نظرثانی کی درخواست میں داد رسی کا دائر ہ محدود ہوتا ہے 

نظرثانی کی درخواست میں داد رسی کا دائر ہ محدود ہوتا ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:سعید چودھری
وفاقی حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کردی ہے، حکومت  نے نظرثانی کی درخواست کی سماعت کے لئے لارجر بنچ تشکیل دینے کی استدعا بھی کی ہے،حکومت نے یہ استدعا بھی کی ہے کہ اس کیس کی سماعت بند کمرے میں کی جائے۔ عام طور پر نظرثانی کی درخواستوں کے منظور ہونے کے امکانات کس حد تک ہوتے ہیں؟کیا نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے لئے لارجر بنچ تشکیل دیا جاسکتاہے؟عدالتی روایات کیاہیں؟
سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ،مسٹر جسٹس مظہرعالم خان میاں خیل اور مسٹر جسٹس سید منصورعلی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے 28نومبر کو جنرل قمر جاوید باجواہ کو مشروط طور پرچیف آف آرمی سٹاف کے طور پر کام کرنے کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی کے لئے 6ماہ کی مہلت دی تھی،عدالت نے قراردے رکھاہے کہ اس بابت قانون سازی نہ ہونے کی صورت میں جنرل قمر جاوید باجواہ 29نومبر 2019ء سے ریٹائرڈ تصور کئے جائیں گے۔اب اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی ہے،عام طور پر تاثر ہے کہ نظر ثانی کی درخواست کی سماعت وہی بنچ کرے گاجس کے فیصلے کے خلاف یہ درخواست دائر کی گئی ہو،ماضی میں سپریم کورٹ کی روایت رہی ہے کہ نظر ثانی کی درخواست کی سماعت نہ صرف وہی بنچ کرتاہے جس نے ابتدائی طور پر فیصلہ دیاہوتاہے بلکہ فریقین کے وکلاء بھی وہی ہوتے ہیں،عام طور پر نظر ثانی کی درخواست کا سکوپ بہت محدود ہے،کیوں کہ نظر ثانی کی درخواست میں کوئی نئی گراؤنڈ نہیں لی جاسکتی،نظرثانی کی درخواست میں انہی نکات میں کسی بڑے قانونی سقم کی نشاندہی کی جاتی ہے جو بنیادی عدالتی فیصلے میں زیرغورآئے ہوتے ہیں،ذوالفقارعلی بھٹو کی محمد احمد خان قصوری قتل کیس میں اپیل سپریم کورٹ کے 7رکنی بنچ نے اکثریت رائے سے مستردکردی تھی،سپریم کورٹ کے 7میں سے 4ججوں نے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے انہیں سنائی جانے والی سزائے موت کا فیصلہ برقراررکھا تھاجبکہ 3ججوں نے اس سے اختلاف کیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے اس کے خلاف جو نظر ثانی کی درخواست دائر کی اسے بنچ کے ساتوں جج صاحبان نے متفقہ طورپرمسترد کردیاتھا،
عمومی تاثر ہے کہ وہی بنچ نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کرے گاجس نے ابتدائی طورپر فیصلہ دیاہو،نظرثانی کی درخواست کی سیم بنچ میں سماعت ایک روایت ضرورہے لیکن کوئی قانون یا رول نہیں ہے، 2015ء میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس جوادایس خواجہ،مسٹر جسٹس دوست محمدخان اور مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل بنچ نے تلور کے شکار پر پابندی کا حکم جاری کیا تھا،جس کے خلاف حکومت نے نظر ثانی کی درخواست دائر کی،اس وقت تک مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ ریٹائر ہوچکے تھے، نئے چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار،مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید اور مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی فل بنچ اس نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے لئے تشکیل دیا،حالانکہ اس وقت جسٹس دوست محمد خان بھی موجود تھے تاہم انہیں بنچ میں شامل نہیں کیا گیا، بعدمیں بنچ نے اس کیس کی سماعت کے لئے لارجر بنچ تشکیل دینے کی سفارش کی جس پرچیف جسٹس نے پانچ رکنی لارجر بنچ قائم کردیا،یہ بنچ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی،مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار، مسٹر جسٹس اقبال حمید الرحمن، مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال اور مسٹر جسٹس قائی فائز عیسیٰ پر مشتمل تھا،2016ء میں اس فل بنچ نے کثرت رائے سے تلور کے شکار پر پابندی کا پہلا فیصلہ کالعدم کردیا،مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا، اس سے پہلے جب 3رکنی بنچ نے لارجر بنچ تشکیل دینے کی سفارش کی تو بھی مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس سفارش کی مخالفت کی تھی،اس عدالتی نظیر کا مطلب ہے کہ نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے لئے لارجر بنچ تشکیل دیاجاسکتا ہے تاہم تلوروالے کیس میں ایک اہم قانونی نکتہ موجود ہے کہ پانچ رکنی لارجر بنچ،3رکنی بنچ کی سفارش پر تشکیل دیاگیاتھا، چیف آف آرمی سٹاف کی ملازمت میں توسیع کے کیس میں نظر ثانی کی درخواست ابھی دائر ہوئی ہے،اس کیس کا فیصلہ کرنے والے بنچ کے سربراہ آصف سعید خان کھوسہ بھی ریٹائرہوچکے ہیں،نظرثانی کی درخواست کی سماعت کے لئے مقدمہ کی نوعیت اور اہمیت کے پیش نظر لارجر بنچ بنانے پرکوئی قانونی قدغن نہیں،فیصلہ جاری کرنے والا بنچ ہی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرے گایہ محض ایک عدالتی روایت ہے اور سپریم کورٹ تلورکے شکار والے کیس میں اس روایت کے برعکس اقدام کرچکی ہے،اب یہ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس گلزاراحمد پر منحصرہے کہ وہ کیسا بنچ تشکیل دیتے ہیں،یہ بات بھی خارج ازامکان نہیں کہ ابتدائی طورپر تین رکنی بنچ ہی تشکیل دیاجائے جس میں مسٹر جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اورمسٹر جسٹس سیدمنصور علی شاہ کو بھی شامل کیاجائے اورپھر تین رکنی بنچ لارجر بنچ بنانے کی سفارش کردے،جیسا کہ تلور کے شکار والے کیس میں ہواتھا۔
تجزیہ:سعید چودھری

مزید :

تجزیہ -