بچے کے غصے اور ضد کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟
بچے اپنے اردگرد نظر آنے والے طرزِ عمل کی نقل کر کے ضدی اور غصے کا شکار ہو سکتے ہیں۔یہ اشتعال ان کے جذبات سے نمٹنے کا طریقہ بھی ہو سکتا ہے جن کا وہ اظہار نہیں کر سکتے۔ اگر اصل وجہ کو چیک نہ کیا جائے تو یہ رویہ ان کی ذہنی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔والدین بننا آسان نہیں ہے اور اکثر والدین بعض اوقات خود کو تنقید کا نشانہ بنا لیتے ہیں چاہے وہ کچھ بھی کریں۔اگر وہ اپنے بچے کے مطالبات مان لیتے ہیں، تو ان پر انہیں خراب کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اگر وہ انکار کرتے ہیں، تو انہیں بے حس یالاپرواہ کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔جب آپ کے آس پاس کوئی بچہ ہوتا ہے، تو یہ عام بات ہے کہ جب انہیں وہ چیز نہیں ملتی جو وہ چاہتے ہیں تو وہ ناراض ہوتے ہیں اور ان کی ایک سادہ سی خواہش تیزی سے غصے میں بدل سکتی ہے، جب وہ پوری نہ ہو تو رونے اور چیخنے بھی لگ جاتے ہیں،لیکن جب ان کی خواہشات پوری ہوتی ہیں تو ان کے چہرے ایک دِل آویز مسکراہٹ سے چمک اٹھتے ہیں۔ماہرِ نفسیات کے مطابق اکثر بچے ضدی ہو جاتے ہیں اور اپنے غصے کا اظہار تیز آواز میں کرتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے اردگرد کے رویوں کو جذب کر لیتے ہیں اور انہیں نارمل سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ اکثر اپنے والدین کو غصے میں چیختے چلاتے یابلند آواز میں بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو وہ اس طرزِ عمل کو قابلِ قبول سمجھتے ہوئے اس کی نقل کرنا سیکھتے ہیں۔ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر میں، ان کی شناخت، خواہشات کو پورا کرنے کی جبلت کی تحریک بہت مضبوط ہوتی ہے، جبکہ ان کی انا ذاتی عزت کم ہوتی ہے جو عمر اور تجربے کے ساتھ بڑھتی ہیں۔ اگر انہیں وہ نہیں ملتا ہے جو وہ چاہتے ہیں، تو وہ تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اس کا اظہار ان طریقوں سے کرتے ہیں،جو انہوں نے اپنے ماحول سے سیکھا ہوتاہے۔بعض ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے ضدی یا اونچی آوازمیں اس لئے چیختے ہیں کہ ان کے پاس ابھی تک اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے الفاظ یا مہارت نہیں ہوتی ہے یا اس لئے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے بڑے انہیں نظر انداز کر رہے ہیں اور غصہ ان کے جذبات سے نمٹنے کا طریقہ ہے جس پر وہ پوری طرح قابو نہیں پا سکتے۔جب بچے اپنے ماحول سے سیکھتے ہیں اور اکثر اپنے والدین کو نقل کرتے ہیں، تو ضد بھی ترقی کا ایک فطری حصہ ہے، کیونکہ بچے اپنے آپ پر زور دینا سیکھتے ہیں۔ اس کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ والدین غلطی پر ہیں۔یہ طرزِ عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بچہ ابھی تک مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لئے درکار جذباتی اظہار نہیں جانتا۔اگر اس طرح کے رد عمل پر توجہ نہ دی جائے یا ان کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے کی جذباتی نشوونما اس طرح نہیں ہو رہی جس طرح اسے ہونا چاہئے۔ماہرین کے مطابق اگر ان پر قابو نہ رکھا جائے تو غصہ اور ضدبچے کی جذباتی نشوونما پر طویل مدتی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ مسلسل غصہ اور ضد زندگی میں جذبات کو سنبھالنے میں دشواری، ساتھیوں اور خاندان کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور مایوسی یا اضطراب کے بڑھتے ہوئے جذبات جیسے مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ بحیثیت والدین آپ کو اپنے بچے کی ضد اور غصے کے آگے نہیں جھکنا چاہئے، کیونکہ اس سے بچہ زیادہ ضدی ہو جائے گا، اور اس کے غصہ کرنے کی عادت پختہ ہوتی جائے گی،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ والدین اپنے بچے کے جذبات کو نظر انداز کریں۔ اس کے بجائے، انہیں اپنے بچے کے جذبات کو تسلیم کرنا چاہئے، واضح اور مستقل حدود کا تعین کرنا چاہیے، اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے پُرسکون رہنا چاہئے۔
ماہرینِ صحت کا مزید کہنا ہے کہ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی ضروریات کے اظہار کے صحتمند طریقوں کی طرف رہنمائی کرنے کو ترجیح دیں اور ان کی مدد کریں۔ ان کی جذباتی نشوونما کے لئے مؤثر اور تعمیری مواصلاتی طریقوں کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے۔
مشکل صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے، آپ کو چاہئے کہ پُرسکون رہیں۔بچے اکثر آپ کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ سکون کے ساتھ جواب دینے سے صورتِ حال کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ان کے جذبات کو تسلیم کریں۔یہ کہہ کر ہمدردی کا اظہار کریں، ”میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ پریشان ہیں۔ کیا آپ اس کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں؟“
انتخاب کی پیشکش کریں: بچوں کو چھوٹے انتخاب کا اختیار دینے سے انہیں ضد اور غصہ پر کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے، جس سے ضدی رویے کی ضرورت کم ہوتی ہے۔
مسئلے کو حل کرنے کی مہارتیں سکھائیں: ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لئے الفاظ استعمال کریں یا ایک ساتھ مل کر حل تلاش کریں۔ ٭٭٭
صحت مند رویے کا نمونہ پیش کریں: انہیں دکھائیں کہ کس طرح مایوسی کو پرسکون طریقے سے سنبھالنا ہے۔ مثال کے طور پر، کہیں، ”میں جب کبھی مایوسی محسوس کرتا ہوں تو گہری گہری سانسیں لیتا ہوں، گہری سانسیں لینے سے مایوسی دور ہوتی ہے۔
٭٭٭