تھامس ایڈیسن، جس کی ناکامیاں اُس کی زندگی کی کامیابیاں بن گئیں!

تھامس ایڈیسن، جس کی ناکامیاں اُس کی زندگی کی کامیابیاں بن گئیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


محمد نصیر الحق ہاشمی


دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے لیے نہیں دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے اس دنیا میں آتے ہیں۔ وہ لوگ حقیقی معنوں میں خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، اور عموماً چھوٹی عمر ہی میں سوچ بچار کے حامل ہوتے ہیں۔وہ ہر کام میں غور و فکر  کے عادی ہوتے ہیں۔ اپنے جملہ امور اس طریقے سے انجام دیتے ہیں کہ وہ ان میں ہر صورت میں کامیاب ہونا پسند کرتے ہیں۔وہ ناکامی بلکہ ناکامیوں سے سیکھتے ہیں۔ ناکامیاں انہیں کامیابی کے لئے مزید جدوجہد پر آمادہ کرتی ہیں۔وہ ناکامیوں کو بھی اپنی کامیابی ہی سمجھتے ہیں۔دراصل وہ ناکامی سے سبق سیکھ کر اپنی کامیابی کا تہیہ کرتے ہیں۔ ناکام ہوتا ہی وہ ہے جس نے کامیاب ہونا ہو۔ جو کچھ کرتے ہی نہیں، جن کی سوچ ہی نہیں ہوتی، جو آگے بڑھنا پسند ہی نہیں کرتے، ان کے لیے کامیابی یا ناکامی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ناکامیاں کس طرح ایک آدمی کو کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہیں  اور کامیابیاں بھی ایسی کہ انسان دنیا سے چلا جاتا ہے، لیکن اپنے کام، خدمات  بالخصوص کامیابیوں کی بدولت وہ ہمیشہ زندہ و تابندہ رہتا ہے۔
چھ سال کی عمر میں اس نے ناکامی کا پہلا مزا چکھا۔ یہ اس کی عملی زندگی کا آغاز تھا۔اس کا والد لکڑی کا کام کرتا تھا۔ چھ سال کے بچے نے لکڑی کے اس ذخیرے کو آگ لگا دی۔وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ لکڑی کو آگ لگے تو کیا ہوتا ہے؟ والد کی لکڑی جل کر کوئلہ ہو گئی اور والد نے اس شان دار ”کامیابی“پر پورے گاؤں کے سامنے اس کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کی۔بچے نے مار کھا لی، لیکن وہ تجربوں سے باز نہ آیا۔اس کا دوسرا تجربہ انڈوں سے انسان کے بچے نکالنا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ مرغی انڈوں پر بیٹھتی ہے تو ان سے چوزے نکلتے ہیں اگر ان پر انسان بیٹھے تو کیا نکلے گا؟ وہ یہ جاننے کے لیے ایک دن ہنس کے انڈوں پر بیٹھ گیا۔انڈے ٹوٹ گئے، اس کی پتلون خراب ہو گئی۔ ناکامی پر ایک بار پھر اسے مار پڑی۔ اس کا تیسرا تجربہ پرندوں کی طرح ہوا میں اُڑنا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پرندے کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں،کیڑے مکوڑوں میں کوئی ایسی تاثیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ ہوا میں اُڑ لیتے ہیں۔ اس نے کیڑے مکوڑے جمع کیے،ان کا جوس نکالا اور یہ جوس اپنی نوکرانی کو پلا دیا۔نوکرانی کے پیٹ میں درد ہونے لگا اور وہ فرش پر لیٹ کر تڑپنے لگی،نتیجہ اس بار بھی پٹائی کی شکل میں نکلا، لیکن وہ باز نہ آیا۔اس نے ناکامیوں کو اپنی طاقت بنا لیا اوروہ آنے والے دنوں میں اس طاقت کے ذریعے دنیا کا سب سے بڑا موجد بن گیا۔اس نے دنیا کی شکل بدل دی۔ یہ ایڈیسن تھا،تھامس ایڈیسن دنیا کا سب سے بڑا موجد۔ ہم آج دنیا کے کسی کونے میں بھی بیٹھ جائیں اور اپنے دائیں،بائیں، آگے پیچھے،اِدھر اُدھر غرض کسی جگہ بھی دیکھیں تو ہمیں وہاں ایڈیسن کی درجنوں ایجادات نظر آئیں گی۔آج کا انسان اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔وہ دنیا کے آٹھ ارب لوگوں کا محسن ہے۔ کاش پاکستان کا کوئی ماہر تعلیم ایڈیسن کی بائیوگرافی ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل کر دے،بلکہ جماعت اوّل سے میٹرک تک کی ہر کتاب میں اس کا مضمون شامل ہو تو یہ بات پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ملک کے نوجوانوں میں کامیابی کی شرح بڑھ جائے گی۔ ہمارے بچے بچپن ہی سے سیکھ لیں گے۔ اگر کوئی انسان تبدیلی لانا چاہے تو یہ اکیلا ہی پوری دنیا کو بدل سکتا ہے۔ ہمارے بچے یہ بھی سیکھ لیں گے کہ،ناکامی،ناکامی نہیں ہوتی بلکہ یہ کامیابی کا پہلا زینہ ہوتی ہے۔ آپ اگر ناکام نہیں ہوتے تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ایڈیسن ایک حیران کن کردار تھا۔
استاد اسے کند ذہن اور شرارتی سمجھتے تھے، جبکہ اسے سلیبس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔اس کا ذہن کلاس فیلوز اور اساتذہ سے بہت آگے تھا۔ لمحہئ فکریہ دیکھیں کہ استاد اس کی حرکتوں اور سوالوں سے تنگ آ گئے اور انہوں نے اسے سکول سے نکال دیا۔ایڈیسن کی والدہ اسے سمجھتی تھی۔اس نے اپنے بیٹے کو خود پڑھانا شروع کر دیا۔وہ پندرہ سال کا ہوا تو اس نے ٹرین میں چھابڑی لگانا شروع کر دی۔ٹرین میں اس وقت چھابڑی لگانے کی اجازت نہیں تھی،لیکن وہ روز ریلوے اسٹیشن جاتا اور ریلوے حکام سے چھابڑی کی اجازت مانگتا۔ وہ کئی مہینے بلاناغہ ریلوے اسٹیشن کے چکر لگاتا رہا اور ناکام واپس آتا رہا، یہاں تک کہ ریلوے حکام نے اس کی ”ہٹ دھرمی“کے سامنے شکست مان لی۔وہ ریل میں چھابڑی فروش بن گیا،۔ یہیں سے اس کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا۔ ٹرین کا چار ساڑھے چار گھنٹے کا سفر تھا۔اس نے اس سفر کے دوران اپنا اخبار شروع کر دیا۔ وہ مختلف ریلوے اسٹیشنز سے خبریں اکٹھی کرتا، انہیں ہاتھ سے لکھتا، ان کی پلیٹس بناتا، اس نے ٹرین کے اندر ایک چھوٹا سا چھاپہ خانہ بھی بنا لیاتھا۔یہ اس چھاپہ خانے پر اخبار چھاپتا اور ٹرین میں فروخت کر دیتا۔یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ اس دوران ایڈیسن نے اپنی تجربہ گاہ بھی بنا لی تھی۔ وہ فالتو وقت اس میں تجربے کرتا رہتا تھا۔ ایک دن اس تجربہ گاہ میں دھماکہ ہوا اور آگ لگ گئی۔ اس ناکامی کا نتیجہ بھی پٹائی کی شکل میں نکلا، لیکن وہ مایوس نہیں ہوا۔
وہ چھابڑی فروشی سے فارغ ہوا تو اس نے ٹیلی گراف آفس میں نوکری کر لی۔ان دنوں ایک وقت میں ایک ہی ٹیلی گراف آ سکتا تھی۔ایڈیسن نے تار آفس میں کام کرتے کرتے بیک وقت کئی پیغام بھجوانے اور وصول کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا۔ یہ ایک انقلاب تھا۔ وہ تار آفس سے نکلا تو اس نے نیویارک میں ایک بڑی کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی۔وہ کمپنی سونے کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کا فیصلہ کرتی تھی۔ایڈیسن نے ان کے لیے کیلکولیشن کی ایک جدید مشین بنا دی۔ پھر یہاں سے وہ دنیا کا سب سے بڑا موجد بننا شروع ہو گیا۔اس نے اپنا کارخانہ لگا لیا اور اپنی ایک بڑی تجربہ گاہ بھی بنالی۔اس نے اس تجربہ گاہ میں آٹو میٹک ٹیلی گراف ایجاد کیا اور اس کے لیے ایک ایسا کاغذ (پیرافین پیپر) بنایا جس پر ایک منٹ میں ساڑھے تین ہزار لفظ چھپ سکتے تھے۔
اس نے ٹائپ رائٹر کا سسٹم ٹھیک کیا۔ ٹیلی فون گراہم بیل نے ایجاد کیا تھا لیکن اس کا ریسیور ایڈیسن نے بنایا۔ اس نے فون کی آواز کی کوالٹی بھی بہتر بنائی۔ہم سب ٹیپ ریکارڈ،سی ڈی پلیئر اور آئی پیڈ پر میوزک سنتے ہیں،یہ ٹیکنالوجی گرامو فون سے اسٹارٹ ہوئی تھی اور گرامو فون ایڈیسن نے بنایا تھا۔ہم سب ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں،سینماؤں میں فلم بھی دیکھتے ہیں، ہمارے کمپیوٹرز پر ایل سی ڈی بھی ہوتی ہے،یہ ٹیکنالوجی پروجیکٹر سے اسٹارٹ ہوئی تھی اور یہ پروجیکٹر ایڈیسن نے بنایا تھا۔ ہم ٹی وی اور سینما میں متحرک فلمیں دیکھتے ہیں،فلم کی یہ تکنیک بھی ایڈیسن نے ایجاد کی تھی۔آج پوری دنیا روشن ہے۔آج  یہ روشنی بلب کا عطیہ ہے،یہ بلب بھی ایڈیسن نے ایجاد کیا تھا۔آپ کو یورپ اور امریکہ کے زیادہ تر شہروں میں ٹرام چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے،یہ سڑکوں پر چلنے والی ٹرین کہلاتی ہے۔ یہ ٹرام بھی ایڈیسن نے بنائی تھی۔الیکٹرک سٹریٹ لائٹس بھی ایڈیسن نے نیویارک سٹی میں لگوائی تھیں اور یہ رجحان اس کے بعد پوری دنیا میں پہنچا۔ ہم سب عمارتوں کی تعمیر میں سیمنٹ استعمال کرتے ہیں،یہ سیمنٹ بھی اس کی ایجاد ہے اور سیمنٹ فیکٹری بھی۔ دنیا میں نوٹ گننے کی پہلی مشین بھی ایڈیسن نے بنائی تھی۔ زمین سے لوہا اور دوسری دھاتیں نکالنے کی تکنیک بھی اس کی ایجاد ہے۔
 بلب کی ایجاد کے دوران ایڈیسن نے بیس ہزار ناکام تجربے کیے لیکن وہ مایوس نہیں ہوا۔ اس نے بلب کا فلیمنٹ بنانے کے لیے بانس کی چھ ہزار اقسام پر کام کیا لیکن ہمت نہیں ہاری۔ اس نے بیٹری میں بجلی سٹور کرنے کے لیے دس ہزار سے زیادہ ناکام تجربے کیے لیکن وہ اپنے کام میں مگن رہا۔ ٹیلی گراف ہو،گرامو فون ہو،ٹیلی فون کا ریسیور ہو،پروجیکٹر ہو،سیمنٹ ہو،چمڑا ہو یا پھر فلم ہو، اس نے ہزاروں ناکام تجربے کیے،لیکن مایوس نہیں ہوا اور اس نے بالآخر کامیابی حاصل کر لی۔ وہ کہتا تھا میرے تجربے ناکام نہیں ہوتے، مَیں نے بلب بنانے کے لئے بیس ہزار تجربے کیے۔
 آج کے نوجوانوں کے لیے یہ کتنا بڑا سبق ہے۔ناکامی دراصل کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ مسلسل ناکامی انسان کو جب کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے تو پھر وہ  واقعی کامیاب انسان بن جاتا ہے۔وہ دنیا سے تو چلا جاتا ہے کیونکہ ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے،لیکن اس کی کامیابیاں اسے امر بنا دیتی ہیں۔ سوچو نوجوانو! سوچو…… غور کرو۔  قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو غور و فکر کا حکم دیا ہے۔ کامیاب انسان اور اتنا کامیاب کہ موت آنے کے بعد بھی وہ اپنی بنائی ہوئی چیزوں کی بدولت ابدی زندگی پا لیتا ہے، ایک ایسی زندگی جسے پھر کبھی موت نہیں آتی اور دنیا بھر میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی جگہ اس کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ اس کے کارناموں پر اسے خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا رہتا ہے۔ سوچیں ایڈیسن جب  بیس ہزار طریقوں سے بلب نہیں بنا سکا، اس کے باوجود بھی اس نے ہمت نہیں ہاری۔پھر وہ اپنی 20 ہزار ناکامیوں کے بعد آخر بلب بنانے کے اصل طریقے کے قریب پہنچ گیا۔ ایک لمحے کو سوچیں آئیے چند لمحوں کے لئے ماضی میں چلتے ہیں جب ایڈیسن بلب بنانے میں کامیاب ہو گیا تو اس کی خوشی کا کیا عالم ہو گا۔ ایڈیسن کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش مریخ پر پیدا ہونا تھا۔وہ کہتا تھا،مریخ کا دن زمین کے دن سے چالیس منٹ بڑا ہوتاہے، میں اگر مریخ پر پیدا ہوتا تو چالیس منٹ زیادہ کام کرسکتا تھا۔وہ دن رات کام کرتا تھا اور اس دوران یہ تک بھول جاتا تھا اس نے کھانا کھا لیا ہے یا پھر بھوکا ہے۔ ہم اگر اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تقابل کریں تو اس کی ناکامیوں کی شرح کئی گنا زیادہ ہو گی،لیکن اس نے اپنی ہر ناکامی کو کامیابی کا زینہ بنایا اور وہ اس زینے پر چڑھتا چلا گیا،یہاں تک کہ آج ہم جس طرف دیکھتے ہیں تو  ایڈیسن کو خراجِ عقیدت پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کی اتنی زیادہ کامیابیاں ہیں جن کے سامنے اس کی ناکامیاں آٹے میں نمک کے برابر محسوس ہوں گی۔ایڈیسن نے ہمیں جدید دنیا کی سیکڑوں نعمتیں دیں، لیکن اس کا اصل کمال کامیابی اور ناکامی کا تصور تبدیل کرنا تھا۔ اس نے ثابت کر دیا ایک ان پڑھ، بہرہ اور غریب شخص مسلسل محنت سے پوری دنیا کو حیران کر سکتا ہے، یہ ناکامیوں کو کامیابی میں تبدیل کر سکتا ہے، ایڈیسن نے یہ سب کچھ حقیقت میں کر کے دکھایا۔

تھامس ایڈیسن کا پورا نام تھامس الوا ایڈیسن ہے۔ وہ 1847ء  میں پیدا ہوا اور 1931ء  میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اس سائنس دان کی وجہ سے آج ہم ہر قسم کی مصنوعات ایجاد کر سکتے ہیں۔اس کی ایجاد کردہ چیزوں نے دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدل دیا ہے۔ مثال کے طور پر بلب، مووی کیمرہ، فوٹو گرافی، یہاں تک کہ الیکٹرک گاڑیاں سب اس سائنسدان نے تیار کیں۔ آپ کو وہ وقت مد ِنظر رکھنا ہوگا جس میں اس قدر ترقی کی گئی۔ یہ انیسویں صدی کے وسط اور آخر کی  بات ہو رہی ہے۔ سائنسی پیشرفتوں کی کھوج کو دیکھ کر، اسے اپنے زمانے سے بالکل پہلے ہی سمجھا جاتا تھا۔یہ کوششیں صنعتی انقلاب کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لئے ضروری تھیں۔ اس کے علاوہ ایڈیسن لاکھوں لوگوں کی فلاح و بہبود اور رہائش میں ڈرامائی طور پر بہتری لایا۔ تھامس ایڈیسن کی کامیابیوں  نے ہی جدید انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے دروازے کھول دیئے۔ آج اس کی شخصیت بہت مشہور ہے، کیونکہ اس کے پاس ایک ہزار سے زیادہ پیٹنٹ ہیں۔ ان میں سے کچھ معاشرے میں پہلے اور بعد میں نشان زد کریں گے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ایسا وقار والا شخص دوسرے لوگوں میں تنازعہ پیدا کرسکتا ہے جو اپنی بیشتر ایجادات سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ تھامس ایڈیسن کے اپنے زمانے کے ایک اور بڑے ذہن سے مختلف تنازعات تھے اور وہ تھا نکولا تیسلا۔
تھامس الوا ایڈیسن 11 فروری 1847ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہر اوہائیو کے ایک چھوٹے سے قصبے میلان میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ 7  سال کی عمر میں اس نے پہلی بار سکول میں تعلیم حاصل کی، لیکن یہ صرف 3 ماہ تک جاری رہی۔ یہ اس وجہ سے تھی کہ سکول کے پرنسپل اور اساتذہ نے اس کو برخاست کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ وہ اس کو قطعی طور پر تعلیم سے عدم دلچسپی اور بہت بڑا دانشورانہ اناڑی پن سمجھتے تھے۔  اپنی انہی  خصوصیات کی وجہ سے وہ اپنے اساتذہ کی نظروں میں سکول کے لئے نا مناسب سمجھا جاتا تھا۔خوش قسمتی سے اس کی والدہ ماضی میں  ٹیچر رہی تھی،  اس  نے اپنے بیٹے کی تعلیمی ذمہ داری سنبھال لی۔  انہوں نہ صرف یہ کہ اپنے بیٹے کو فکری طور پر تیار کیا بلکہ وہ اس میں اس لامحدود تجسس کو بیدار کرنے میں بھی کامیاب رہیں جس کی مدد سے وہ تاریخ کی اہم ترین شخصیات میں شامل ہوا۔ جب وہ صرف دس سال کا تھا تو اس نے اپنے مکان کے تہہ خانے میں ایک چھوٹی سی لیبارٹری لگائی۔ اس قسم کی لیبارٹری جس میں آپ کیمسٹری اور بجلی کے شعبے میں مختلف چیزوں کے ساتھ تجربہ کرسکتے ہیں۔ بعد میں اسے معلوم ہوا کہ یہی اس کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا محور ہے۔ وہ 16 سال کی عمر تک تجربات کرتا رہا۔اس نے اپنی والدہ کا گھرانہ اپنی مرضی سے چھوڑ دیا اور ملک کے دیگر حصوں میں ملازمت کے حصول کے لیے گھومنے پھرنے لگا  جس سے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو  جلا ملی۔
ٹیلیگراف آفس میں اس نے خوب عبور حاصل کیا۔ اس نے کئی سال سفر اور مختلف ملازمتوں میں گزار دیئے۔اسے ملازمت کی تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ ایڈیسن نے 21 سال کی عمر میں بوسٹن میں سکونت اختیار کرلی۔ یہیں سے اس کے تجربات  آگے بڑھنا شروع ہوئے۔اس دور میں ایک اور سائنسدان تھا مائیکل فارادے جو ایک برطانوی طبیعیات دان تھا۔ اس نے اپنی پوری زندگی مطالعہ کے لئے وقف کردی تھی۔ اس نے برقی مقناطیسی اور الیکٹرو کیمسٹری میں بہت زیادہ کام کیا اور کچھ سال قبل ہی ان کا انتقال ہوا تھا۔
مائیکل فراڈے کے کام نے تھامس ایڈیسن کو اپنی تحقیق جاری رکھنے کی تحریک دی۔ پہلا پیٹنٹ اسی سال ایجاد کیا۔ اس نے کانگریس کے لئے الیکٹرک ووٹ کاؤ نٹر مشین بنائی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ ایک پُرتجسس ایجاد تھی، اس کے باوجود اس  نے اسے کارآمد سمجھا۔ یہاں سے، تھامس ایڈیسن نے اپنی کوششوں کی بناء  پر انسانوں کی کچھ ضروریات کا جواب دینا تھا۔ ایک بار پھر  وہ 1869ء  میں نیو یارک چلے گئے۔ اس وقت ریاست ہائے متحدہ میں سب سے بڑی ٹیلیگراف کمپنی، ویسٹرن یونین نے اسے پرنٹر حاصل کرنے کے لئے ایک ایسا راستہ تلاش کرنے کے لئے کمیشن سونپ دیا جو سیکیورٹیز کی فہرست کی عکاسی کر سکے۔ سٹاک مارکیٹ سے چونکہ تھامس ایڈیسن  بہت متاثر ہوا تھا، لہٰذا اس ریکارڈ وقت میں  ایڈیسن اپنے سپرد کردہ پروجیکٹ کو  تیار کرنے میں کامیاب رہا جس پر کمپنی نے اسے بہت بڑی رقم دی۔ اس وجہ سے اسے اپنی ایجادات جاری رکھنے اور شادی کرنے میں مدد ملی۔ اب اس  نے ایک تجربہ گاہ میں سکونت اختیار کر لی۔
 ٹیلی مواصلات کا شعبہ ایڈیسن کی ایجادات کی بدولت دور دور تک معلومات منتقل کرنے کے قابل ہوا۔ ٹیلی گراف یا، ٹیلیفون اور دیگر دریافتوں کی بہتری نے بعد کے سائنسدانوں کے لئے مزید ترقی دینے کی راہ ہموار کردی۔ اگرچہ اس نے بیٹریاں ایجاد نہیں کیں، لیکن اس نے یہ کمال کیا کہ بیٹریوں اور ان کے خلیوں کی کارکردگی میں اضافہ کر کے انہیں مزید بہتر بنادیا۔ اس کی بدولت، آج ہمارے پاس ایسے آلات موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ طویل عرصے تک چلتی ہیں۔ اس کے علاوہ، اس نے ان کے مادوں کے ڈھانچے میں تبدیلی کرکے ہر ایک کے لئے معاشی طور پر قابل ِرسائی بنا دیا تاکہ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے بلب کو جنم دیا جاسکے۔ اس کا خواب بجلی پیدا کرنا اور اسے پوری دنیا تک پہنچانا تھا۔اس  دور میں یہ ایک انقلابی خیال تھا جو آج  حقیقت بن چکا ہے۔
 وہ فلمی کیمرہ بنانا چاہتا تھا، اس نے اس کا نام کینیٹوسکوپ رکھا تھا، آج یہ بھی حقیقت بن چکا ہے۔ وہ آواز کو ریکارڈ کرنے کا خواہشمند تھا، یہ بھی آج حقیقت بن چکی ہے۔ اس نے جو کچھ سوچا، اسے حقیقت کا روپ دے دیا۔،ایڈیسن انقلابی سوچ نہیں، بلکہ انقلابی سوچوں کا مالک مافوق الفطرت انسان تھا جس نے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ کند ذہن کوئی نہیں ہوتا۔  ہر وہ شخص جو سانس لے سکے، وہ انقلابی سوچوں کا حامل ہوتا ہے اور انقلابی سوچ رکھنے والا اپنی ہر سوچ  کو حقیقت میں تبدیل کر سکتا ہے۔ مسلمان اس وقت تک دنیا پر حکومت کرتے رہے جب تک وہ علم و آگہی سے وابستہ رہے۔ مختلف کتب کا مطالعہ انسان کو آگے بڑھنے اور اس کی سوچوں کو وسعتیں دینے کا باعث بنتا ہے، لیکن آج کا نوجوان دانستہ پستی کی گہرائیوں میں گر رہا ہے، اسے اپنی قدر و منزلت کو پہچاننا ہو گا، کیونکہ وہ اقبالؒ  کا شاہین ہے جس کی منزل پہاڑوں کی چٹانوں میں ہے اور اس کے سامنے بہت سے آسمان بھی ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو،اپنی قابلیت، اپنی مخفی صلاحیتوں کو پہچانیں اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے ایسا تاریخ ساز کردار ادا کریں کہ دنیا ان کی مثالیں دے۔ 

final

مزید :

ایڈیشن 1 -