”الف“ کا تاریخی جشنِ کتاب حسن ابدال!
خرم اعوان
وہ معاشرے جو آباء و اجداد سے حاصل کردہ نظریات، علوم اور تجربات کو وقت کی بھٹی میں ڈالتے ہیں، کھوٹا کھرا الگ کرتے ہیں، نئی روایات اور خیالات کو جنم دیتے ہیں، افراد کے ضمیروں پر قدغن لگانے کی بجائے، آزادیئ اظہار کو مقدم جانتے ہیں،علم و ادب اور کتاب دوستی میں جن کا ثانی نہیں ہوتا اور جن معاشروں میں آدمیت کا معیار قابلیت پر پرکھا جاتا ہو، جہاں ظلم اور ظالم قانون کے آہنی شکنجے سے بس ایک ہاتھ پرے ہوں۔۔۔ ان معاشروں کی مثال ایک ایسے پھوٹتے چشمے کی ہے جس کا شفا بخش پانی جہاں جہاں جاتا ہے، پھول کھلاتا جاتا ہے۔۔۔ ہر رنگ کے پھول، جن پر خواہشوں کی تتلیاں خوابوں کے رنگ بھرتی رہتی ہیں۔ گویا ایک گلشن آباد ہو جاتا ہے؛ اگرچہ جھاڑ جھنکار بھی اگتا رہتا ہے اور پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی، جن کی تراش خراش باغباں کے لئے ہرگز مسئلہ نہیں ہوتی اور یہ کانٹے بھی اس مہکتے لالہ زار کا حصہ بنے اتنے برے بھی معلوم نہیں ہوتے جبکہ وہ معاشرے جن کی ذہنی سطح وقت کے سمندر میں صدیوں پہلے کی بندرگاہ پر رُکی ہو وہ اس جوہڑ کی مانند ہو جاتے ہیں جو بذاتِ خود بیماریوں اور آفتوں کا سبب بن جاتے ہیں،جہاں دور دور تک ان کے تعفن سے ماحول میں گھٹن ہو جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسا ہی حبس زدہ معاشرہ ہے!! ہم آج بھی ماضی کے اس حسین قلعے میں محبوس ہیں جہاں سے ہماری ہی عظمتوں کے مینار ہر طرف بلند ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی کے اْن حسین اور عظمت کے بلند میناروں کی درخشاں روایات کو زندہ رکھنے کے لئے ابدالوں کی بستی حسن ابدال میں پہلی بار ابدال لٹریری فورم " الف" نے ”جشنِ کتاب“ فیسٹیول کا شاندار اہتمام کیا گیا۔محسن نقوی نے کہا تھا:
فراقِ یار کی بارش، ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اْترا کمال کا موسم
اس روز شہرِ ابدال میں واقعی کمال کا موسم چھایا ہوا تھا اور رات ہی سے ابرِ رحمت برس رہی تھی۔ ولی کامل حضرت بابا ولی قندھاری المعروف زندہ پیر پہاڑی کو گہرے بادلوں نے اتنی خوبصورتی سے اپنی اوٹ میں لے رکھا تھا کہ دامن میں شاہراہِ قراقرم سے متصل جائے تقریب کا دلکش نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا جسے مزید چارچاند لگانے کے لئے ”الف“ کے بلاوے پر ملک کے طول و عرض سے سٹال آرگنائزر کتب کے ہمراہ اپنے اپنے ”مورچے“ سنبھال چکے تھے جو تعداد میں دو درجن سے زائد تھے۔ منتظمین کا حسنِ انتظام و انصرام قابلِ تحسین تھا۔
مارکی کے وسیع و عریض ہال کے دونوں اطراف میں لگی یک رو میزوں پر قرینے سے سجی کتب ہر خاص و عام کو دعوتِ مطالعہ دے رہی تھیں۔ ہال کے اندر اور باہر محبینِ کتاب اور شرکائے فیسٹیول کو خوش آمدید کہنے کے لئے خیرمقدمی و مبارکبادی پینافلیکس آویزاں تھیں جبکہ بیک سٹیج پر منتظمین جشنِ کتاب کی تصاویر سے مزین قدآور پینافلیکس آنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رہی تھیں۔
یہ علم کا سودا، یہ کتابیں، یہ رسالے
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لئے ہیں
خیر ”الف“ کا یہ کتاب فیسٹیول کسی ایک فرد کی یادوں کو بھلانے کے لئے تو نہ تھا ہاں مگر گزرے وقتوں کی رِیت روایات کو فراموش کر کے ایک نئی اور روشن تاریخ رقم کرنے کے لئے ضرور تھا۔بقول شاعر:
جب میں آیا تھا تو اکیلا تھا، گِنا تھا تم نے
آج ہر سمت مرے چاہنے والے گِن لو
”الف“ کا یہ اکیلا پن علم دوست ممتاز کاروباری و سیاسی شخصیت ملک نثار حسین اعوان نے یوں دُور کیا کہ جشنِ کتاب کے انعقاد کے لئے اپنی پرشکوہ گرینڈ مارکی کے دروازے ان پر کھو ل دئیے اور اس مقصد کے لئے اپنے ہرممکن تعاون کا یقین دلا کر منتظمین فیسٹیول کی ڈھارس بندھائی۔ اْدھر ہر دلعزیز اسسٹنٹ کمشنر محمد عارف قریشی کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی نے بھی ملک شاہد اعوان کی قیادت میں فیسٹیول انتظامیہ کی انتھک کاوشوں کو جلا بخشی۔ فیسٹیول میں جوق در جوق طلبا و طالبات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین و حضرات کی آمد و شرکت اس بات کی غماز تھی کہ کتاب اور تحریر سے عشق و عقیدت رکھنے والے آج کی ڈیجیٹل ”ریس“ میں بھی سب سے آگے ہیں۔ قاسم علی شاہ لکھتے ہیں ”آج سائنس بھی یہ بات تسلیم کر چکی ہے کہ ہر جگہ کی اپنی شعاعیں اور اثرات ہوتے ہیں، جب آپ کسی جگہ جاتے ہیں تو وہاں کا روحانی ہالہ(Aura)آپ کو اپنے حصار لے لیتا ہے۔ بعض اوقات یہ ہالہ وہاں موجود شخص کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی وہاں موجود خیر کے سامان کی وجہ سے۔ اگر آپ کی طبیعت میں حساسیت ہے تو آپ اس روحانی ہالے کو آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ پرندے زلزلہ آنے سے پہلے بے چین ہو جاتے ہیں اور اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں، اس کی وجہ بھی حساسیت ہے“۔
ایسا ہی ’روحانی ہالہ‘ الف کے ”جشنِ کتاب“ میں بھی محسوس ہوا جہاں ایک طرف سراجیہ لائبریری اور راجہ نور محمد نظامی بھوئی گاڑ کتب خانہ کے قدیم قرآنی نسخہ جات، نادر مخطوطات و نایاب نمائشی کتب موجود تھیں تو دوسری جانب ادارہ فکر و عرفان اسلام آباد، تحریک ِمحنت پاکستان(واہ کینٹ)، عالمی مجلسِ ختمِ نبوت راولپنڈی، ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ ٹرسٹ لاہور، تحریک ِمنہاج القرآن پاکستان کی دینی و اصلاحی کتابیں، اقبال اکیڈمی پاکستان (لاہور)، اکادمی ادبیات اسلام آباد، ادارہ فروغِ قومی زبان اسلام آباد، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن، مرید اقبال فاؤنڈیشن پاکستان(واہ کینٹ) کے مطبوعہ فکری و نظریاتی مواد کے علاوہ فری لانسنگ زون واہ کینٹ، اولڈ بک ماسٹر 2 واہ کینٹ، الایثار ویلفیئر سوسائٹی حسن ابدال، گوشہ حسن ابدال، پشتو ادب(جاوید اقبال افگار)، اکادمی ادبیات کیمبل پور، ادارہ جمالیات اٹک کی تاریخی اور ادبی کتب بھی شامل تھیں۔ ویسے تو ایک ہی چھت تلے ہزاروں کی تعداد میں مختلف موضوعات پر مبنی معیاری کتب کی موجودگی تشنگانِ علم اور مطالعہ کا شوق رکھنے والے صاحبانِ ذوق کے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھی، سونے پہ سہاگہ یہ کہ اہلِ فکر و دانش، ماہرِ تعلیم، اساتذہ، علمائے کرام، مشائخ ِعظام کے زرّیں خیالات سے استفادہ بھی شرکائے فیسٹیول کا مقدر ٹھہرا۔ کتاب فیسٹیول کا افتتاح اٹک کے ادب دوست ڈپٹی کمشنر راؤ عاطف رضا نے کیا۔ ان کے ہمراہ اسسٹنٹ کمشنر حسن ابدال محمد عارف قریشی و دیگر تحصیل و ضلعی افسران بھی موجود تھے۔انہوں نے اس موقع پر حسن ابدال میں تاریخی ”جشنِ کتاب“ کے انعقاد اور شاندار حسنِ انصرام پر منتظمین ابدال لٹریری فورم " الف" کی بے لوث خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل کو سوشل میڈیا اور موبائل کی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کیلئے کتاب کلچر کی جانب راغب کرنا ہو گا جس میں والدین اور اساتذہ کا کردار ناگزیر ہے، فنونِ لطیفہ سے وابستہ تنظیموں اور شخصیات کو اس سلسلہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ معاشرے میں مثالی روایات کو پروان چڑھایا جا سکے۔
ڈی سی اٹک نے جشنِ کتا ب کے سٹالز کا بغور معائنہ کیا اور وہاں موجود کتب میں گہری دلچسپی لیتے ہوئے اس حوالے سے سٹال آرگنائزر سے آگاہی بھی لی جس پر انہوں نے خوشی و طمانیت کا اظہار کیا۔اس موقع پر چیئرمین ”الف“ شاہد اعوان نے ڈی سی اٹک راؤ عاطف رضا کو ”جشنِ کتاب“ کے مقاصد اور کتب سٹالز کے حوالے سے بریف کیا اور بتایا کہ جشنِ کتاب میں ملک بھر سے نامور طباعتی ادارے، پبلشرز، ادبی شخصیات اور تنظیموں کے سٹال موجود ہیں جبکہ قدیم قرآنی نسخہ جات، مخطوطات و دیگر نایاب لٹریچر بھی کتاب فیسٹیول کا حصہ ہے۔ ممتاز سیاسی و کاروباری شخصیت ملک نثار حسین اعوان، صدر انجمن خدام الفقراء باباولی قندھاری اسد اقبال ترک، راجہ نور محمد نظامی، سید نصرت بخاری، قیصر دلاور جدون بھی اس موقع پر موجود تھے۔ جشنِ کتاب میں حسن ابدال کے علاوہ واہ کینٹ، ٹیکسلا، اٹک، حضرو، فتح جنگ، ہری پور، پشاور، بنوں، صوابی، راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور و دیگر علاقوں سے علم و ادب سے وابستہ شخصیات کے علاوہ اساتذہ، ماہرِتعلیم، طلبا و طالبات، صحافی، قانون دان، سیاسی، سماجی، کاروباری و مذہبی شخصیات کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین و حضرات کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
جشنِ کتاب میں شعرائے کرام کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیسٹیول منتظمین نے باذوق حاضرین و سامعین کی شعری تشنگی کی تسکین کے لئے شرکاء کو مہمان شعراء کے کلام سے بھی محظوظ کیا گیا۔ اٹک سے تشریف لانے والے احباب میں بابائے اٹک سعادت حسن آس، راجہ مختار احمد اور حسین امجد نے اپنی نعتیہ، پنجابی، اردو شاعری سنا کر شرکائے فیسٹیول سے خوب داد سمیٹی۔ واہ کینٹ سے تعلق رکھنے والے ملک کے معروف مزاح گو شاعر محمد عارف کے طنزو مزاح سے بھرپور کلام نے حاضرین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔
جدید لہجے کے معروف غزل گو شاعر دلاور علی آزر ان دنوں کراچی سے اپنی جنم بھومی حسن ابدال آئے ہوئے ہیں،ان کی آمد اور غزلیہ اشعار نے جشنِ کتاب میں رنگ بھر دئیے۔ دریں اثناء حسن ابدال کی چھ صاحبِ کتاب شخصیات کی حال ہی میں منظرعام پر آنے والی تصانیف کی رسمِ پذیرائی بھی جشنِ کتاب کا حصہ تھی،جن میں ممتاز صحافی و کالم نویس ملک شاہد اعوان کے منتخب کالموں کا مجموعہ ”کہکشاں“، ماہر آثار شناسی راجہ نور محمد نظامی کی ”سوانح حیات شیخ کریم الدین بابا حسن ابدالی“، پشتو زبان کے ممتاز شاعر جاوید اقبال افگار کی پشتو شاعری پر مشتمل شعری مجموعہ ”بے سوکا“، نوجوان لکھاری شاہد سلیم شاہد کا افسانہ ”قدرت کا انتقام“، بچوں کی کہانیوں پر مشتمل ”عام آدمی کی کہانی“ از قاضی عماد الدین اور مسکان ذوالفقار بٹ کی انگریزی شاعری کی کتابThe Shadows of Darkness شامل تھیں۔ سٹیج سیکرٹری رسمی کاروائی کے بعد تقریبِ پذیرائی کا آغاز کر چکے تھے اور صدائے فکر بلند کر رہے تھے کہ ہم ٹیکنالوجی کے چکر میں پڑ کر کتابوں کے اس لمس اور خوشبو سے دُور ہوتے جا رہے ہیں جو کبھی ہمارے اندر ایک لطیف احساس پیدا کرنے میں معاون و مددگار تھے۔ ویسے بھی جس معاشرے میں کتاب فٹ پاتھ پر فروخت ہوں اور جوتے شیشے کی الماریوں میں سجا کر بیچے جائیں وہاں کتاب دوستی کا جذبہ مفقود ہونا ہی بنتا ہے،اوپر سے کمر توڑ مہنگائی نے کتاب دوست افراد کو بھی کتب سے دُور کر دیا ہے۔ کتابوں سے عشق کی آخری صدی میں ا نسانیت اپنی بھوک مٹائے، فکر ِکام و دہن کرے یا کتب سے دوستی نبھائے؟ سو اس قسم کے معاشرے میں رہنے والے افراد نے اگر کتاب سے دُوری اختیار کر لی ہے تو تعجب کیسا؟ باوجود اس کے یہاں آنے والا ہر مرد و زن اس شعر کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے:
قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مَرے ہیں
سٹیج پر قلم اور کتاب کی معتبر اور آبرومند ہستیاں جلوہ فرما تھیں جن میں اسلام آباد سے خصوصی طور پر جشنِ کتاب میں شرکت کے لئے وطنِ عزیز کی صحافت کا بیباک و توانا حوالہ، مصنف، ادیب و شاعر جناب جبار مرزا صدرِ تقریب ٹھہرے۔ ڈائریکٹر سپورٹس(ر) پی او ایف بورڈ واہ، کھلاڑی، کمنٹریٹر، سیاح، تاریخ نویس، ادیب و سفرنامہ نگار جناب محمد توفیق مہمانِ خصوصی قرار پائے۔ جبکہ ٹیکسلا سے ممتاز ماہرِ تعلیم و کالم نگار عطاء الرحمٰن چوہدری، اٹک سے ادیب، استاد و مصنف پروفیسر سید نصرت بخاری اور ادب نواز ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت ذوالفقار حیات خان بھی رونقِ محفل تھے۔ مہمان مقررین میں سابق ڈی ای او ایجوکیشن اٹک راجہ مختار احمد سگھروی، ڈائریکٹر ٹرینڈز سکول سسٹم فاروق احمد، عاصم نوازخان طاہرخیلی، پروفیسر محمد رحمان ساحل بنوی، خواجہ محمد اعظم شامل تھے جبکہ نظامت کی ذمہ داریاں احقر نے نبھائیں۔ مقررین نے کتاب دوستی و کتب بینی کے حوالے سے عظیم الشان ''جشنِ کتاب'' ایونٹ کے کامیاب انعقاد پر منتظمینِ ''الف'' کی بے لوث خدمات کو سراہا اور انہیں مبارکباد پیش کی۔ جناب فاروق احمد نے کتاب دوستی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے جشنِ کتاب فیسٹیول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سکول لائبریری کے لئے ایک لاکھ روپے کی کتب خریداری کا اعلان کیا جس پر شرکائے فیسٹیول نے انہیں بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا۔مہمانِ خصوصی جناب محمد توفیق نے اپنے خطاب میں کتاب فیسٹیول کے شاندار انعقاد اور اس خوشگوار تجربے میں انہیں شامل کرنے پر ”الف“ کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے شاہد اعوان کی بے داغ و بے خوف صحافتی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں حسن ابدال کے ماتھے کا جھومر قرار دیا جبکہ راجہ نور محمد نظامی کی کتاب سے عشق اور قدیم نسخہ جات و نوادرات کی جستجو اور گہرے لگاؤ کو دیکھتے ہوئے انہیں گوتم بدھ کے زمانے کی مورتی سے تعبیر کیا۔
محمد توفیق نے کہا کہ علم اور کتاب سے دُوری نے ہمارا بیڑہ غرق کر دیا ہے جبکہ زندہ معاشرے اپنے علم و ادب اور فنونِ لطیفہ پر فخر کرتے ہیں، وہ ٹینکوں اور اسلحہ کی طاقت پر ہرگز نہیں اتراتے، معاشرے میں عدم برداشت کی اصل وجہ کتاب سے کٹ جانا ہے۔ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہو گا کہ کوئی معاشرہ کتاب کے بغیر کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان میں سکھوں کے ادبی وارث اور اٹک سے بے پناہ عقیدت رکھنے والے جناب جبار مرزا نے خطبہئ صدارت دیتے ہوئے کہا کہ قوموں کی زبوں حالی کا اصل محرک کتاب سے دُوری ہے، زندہ قومیں اپنے اسلاف کی تاریخ اور فنونِ لطیفہ کو کبھی فراموش نہیں کرتیں جبکہ وطنِ عزیز سے دہشت گردی کے ناسور، نفرت اور انتہاپسندی کے خاتمہ کے لئے کتاب دوستی اور کتب بینی کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے،جس پر ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ آخر میں چیئرمین ابدال لٹریری فورم ملک شاہد اعوان نے جشنِ کتاب میں شریک مہمانانِ گرامی اور شرکائے فیسٹیول کا شکریہ ادا کیا۔بعدازاں جشنِ کتاب“ میں شریک تمام اسٹال منتظمین اور ادبی شخصیات کو ''الف'' کی جانب سے سندِ اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ یوں ”الف“ کے زیر اہتمام شہرِ ابدال کی تاریخ کی پہلی باضابطہ و پروقار تقریب دْور افق پر گہرے بادلوں میں چھپے ڈوبتے سورج کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی جس کی حسین و خوشگوار یادیں علاقہ بھر کے ادبی و علمی منظرنامے پر تادیر زندہ رہیں گی اور حسن ابدال کے اہلِ کتاب و پاسبانِ حرمتِ قلم اس پر ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے۔
سناٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی
final