فائلیں اور پلاٹ: جناب وزیر خزانہ توجہ فرمائیں!

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حال ہی میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف سی سی آئی) میں تیسری آل پاکستان چیمبرز پریذیڈنٹس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ یعنی حکومت پلاٹوں اور فائلوں کے کاروبار کی حمایت نہیں کرے گی، یہ پائیدار عمل نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نے بالکل درست فرمایا، حکومت کو پلاٹوں اور فائلوں کے کاروبار کی بالکل حمایت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ واقعی کوئی مناسب کاروبار نہیں ہے، لیکن بہتر ہوتا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ فائلوں اور پلاٹوں کے کاروبار کو سرکاری طور پر غیر قانونی قرار دیتے، اور اس پر مکمل طور پر بندی عائد کر دی جاتی تاکہ غریب عوام ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ہاتھوں ہونے والے مسلسل استحصال سے بچ جاتے۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو تو کھلی چھوٹ ہو کہ وہ عوام کو ان پلاٹوں کی فائلیں بیچتے رہیں اور دولت اکٹھی کر کے عیاشیاں کرتے رہیں جو ابھی زمین پر موجود ہی نہیں ہیں جبکہ عوام کا کوئی پُرسان حال نہ ہو، الٹا انہیں دھمکایا جائے۔ ضروری ہے کہ حکومت ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ صرف وہی اور صرف اتنے ہی پلاٹ یا ان کی فائلیں فروخت کریں جتنی جگہ ان کے پاس موجود ہو، اور جتنی پلاٹنگ کی جا چکی ہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ہاتھوں عوام کے لُٹنے کا سلسلہ بند نہ ہو۔ کوئی تو ہو گا جو ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو زمینی طور پر موجود جگہ یا ان پر بنے پلاٹوں سے زیادہ، بلکہ کئی گنا زیادہ فائلیں بیچنے کی اور دولت اکٹھی کرنے کی اجازت دیتا ہو گا۔ کوئی ادارہ؟ کوئی افسر کوئی باڈی؟ کوئی اتھارٹی؟ کوئی تو ہو گا؟ کیا ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں زمینی طور پر موجود پلاٹوں سے زیادہ فائلوں کی فروخت کی اجازت دینے والے حکام بالا کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟
یاد رہے کہ پلاٹس اینڈ فائلز کے کاروبار سے مراد رئیل اسٹیٹ کا وہ رواج ہے، جو بنیادی طور پر پاکستان میں رائج ہے، جہاں افراد پلاٹ فائلیں خریدتے اور فروخت کرتے ہیں، جو بنیادی طور پر ایسی دستاویزات ہیں جو حقیقی پلاٹ کے بجائے ترقی پذیر ہاؤسنگ سوسائٹی کے اندر مستقبل کی زمین کے ٹکڑے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک فائل خریدتے ہیں جو آپ کو زمین کی ترقی اور بیلٹنگ کے عمل کے ذریعے مختص کرنے کے بعد پلاٹ کا حق دیتا ہے، جس سے پلاٹ حقیقی طور پر دستیاب ہونے سے پہلے فائل کو زیادہ قیمت پر فروخت کر کے ممکنہ منافع حاصل ہوتا ہے۔
میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متاثرین کے Behalf پر یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں کہ گھر بنانے کی خاطر یا فائلوں کو آگے بیچ کر منافع کمانے کے سلسلے میں انہوں نے فائلیں خریدنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ غلط تھا، اور وہ ان کی غلطی تھی، لیکن وہ کوئی تھوڑا سرمایہ نہیں ہے کہ جسے نظر انداز کر دیا جائے، یہ اربوں بلکہ کھربوں روپے کی گیم ہے۔ یہ سارا سرمایہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے زوال پذیر ہونے کی وجہ سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اکاؤنٹس میں ڈمپ ہو چکا ہے۔ نہ تو خریداروں کو ترقیاتی کاموں والا پلاٹ مل رہا ہے کہ وہ وہاں پر اپنا مکان بنا کر سر چھپا سکیں، اور نہ ہی قسطوں کی صورت میں ادا کی گئی ان کی رقوم انہیں واپس ملتی ہیں۔ میں نے اس سے پہلے بھی ایک دو بار این ایف سی فیز ٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کا حوالہ دیا تھا جہاں پوری قسطیں وصول کرنے کے باوجود نہ تو ترقیاتی کام کرائے جا رہے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو قسطوں کی صورت میں ادا کی گئی ان کی رقوم کے عوض کوئی پلاٹ ہی مل پا رہا ہے۔ پتا نہیں ایسی اور کتنی سوسائٹیاں ہوں گی جن میں پلاٹ خریدنے والے آج پچھتا رہے ہیں اور پلاٹ کے حصول کے لیے رُل رہے ہیں‘ لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں حکومت ان کی آواز بننا چاہیے تاکہ وہ لُٹنے، زندگی بھر کی کمائی سے محروم ہونے اور مکمل تباہ ہونے سے بچ جائیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان ان کروڑوں روپوں پر حاصل ہونے والے منافع سے خود تو عیاشیاں کر رہے ہیں جبکہ وہاں پلاٹ خریدنے والوں کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ مکمل طور پر برباد ہو چکے ہیں۔ حکومت ایک بار ان کا یہ پیسہ باہر نکلوانے کے لیے اقدام کرے تو یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ یہ رقوم پھر کاروبار میں استعمال ہوں گی جس کے نتیجے میں ملک کا معاشی پہیہ ایک بار پھر تیزی سے گھومنے لگے گا۔ لوگوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں دبے ہوئے ان کے پیسے واپس مل جائیں تو اس کے بعد نہ صرف فائل سسٹم بلکہ بے زمین پلاٹوں کی فائلوں کی فروخت پر بھی مکمل پابندی عائد کر دینی چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور ان کے مالکان کو کڑی سزائیں ملنی چاہئیں۔
وفاقی وزیر خزانہ کا یہ کہنا بہت حوصلہ افزا ہے کہ ہم سب تعمیراتی صنعت کے ساتھ ہیں، لیکن ہمیں رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ریٹیل، ہول سیل، رئیل اسٹیٹ، تعمیرات اور زراعت کے شعبوں کو ٹیکس نظام میں اپنا حصہ شامل چاہیے۔ بالکل ملنا چاہیے لیکن ایسا تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب لوگوں کے ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ڈوبے ہوئے پیسے انہیں واپس ملیں گے۔ صرف اسی صورت میں ریٹیل، ہول سیل، رئیل اسٹیٹ، تعمیرات اور زراعت کے شعبے ٹیکس نظام میں اپنا حصہ شامل کرنے کے قابل ہو سکیں گے جب لوگوں کا ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ڈمپ شدہ پیسہ انہیں واپس ملے گا اور اس کے نتیجے میں کاروبار کو وسعت اور تیزی ملے گی۔
میں نے پہلے بھی اپنے کسی کالم میں لکھا تھا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متاثرین کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھنا چاہیے اس طرح تو قیامت تک انہیں پیسہ ملے گا نہ پلاٹ، ہاں قیامت کے بعد یہ فیصلہ ضرور ہو گا کہ کس نے کس کا استحصال کیا اور کتنا۔ میرے خیال میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متاثرین کو اپنی انجمن بنانی چاہیے۔ ہر سوسائٹنی کے متاثرین کی الگ انجن ہونی چاہیے اور پھر تمام انجمنوں کا آپس میں اتحاد ہونا چاہیے اور سب کو مشترکہ اور متحدہ طور پر نہ صرف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مین آفسز کے سامنے پُرامن احتجاجی مظاہرے کرنے چاہئیں بلکہ عدالت سے بھی رجوع کرنا چاہیے۔ متاثرین خود ہلیں گے سرگرمی دکھائیں گے تو ہی متعلقہ محکمے اور ان کے افسران متحرک ہوں گے ورنہ تو جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔