ہمارا آنے والا کل

  ہمارا آنے والا کل
  ہمارا آنے والا کل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ دنوں وزیرستان میں ایک پاکستانی چوکی پر دہشت گردوں کی طرف سے حملے کے دوران پاک فوج کے  16اہلکار شہید کر دیئے گئے اور 5زخمی ہیں۔ یہ ایک بڑا نقصان ہے۔ حملہ آور (TTP) کے وہ لوگ تھے جنہوں نے افغانستان کی سرزمین استعمال کی۔ کوئی ملک جب اپنی سرزمین کسی حملہ آور گروہ کو دوسرے ملک پر حملے کے لئے دے دیتا ہے تو وہ مانے یا نہ مانے، حملہ آور ہی کی ذیل میں شمار کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کو مشرق و مغرب سے حملہ آوروں کا خطرہ لاحق ہے۔ مشرق کا خطرہ فی الحال خوابیدہ سمجھا جا رہا ہے لیکن مغرب کا خطرہ جاگ رہا ہے۔ مشرق کے خوابیدہ حملہ آور نے مغرب کے جاگتے حملہ آور کی مدد کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اب پاکستان کا دشمن افغانستان ہے اور بالکل اسی طرح کا دشمن ہے جس طرح کا  1970ء میں ہمارے مشرقی  حصے کا تھا جواب بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔

پاکستان نے وزیرستان پر حملہ آور ہونے والوں کے ٹھکانوں کا سراغ تو ایک عرصے سے لگایا ہوا ہے۔ حملہ آور ہماری مغربی سرحد (وزیرستان) سے ملحق افغان علاقوں میں موجود ہیں۔ ان افغان صوبوں کے نام پاکتیا اور پکتیکا وغیرہ ہیں۔ پکتیکا میں حملہ آوروں کی تربیت گاہیں موجود ہیں اور کون نہیں جانتا کہ ان کو ٹریننگ دینے کے ذمہ دار کون ہیں، ان کو اسلحہ بارود کون دے رہا ہے اور ان کی انٹیلی جنس کے حصول کے ذرائع کون کون سے ہیں۔پاک افغانستان سرحد کا یہ علاقہ ایک طویل عرصے سے پاکستان دشمنی کی آماجگاہ ہے اوریہ دشمنانہ صورتِ حال ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ اب کچھ عرصے سے اس دشمنی میں اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کا ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ اس دشمنی کی وجوہات کیا ہیں۔ ان کو زیرِ تبصرہ لانے کا مطلب تحصیلِ لا حاصل کے سوا اور کچھ نہیں۔

پاکستان نے اپنے حالیہ شہیدوں کا بدلہ لینے کے لئے پکتیکا کے دشمن ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان فضائی حملوں کا جواب کیا آتا ہے۔ 

افغانستان، اب پاکستان کا اُسی طرح کا حریف بن چکا ہے جس طرح کا انڈیا ہے۔ یہ درست ہے کہ افغانستان دس برس تک روس کا مقابلہ کرتا رہا اور پھر بیس برس تک امریکہ (اور ساری ناٹو)سے بھی نبردآزما رہا۔ لیکن یہ نبردآزمائی ایک طرح سے انمل بے جوڑ والا معاملہ تھی۔ روس اور امریکہ دونوں عالمی طاقتیں تھیں (اور ہیں) لیکن انہوں نے ایک غریب، نادار اور نہتی قوم کا کیابگاڑ لیا؟افغانستان اگر یہ دعویٰ کرے کہ اس نے دنیا کی سپرطاقتوں کو اپنے ہاں سے بھگایا تھا تو آج کا پاکستان اس کا کیا بگاڑ لے گا تو اس کی یہ سوچ بے جا نہ ہوگی…… سوال یہ ہے کہ افغان سپرطاقتوں کے حملوں کو برداشت کرنے کے عادی بن چکے ہیں اور اس تناظر میں اگر پاک فضائیہ پکتیکا صوبے پر فضائی حملے کرتی ہے تو اس کا کتنا نقصان کر سکے گی؟…… کیا اس افغان طرزِ فکر کا اندازہ پاک آرمی کو نہیں؟……

پاک آرمی کو آج سب سے بڑا مسئلہ جودرپیش ہے وہ اپنی اندرونی سیاسی صورت حال کی اس کشمکش کا مسئلہ ہے جو آئے روز بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان  نے آج تک جتنی بھی جنگیں بھارت سے لڑی ہیں، ان میں پاکستانی عوام کی بھرپور تائید اور حمایت اسے حاصل تھی۔ لیکن آج یہ تائید اور یہ حمائت اندرونی سیاسی محاذ آرائی کی نذر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔پاکستان دو محاذوں پر بیک وقت نہیں لڑ سکتا ہے۔ اسے خواہی نخواہی اندرونی محاذ کو ”ٹھنڈا“ کرنا ہوگا تاکہ بیرونی ”گرم“ محاذ کا مقابلہ کر سکے۔ یہ اگرچہ ایک تلخ گھونٹ ہوگا لیکن پاک آرمی کو اس گھونٹ کو نگلنے کی طرف جانا پڑے گا۔اس بحث کو فی الحال طاقِ نسیاں پر رکھنا ہوگا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پرست ہے۔ یہ حق و باطل کی بحث ہوتی رہے گی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم پاک افواج کو وہی ثابت قدمی عطا کرے جو موجودہ اندرونی خلفشار سے پہلے تھی۔

پاکستان نے افغانستان پر جو فضائی حملہ کیا ہے اس کا جواب افغانستان کے علاقوں میں بیٹھے TTP دہشت گرد یا ان کے حمائتی نہیں دے سکتے۔ یہ حمائتی خواہ کابل میں بیٹھے ہوں یا دہلی سے آئے ہوں۔ ان حمائتیوں کو معلوم ہے کہ اس محدود جنگ کو فی الحال محدود رکھنے ہی میں ان کا فائدہ ہے…… انڈیا، پاکستان کے ساتھ اپنی چار میں سے تین جنگوں میں ”اٹریشن“ کا ڈاکٹرین استعمال کر چکا  ہے……1971ء کی جنگ البتہ اس اٹریشن والے ڈاکٹرین سے باہر تھی…… اب انڈیا، افغانستان سے مل کر وہی ”اٹریشن“ والا ڈاکٹرین دہرانا چاہتا ہے…… پکتیکا اور وزیرستان سے ملحق دوسرے افغان صوبوں سے جو دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں، یہ اُسی ’اٹریشن‘ والے ڈاکٹرین کی صدائے بازگشت ہیں۔ 1971ء میں انڈیا نے مکتی باہنی کو استعمال کیا تھا۔ معلوم ہو رہا ہے اب اس کی مکتی باہنی وہ TTPہے جو پاکستان کی مغربی سرحدوں کے پار بیٹھی ہے اور جس نے حالیہ ایام میں 16پاکستانی جوانوں کو شہید کر دیا ہے اور اس سے پہلے بھی کئی پاکستانی شہداء کا خون بہا چکی ہے۔

القصہ، اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟…… کیا TTP کے دہشت گرد حملہ آوروں کے ٹھکانوں پر بمباری کا عمل جاری رکھنا چاہیے؟…… کیا اس سے پاکستان پر افغانستان کی طرف سے دہشت گردانہ حملے بند ہو جائیں گے؟……

ان دونوں سوالوں کا جواب بڑا سادہ ہے اور پاکستان آرمی کی الیٹ (Elite)کو اس کا بخوبی اندازہ ہے۔ پاکستان دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا۔ اسے ایک محاذ کو معطل کرنا پڑے گا۔ معطلی کا یہ عمل جتنی جلد ممکن ہو، اپنا لیا جائے خواہ اس کی کتنی ہی قیمت ادا کرنا پڑے۔ پاکستان آرمی اپنی اَنا کے خول میں بند ہو کر اپنا ”دوطرفہ“ نقصان کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس کا فیصلہ صرف ایک شخصیت کے ہاتھ میں ہے  اور وہ شخصیت آرمی چیف کہلاتی ہے۔ یہ آرمی، ایک طویل عرصے سے ناپ تول کے پیمانوں کی خوگر ہے۔ اس لئے آرمی کو اندیشہ ہائے دور و دراز میں گرفتار نہیں ہونا چاہیے۔میرا اندازہ ہے کہ اگر آج دہشت گردوں کو انڈیا کی حمائت حاصل ہے تو کل کلاں دوسری اقوام بھی اس حمائت میں شامل ہو سکتی ہیں۔ یہ ”اقوام“ کون سی ہیں، ان کا نام بھی نوشتہء دیوار بن کر سامنے آ رہا ہے۔ اندرونی محاذ پر پابندیاں لگاکر فوج نے دیکھ لیا ہے کہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ الٹا نقصان ہوا ہے۔ ہر قوم، ہر ادارے اور ہر تنظیم کی زندگی کی ایک مدت ہوتی ہے۔ تمام اقوام کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ کسی بے وقوف کو سمجھانا، اگر دانش مندی ہے تو کسی دانشمند کو سمجھانا ایک بے وقوفی ہے۔لہٰذا فوج کو سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہر طرح کے نشیب و فراز سے گزر چکی ہے۔ اس موضوع پر تقریباً تمام کالم نگاروں نے جان بوجھ کر چپ سادھ رکھی ہے۔ خدارا اس ”چپ“ کے پردے میں پوشیدہ ”بلند آہنگی“ کو مزید طویل نہ بنائیں۔

آج کی دنیا پر نظر ڈالیں اور آنے والے کل کی دنیا کو تلاش کریں۔ آج کی اقوام کی زندگی کل کی اقوام کی زندگی سے یکسر مختلف ہوگی کہ یہی تقدیرِ روزگار ہے۔ اقبال نے کہا تھا:

زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اختیار

رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار

اس زیاں خانے میں کوئی ملتِ گردوں وقار

رہ نہیں سکتی ابد تک بارِ دوشِ روزگار

گزرے ہوئے کل میں مسلم قوم گردوں وقار تھی۔ آج کا پاکستان اسی قوم کا نام لیوا ہے۔ پاکستان کی امروزہ تقدیر، خدا کے بعد، جس بندے کے ہاتھ میں ہے اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ:

ہے نگینِ دہر کی زینت ہمیشہ نامِ نو

مادرِ گیتی رہی آبستنِ اقوامِ نو

ہماری دنیا اگر ایسی ماں ہے جو آنے والے اقوام سے حاملہ (آبستن) رہتی ہے تو ہمیں فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔ آج کا ہمارا پست، آنے والے ہمارے کل کا بلند ہو سکتا ہے۔ اور اگر اقوامِ عالم کی پستی اور بلندی کا یہی فارمولا ہے تو کیا ضرور ہے کہ ہم اپنی آج کی پستی سے چمٹے رہیں!

مزید :

رائے -کالم -