میں میرے شوہر خالد کو اچانک دل کا دورہ پڑا اور ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے چلے جانے کے بعد میں اپنے بچوں کے ساتھ گئے دنوں کی باتوں کو پہروں تک یاد کرکے دہرایا کرتی تھی۔ ان میں کئی داستانیں بھی ہوتی تھیں اور کئی لطائف و ظرائف بھی۔ یہ سیشن بار بار چلا کرتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ ان گفتگوؤں ہی کے دوران میری سب سے بڑی بیٹی شبانہ نے اچانک مجھے کہا: ”ماما، آپ کو دادا جان پر ایک کتاب ضرور لکھنی چاہیے“……
یہ وہ زمانہ تھا کہ میں غالباً اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی۔ میں شبانہ کی بات سن کر مسکرا دیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی: ”انشاء اللہ ایک دن آئے گا کہ میں ایسا ہی کروں گی“۔ خوش نصیبی دیکھئے کہ بات یہاں پہنچ کر ختم نہ ہوئی۔ میرے بچے مجھے ایسا کرنے کی مسلسل ترغیب دیتے رہے اور بالآخر میں اس بات پر رضامند ہوگئی کہ ان یادوں پرایک کتاب لکھوں۔ لیکن پھر یہ خیال بھی آیاکہ میں نے تو کئی برسوں سے کوئی ایک خط بھی کسی کو نہیں لکھا تواب میں ایک پوری کتاب کس طرح لکھ لوں گی؟
اسی طرح دن گزرتے گئے اور میں نے 2007ء میں یہ کتاب لکھنی شروع کر دی۔مجھے خود بھی یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ میں کتاب لکھنے کا یہ کام کررہی ہوں۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی غیر مرئی قوت ہے جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے لکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔وہ دور اور وہ ماحول کہ جو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے وہ اب بالکل تبدیل ہو چکا ہے اور لوٹ کر کبھی نہیں آئے گا۔ قاری کو یہ کتاب پڑھتے ہوئے اگر یہ بات ذہن میں آئے تو شاید میری اس بات کی تفہیم کا تقاضا پورا ہو سکے!
٭……٭……٭
ایک عہد کا خاتمہ
لندن جولائی 1980ء……جب بچوں کو موسم گرما کی تعطیلات ہوتی ہیں تو ان سے تقریباً دو ہفتے پہلے……جب ایسٹر (Easter) کی چھٹیاں اور موسمِ گرما اور موسمِ سرما کی تعطیلات ہوا کرتی تھیں تو میں بڑی باقاعدگی سے انڈیا چلی جاتی تھی۔ انڈیا جانے کے یہ تین مواقع میرا سالانہ معمول ہوتا تھا۔اور اگر اس دوران کوئی اور موقع بھی مل جاتا تو ہم بڑی خوشی سے انڈیا یاترا سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ میں ہمیشہ انڈیا جانے کے بہانے ڈھونڈا کرتی تھی۔ میرے بچے بھی  ان دوروں (Trips) سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ہماری آدھی چھٹیاں تو ممبئی میں گزرتی تھیں (جس کو اس وقت بمبئی کہا جاتا تھا) اور باقی آدھی اندور، مدھیہ پردیش (وسطی ہندوستان) میں کہ جہاں میری والدہ آج بھی رہتی ہیں اور میرے ننھال کے باقی لوگ بھی رہائش پذیر ہیں۔ یہ سفر لندن کی پُرشور زندگی سے فرار کی ایک پُرلطف بریک ہوا کرتی تھی۔
رمضان المبارک جو مسلمانوں کے لئے عبادات اور روزوں کا مہینہ شمار ہوتا ہے وہ اس برس جولائی کے دوسرے ہفتے میں شروع ہونے والا تھا۔ لہٰذا میں نے ماہِ رمضان میں انڈیا جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور فیصلہ کیا کہ ہم لندن ہی میں قیام کریں گے اور یہاں گھر پر ہی عیدالفطر منائیں گے۔ چنانچہ بمبئی جانے کا پروگرام اگست 1980ء یعنی عید کے دو ہفتے بعد تک ملتوی کر دیا گیا۔
اس روز جب شام ہوئی تو میرے شوہر خالد نے مقامی مسجد سے معلوم کرنا شروع کر دیا کہ رمضان کا چاند نظر آیاہے یانہیں۔مسجد کا ٹیلی فون مسلسل مصروف ملتا تھا۔ آخر کار مسجد کا نمبر مل ہی گیا اور خالد نے اعلان کر دیا: ”رمضان مبارک ہو…… کل روزہ ہوگا“۔ خالد نے فوراً ہی تراویح کی تیاری بھی شروع کر دی۔ میں خود بھی بہت خوش ہوئی اور دوستوں اور رشتہ داروں کو فون کرنے شروع کر دیئے کہ ان کے ہاں رمضان شروع ہوا ہے یا نہیں۔
اپنے بچپن کے دوران انڈیا میں ہم نے سن رکھا تھا کہ مختلف مقامات پر عیدالفطر مختلف ایام میں منائی جاتی ہے اور اس کا انحصار چاند نظر آنے پر ہوتا ہے۔ انڈیا میں کئی شہروں میں ہلالِ عید ایک ہی رو ز دکھائی دیتا تھا اور اگلے روز عید منائی جاتی تھی۔ لیکن جب سے میں یہاں لندن میں آئی تھی نجانے ایک ہی دن عید کا چاند یہاں نظر کیوں نہیں آتا تھا۔ انڈیا اور انگلینڈ میں وقت (Time) کا فرق تو چار یا پانچ گھنٹے تھا لیکن میں حیران تھی کہ ان دونوں ممالک (انڈیا اور انگلستان) میں ہلالِ عید کے نظرآنے میں دو دنوں کا وقفہ کیسے ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک اور پرابلم یہ سوال بھی تھا کہ انگلینڈ کے مختلف شہروں میں عید کی تقریبات منانے میں بالخصوص ایک ہی شہر میں دو یا تین دنوں کا فرق کیوں ہوتا تھا۔یہ اختلاف آج بھی ویسا ہی ہے۔ میں بڑی شدت سے منتظر رہتی ہوں کہ کاش وہ وقت بھی آئے جب یہاں انگلینڈ میں ایک ہی شہر کے مسلمان ایک ہی روز عید منائیں۔
اگلے روز خالد نے ممبئی فون کیا تاکہ اماں اور ابّا کو رمضان مبارک کہہ سکیں خالد اپنے والدین یعنی میرے سسر اور ساس محمد رفیع اور بلقیس رفیع کو ”امّاں اور ابّا“ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ امّاں نے خالد کا فون سن کر جواب دیا: ”یہاں چاند نظرنہیں آیا۔ ہو سکتا ہے کہ کل یہاں بھی نظر آ جائے۔ بہر کیف آپ سب کو ہماری طرف سے رمضان مبارک ہو“۔
یہ 28جولائی 1980ء کا دن تھا۔ ہم نے سحری کھائی، نمازِ فجر ادا کی اور سو گئے…… اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ اس وقت لندن میں صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ میں نے نیم خوابیدہ آواز میں کہا: ”ہیلو“…… ٹیلی فون سے جواب آیا: ”کیا تم سب لوگ ابھی سوئے ہوئے ہو؟“…… میں نے فوراً  ہی یہ آواز پہچان لی جو ابّا کی تھی!
ان کی گفتگو کا اسلوب نرالا تھا۔ وہ صرف کام کی بات کیا کرتے تھے، نہ زیادہ اور نہ کم…… ان کا بولنے کا سٹائل بھی بے ساختہ تھا اور بہت مختصر ہوا کرتا تھا۔ ان کی گفتگو زیادہ تر ’کیا‘، ’کب‘ اور ’کہاں‘ جیسے سوالوں پرمشتمل ہوا کرتی تھی۔ میں نے بھی اب بتدریج ان کی گفتگو کے اسلوب کو سمجھنا شروع کر دیاتھا۔ وہ پوچھ رہے تھے: ”تم سب لوگ کیسے ہو؟…… کیاہو رہا ہے؟…… خالد کہاں ہے؟“

خالد نے مجھ سے ریسیور پکڑ لیا اور ابّا کی آواز سنی: ”آپ لوگ ممبئی کب آ رہے ہو خالد؟…… میں شدت سے تمہاری آمد کا منتظر ہوں …… بچے کیسے ہیں؟ اوکے! اب ذرا ان چیزوں کو نوٹ کرو کہ جو تم نے لندن سے لانی ہیں …… فلاں فلاں خوشبو…… کار پینٹ…… یارڈلی (Yardley) صابن…… اور مارجرین(پنیر) کے دو ڈبے“۔…… ابّا مکھن کی جگہ مارجرین (پنیر) پسند کیا کرتے تھے۔ اب خالد نے پوچھنا شروع کیا: ”ابّا، آپ کی ریکارڈنگ کیسی جا رہی ہے؟“…… جواب ملا: ”فرسٹ کلاس! میں ڈولی (Dolly)کے کھانوں کا شدت سے انتظار کررہا ہوں۔ اب تم لوگ سو جاؤ“۔ (ابّا مجھے میرے عرفی نام سے پکارا کرتے تھے اور یاسمین کی جگہ ”ڈولی یا ڈالی“ کہا کرتے تھے۔)
اس روز صبح کے پہلے پہر جب ابّا  سے بات ہوئی تھی تو اس کو اب تین دن گزر چکے تھے۔ یہ 31جولائی 1980ء کا دن تھا۔ خالد جو اُن ایام میں ایک ائر لائن میں کام کررہے تھے، ان کو اس روز چھٹی تھی۔ اس صبح جب میں بیدار ہوئی تو خالد کو بتایا کہ: ”میں نے رات ایک جادوئی خواب دیکھا ہے۔ اللہ خیر کرے“۔ میں جب ابھی عمر کے 20ویں برس  کے اوائل میں تھی تو مجھے عجیب و غریب خواب نظر آنے شروع ہو گئے تھے جو گویا آنے والے ایام کی پیشگوئی بھی کر دیا کرتے تھے اور جب ایسے خواب آیاکرتے تھے تو یہ میرے خاندان کے لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں ہوتے تھے اور جن لوگوں سے میں بہت محبت کیا کرتی تھی ان سے متعلق ہوا کرتے تھے۔ بہت سے ایسے خواب بھی مجھے آتے تھے جو میں صبح اٹھ کر بھول جایا کرتی تھی۔ میرا خیال ہے وہ بے معنی سے خواب ہوتے تھے۔ کئی خواب ایسے بھی تھے جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتے تھے اور کئی بس دھندلے سے ہوتے تھے اور ان کی تفصیل بھی بہت پیچیدہ سی ہوتی تھی جس کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن جب میں بڑی ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ اب یہ خواب بڑی باقاعدگی سے آنے لگے ہیں اور سچے بھی ہوتے ہیں۔ جب بھی ایسا واقعہ میرے روبرو ہوتا تو میں بے ساختہ پکار اٹھتی: ”یا اللہ! میں نے یہی کچھ تو خواب میں دیکھا تھا!“
اس رات جو خواب مجھے آیا وہ بہت عجیب سا تھا۔ دیکھتی ہوں کہ ابّا  ایک اونچی منزل سے ایک  بلند بام (سکائی سکریپر) منزل کو جا رہے ہیں۔ جس منزل میں وہ جا رہے ہیں وہاں لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہے اور بارش بھی زوروں کی ہو رہی ہے۔ میں نے بہت کوشش کی، بہت سر کھپایا کہ اس خواب کی تعبیر جان سکوں لیکن کچھ بھی سمجھ نہ آئی کہ اس خواب کا مفہوم کیا ہے۔ میں نے خالد کو کہا: ”میں شرط لگاتی ہوں کہ ابّا  اب پھر اپنا گھر تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ابّا کو ”رفیع وِلّا“ (جسے اب رفیع مینشن کہاجاتا ہے) سے اٹھ کر کہیں اور نہیں جانا چاہیے“……خالد نے بہت غور سے میری باتیں سنیں۔ ایسے معلوم ہوا کہ جیسے وہ اس خواب کے معانی اور تعبیر جاننا چاہ رہے ہیں۔ معاً وہ مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا: ”تم کیا اور تمہارے خواب کیا……! جب بھی تم ابّا کی بات کرتی ہو تو تمہارا یہی خیال ہوتا ہے کہ ابّا اب کیا سوچ رہے ہوں گے“۔…… خالد کا یہ تبصرہ سن کر میں نے بات کا موضوع بدل دیا اور کہا: ”دیکھو نا! اب آدھا ماہِ رمضان گزر چکا ہے اور عید سامنے نظر آرہی ہے۔ آؤ ساؤتھ ہال (South hall) چلتے ہیں اور ’شیر خرما‘ کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے وہاں سے خرید لاتے ہیں“۔
میں ساؤتھ ہال جانے کے لئے ہمیشہ تیار رہا کرتی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے انڈیا یاد آجاتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ ساؤتھ ہال ممبئی یا دہلی کا ہی ایک محلہ ہے جہاں چند سفید فام لوگ آ جا رہے ہیں۔ ان ایام میں ساؤتھ ہال جانا بھی ایک تماشا ہوا کرتا تھا۔ ایشیا کی بہترین کھانے کی چیزیں اور سودا سلف وغیرہ سب ساؤتھ ہال سے مل جایا کرتا تھا جو لندن کی دوسری لوکل مارکیٹوں میں دستیاب نہ تھا۔ میں جب انڈیا میں تھی تو مٹھائیوں کی زیادہ طلب نہیں ہوتی تھی۔ لیکن ساؤتھ ہال میں جو مٹھائیاں (Sweets) دستیاب تھیں، ان کے ذائقے اور ان کی خوشبو ہی اور تھی! میں نے ساؤتھ ہال میں دستیاب جن مٹھائیوں کو حلق سے اتارا ان کا ذائقہ اور ان کا مزہ انڈیا میں کہاں تھا!
یہ وہ ایام تھے کہ جب ہم مہینے میں ایک دو بار ساؤتھ ہال کا چکر ضرور لگاتے تھے اور وہاں کے سنیما ہالوں مثلاً ڈومینین (Dominion) سنچری (Century) اور لبرٹی میں فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ ہم اگرچہ رہتے تو لندن میں تھے لیکن بالی وڈ کا شوق ہمیشہ دل و دماغ پرسوار رہا کرتا تھا۔ہمارے علاوہ اور بھی کئی لوگ اپنے بچوں کے ہمراہ ان سنیما گھروں میں دیکھنے کو ملتے تھے۔ ہم بچوں کو اپنے ہمراہ لانے کے لئے خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے مثلاً دودھ کی بوتلیں بھر کر ساتھ رکھ لیتے تھے گویا پکنک منانے جا رہے ہوں۔ دوسرے کئی لوگ بھی اپنے بچوں کو گھر پر چھوڑنے کی بجائے یہاں اپنے ساتھ لانے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔بچے اگر گھر میں چھوڑے جائیں تو بہت سی مشکلات (Problems) کا سامنا بھی رہتا تھا۔دوسرے یہ بھی تھا کہ یہاں کے سنیما ہالوں میں بچوں کو کھیل کود کے وافر مواقع دستیاب تھے۔ بچے اپنے کھیل کود میں مصروف رہتے اور ہم فلم کے مکالمے سننے اور دیکھنے میں مگن رہتے۔ ہر طرف قہقہوں کا شور برپا ہوتا اور کوئی تماشائی بھی اس کا بُرا نہیں مناتا تھا۔انڈیا کی اردو فلموں میں ایک بات بڑی انوکھی تھی کہ سٹوری نجانے کیا رخ اختیار کرے۔ ان فلموں کے مکالمے بھی بہت معنی خیز ہوا کرتے تھے۔ الغرض ساؤتھ ہال میں فلم بینی ایک ایسا شغل تھا جو ہر زاویہء نظر سے قابلِ داد تھا اور وہاں جوپیسہ بھی خرچ کیا جاتا تھا وہ ہر انداز سے نفع بخش ہوتا تھا۔
بچپن ہی سے مجھے موسیقی سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ میں جب سکول کا ہوم ورک مکمل کررہی ہوتی تھی یا بستر میں لیٹی ہوتی تھی تو پس منظر  میں ریڈیو کا شور میرے لئے فردوسِ گوش ہوتا تھا۔ جب میں کچن میں ہوتی یا کار میں یا گھر کے باغیچے میں تو وہاں بھی موسیقی کی لگن میرے ساتھ ساتھ رہتی اور میں اس کی دھنوں میں مگن ہوجایا کرتی تھی۔ میرا بچپن مذہب پرست ماحول میں گزرا تھا۔ مثال کے طور پر مجھے یاد ہے کہ لباس کے انتخاب میں بھی مذہب کا رنگ غالب تھا۔ ہمیں اجازت نہیں تھی کہ ایسا لباس زیبِ تن کریں جو کسی بھی زاویئے سے ”نیم برہنگی“ کی حدوں کو چھوتا نظر آئے۔
اس کے باوجود کہ فیشن کا حالیہ رجحان کیا جا رہا تھا مجھے ساڑھی پہننا بہت اچھا لگتا تھا لیکن اس کے لئے چند شرائط لگا دی گئی تھیں مثلاً یہ کہ بلاوز بہت لمبا ہونا چاہیے، اس کی گردن کا گھیرا بہت کم ہونا چاہیے اور بدن کا کوئی ایک انچ بھی برہنہ نظر نہیں آنا چاہیے۔ میں سوچا کرتی تھی کہ آخر ان شرائط کا مقصد کیا ہے؟ اگر ایسا پہناوا پہن کر پرانے دور کی ایک بڑھیا خاتون نظر آنا ہے تو اس سے بہتر یہی ہے کہ ایسی ساڑھی پہنی ہی نہ جائے۔بہت برس بعد جب میری خالد کے ساتھ منگنی طے پا گئی تھی تو میرے والدین کو رفیع فیملی کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا کہ اگر بہو نے ساڑھی ہی پہننی ہے تو بلاوز کی لمبائی بیس انچ یا اس سے زیادہ ہونی چاہیے، کم نہیں۔ یعنی لڑکے والوں نے بتا دیا کہ ان کے خاندان میں لمبے بلاوز ہی پہننے کی اجازت ہے۔
اس کے باوجود کہ ہماری پرورش ایک دین دار گھرانے میں ہوئی تھی، جب ہم جوانی کی منازل  طے کررہے تھے تو ماہِ رمضان کے دوران بھی ہم گانے سنا اور فلمیں دیکھا کرتے تھے (اللہ ہمیں معاف کرے) لیکن روزہ رکھ کر سنیما کا رخ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا تھا کہ اس طرح وقت جلد گزر جاتا تھا۔ لیکن جب سے میں انگلینڈ میں آئی تھی تو روحانیت کا غلبہ مجھ پر کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا۔ مجھے محسوس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ پورے ماہِ رمضان کو زیادہ خدا پرستی اور تقدیس سے گزارنا چاہیے، زیادہ وقت عبادت گزاری میں صرف کرنا چاہیے اور اللہ کریم سے قربت اور لگن کا زیادہ اظہار کرنا چاہیے۔اس سے یہ ہوا کہ میں نے ماہِ رمضان میں فلم بینی اور فلمی گیت سننا ترک کر دیا۔
تاہم اس روز جب میں گھر کے ہال کمرے میں داخل ہوئی تو میرا دل نجانے موسیقی سننے کو کیوں زیادہ تڑپنے لگا۔ مجھے یہ ادراک تو تھا کہ یہ رمضان کا مقدس مہینہ ہے اور مجھ پر اس کا احترام لازم ہے لیکن اس کے باوجود میں اس تحریک کو دبا نہ سکی۔ میرے پاس غمگین گیتوں کی جو ٹیپ تھی اسے میں نے سننا شروع کر دیا۔ مجھے خود بھی معلوم نہ تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیوں اداس اور غمگین کرنے والے گیت سننے کو دل چاہ رہا ہے۔ دل بار بار بھر آتا تھا اور آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے تھے۔ جب ٹیپ پر پہلا گیت شروع ہوا تو میں جذبات کو کنٹرول میں نہ رکھ سکی۔ لتا منگیشکر کے اس گیت کی لے جب فضا میں ابھری کہ جس کے بول تھے……:جا رے جا رے اُڑ جا رے پنچھی، بہاروں کے دیس جا رے، یہاں کیا ہے میرے پیارے کہ اُجڑ گئی بغیا میرے من کی……اس گیت کے بعد ٹیپ پر ابّا کے چند گانے شروع ہو گئے جو یہ تھے:

1۔جاتا ہوں میں، مجھے اب نہ بلانا
میری یاد بھی اپنے دل میں نہ لانا
2۔یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم
نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے۔
3۔جانے والے کبھی نہیں آتے، جانے والوں کی یاد آتی ہے
4۔جب بھی سنو گے گیت مرے، سنگ سنگ تم بھی گنگناؤگے
ابھی اگلا گیت ”چل اڑجارے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ“ شروع ہوا ہی تھا کہ خالد کمرے میں داخل ہوئے اور بولے: ”کیا مطلب؟ یہ تم نے رمضان میں موسیقی کا شوق کب سے شروع کر دیا ہے؟ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ آج میں خود بھی اکھڑا اکھڑا سا محسوس کر رہا ہوں“۔
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج ہم ساؤتھ ہال نہیں جا رہے؟“…… میں نے پوچھا  ”نہیں، نہیں۔ میں آپ کو ضرور وہاں لے جاؤں گا۔لیکن ہمیں وہاں سے 5بجے واپس آنا پڑے گا۔ آپ کو معلوم ہے ناکہ آج جمعرات ہے اور آج شام میں نے باؤلنگ کے لئے جانا ہے“…… خالد نے جواب دیا۔
خالد ایک نہایت پُرجوش سپورٹس مین تھے۔وہ تقریباً ساری ہی کھیلوں کو دیکھنے کے اتنے ہی مشتاق تھے کہ جتنے خود ان کو کھیلنے کے…… ہر جمعرات کو جب رات کے آٹھ بجتے تو وہ ائر لائن لیگ میں چلے جاتے اور وہاں جا کرباؤلنگ کا شوق پورا کرتے۔ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ جمعرات کو کرکٹ کھیلنے ضرور جاتے تھے۔ میں اکثر ان کو تنگ کرنے کے لئے کہا کرتی: ”اگر میں جمعرات کو فوت ہو گئی تو کیا آپ پھر بھی باؤلنگ کرنے جاؤ گے؟“…… وہ کہا کرتے: ”دیکھا جائے گا کہ ایسا کب ہوتا ہے“۔ خالد کو باؤلنگ کرنے کا ازحد شوق تھا۔وہ باؤلنگ کرکے بہت طمانیت محسوس کرتے تھے۔ وہ ایک نیم پروفیشنل کرکٹر تھے اور دنیا بھر میں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی وہاں جا کر گیم میں شرکت کیا کرتے۔وہ ملائیشیا، ہانگ کانگ، امریکہ، آسٹریلیا،تھائی لینڈ اور تقریباً سارے ہی یورپ میں اس گیم کے لئے جا چکے تھے، ہمیشہ اپنی ٹیم کی کپتانی کیا کرتے تھے اور انہوں نے کافی ٹرافیاں بھی جیت رکھی تھیں۔ ان کے بھائی سعید اور حامد بھی بہت اچھے کرکٹر تھے۔ وہ بھی ہر جمعرات اس باؤلنگ لیگ میں جا کر شریک ہوتے جس میں خالد حصہ لیتے۔ ان تینوں کھلاڑیوں کی بیگمات یعنی ذکیہ، فوزیہ اور میں اپنے اپنے شوہروں کو کھیلتے دیکھتیں تو ہماری نظریں سکور بورڈ پر جمی رہتیں۔ سب کو انتظار ہوتا کہ ان کے شوہروں کی کارکردگی کیسی رہتی ہے۔ ہم سکور بورڈ بھی دیکھتی رہتیں اور کھیل کے داؤ پیچ بھی نظر میں رکھتیں اور اندازے لگاتی رہتیں کہ دیکھیں آخر میں جیت کس کی ہوتی ہے۔ جب بھی کسی شوہر کا سکور نیچے چلا جاتا تو شوروغوغا کا ایک طوفان سا مچ جاتا۔ ایک طرف سے آواز آتی: ”بھائی صاحب، کیا آپ کو وقت پر کھانا نہیں ملتا؟“…… اور ”میرا خیال ہے کہ آج تو آپ نے ہارنے کی قسم کھا رکھی ہے وغیرہ وغیرہ“…… وہ ایسے سہانے ایام تھے کہ جن کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ 
(جاری ہے)

مزید :

ایڈیشن 1 -