پنجاب میں پنجابی کا مستقبل؟

    پنجاب میں پنجابی کا مستقبل؟
    پنجاب میں پنجابی کا مستقبل؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند دن پہلے کی بات ہے ، ہم اوکاڑہ شہر سے ملحقہ لوئر باری دو آبہ نہر کے  خوبصورت  کنارے  اور پر فضا  ماحول میں  ، گرما گرم  دودھ پتی کی چسکیاں لیتے ہوئے پیر مہر علی شاہ  کے پنجابی  نعتیہ کلام سے   محظوظ ہو  رہے تھے،پولیس کے ایک سب انسپکٹر نے  جب  بڑی سریلی آواز میں یہ شعر  پڑھا تو ہم سب جھوم اٹھے:

اس صورت نوں میں جان آکھاں 

  جانان  کہ  جان جہان آکھاں 

سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں 

جس شان توں شاناں سب بنیاں 

چھوٹے بھائیوں کی طرح پیارے،ڈسٹرکٹ پولیس افسر اوکاڑہ میاں راشد ہدایت  اور عزیز از جان پیارے  دوست ایس ایس پی ایلیٹ فورس اسد الرحمنٰ ضلع اوکاڑہ  میں پولیس کا نسٹیبلز کی بھرتی کے عمل کی نگرانی کر رہے تھے، نہر کنارے سڑک پر کانسٹیبلز کی پوسٹوں کیلئے امیدواروں کی دوڑ کا عمل جاری تھا جبکہ وقفے کے دوران پنجابی نعتیں ہماری روحانی تازگی کا باعث بنتیں، مجھے موجودہ پنجاب حکومت کے اکثر کاموں اور پولیس کے رویے نے بارہا مایوس کیا ہے مگر اس روز مجھے دونوں معاملات میں بیک فٹ پر جانا پڑا،میرا یہ خیال تھا کہ بھرتی کے اس عمل میں سیاسی دباؤ اور سفارش کا مکمل  دخل ہوگا مگر یہ عمل حیرت کی حد تک شفاف نکلا،دوڑ اور جسمانی فٹنس میں کسی امیدوار کو ایک انچ کی رعایت تھی نہ اس کے ساتھ کسی زیادتی کا تاثر،دوسری بات ڈی پی او اوکاڑہ راشد ہدایت کا کنڈکٹ بڑا ہی مثالی تھا،ان کا اپنے ماتحتوں اور امتحان کے امیدواروں کے ساتھ رویہ ایک شفیق باپ کی مانند تھا مگر  پولیسنگ  کے معاملے میں وہ میرٹ اور ضابطے پر چلنے والے سخت گیر افسر نظر آئے، بحیثیت ایک انسان  وہ  رحمدل،ملنسار  اور عشق مصطفیؐ سے بھر پور پائے گئے،فنا فی اللہ،فنافی الرسولؐ،مسئلہ وحدت الوجود کے متعلق وہ ایک عالم کی طرح جانتے تھے تو دوسری طرف امام احمد رضا ،بابا فرید،بلھے شاہ،میاں محمد بخش اور خواجہ فرید کی نعتیں اور کافیاں بھی انہیں از بر تھیں،وہ پنجابی زبان و بیان کے ماہر معلوم ہو رہے تھے۔   

اوکاڑہ سے واپسی پر میں سوچتا رہا کہ اپنی  ماں بولی کے ساتھ پنجاب کی اب تک کی تمام حکومتوں اور ہم نے خود کیا کیا؟ جب ہم نے نصف صدی قبل  سکول جانا شروع کیا تھا،دیہاتی ماحول کے گھر، گلی محلہ،بازار میں روانی سے پنجابی بولتے ،مسجد کے مولوی صاحب سے قران پاک سیکھنے کیلئے قرانی قاعدہ پڑھتے جو عربی میں تھا مگر سکول میں ہمیں اردو میں تعلیم دی جاتی،دعویٰ کیا جاتا اردو ہماری قومی زبان ہے،اس کا نتیجہ یہ نکلا کی ہم پنجابی لہجے میں اردو بولنے لگے جسے گلابی اردو کہا جاتااس میں کبھی کبھی عربی کا تڑکہ بھی لگا دیتے، ہائی سکول میں پہنچے تو ہمیں انگریزی بھی پڑہائی  جانے لگی۔

اردو کو دفتری زبان بنانے کی تحریک چلی،سپریم کورٹ نے بھی اردو کو دفتری زبان بنا کر سرکاری زبان کا درجہ دینے کا حکم صادر کیا،مگر دفتری زبان ہی نہیں عدالتی زبان بھی انگریزی ہی رہی، صورتحال نہیں بدلی بلکہ پہلے سے زیادہ سنگین صورت اختیار کر چکی ہے،انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے مزید بگاڑ پیدا کر دیا ہے،معصوم بچے جب سکول جانے لگتے ہیں تو انہیں عجیب صورتحال کاسامنا کرنا پڑتا ہے،مادری زبان پنجابی ہے مگر گھر میں بچوں سے اردو میں بات کی جاتی ہے تاکہ ان کی زبان نہ بگڑے،یہ عجب تضاد ہے،ہم  خود کو پنجابی کہتے  ہیں مگر پنجابی میں بات کرتے شرم محسوس کی جاتی ہے،اب  بچے سکول جاتے ہیں تو انہیں تعلیم انگلش میں دی جاتی ہے،نتیجے میں مادری،قومی،اور عالمی زبان میں ان کی دسترس صرف مافی الضمیربیان کرنے تک محدود رہتی ہے، لہٰذا کسی بھی زبان میں کوئی غالب، اقبال، سلطان باہو اور بلہے شاہ پیدا نہیں ہوا۔

دنیا کی حالیہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جن قوموں نے بام عروج حاصل کیا وہاں نئی نسل کو مادری زبان میں تعلیم دی گئی،ہمارے پرائمری سکولوں میں بچے زبان کی بھول بھلیوں میں مگن رہتے ہیں اور ترقی یافتہ قوموں کے بچے تحقیق و جستجو میں لگ جاتے ہیں اس لئے کہ وہ جو زبان گھر پر بولتے ہیں وہی گلی محلے بازار اور سکول میں بولتے ہیں اس لئے ان کو اپنی بات کہنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی، جاپان، فرانس، چین، روس،ایران،یہاں تک کہ عرب ممالک میں بھی ثانوی تعلیم مادری زبان میں فراہم کی جاتی ہے،دنیا کی کیا بات کریں سندھ،کے پی کے اور بلوچستان میں مادری زبانوں میں پرائمری تک تعلیم دی جاتی ہے،ثانوی میں بھی مادری زبان بطور مضمون پڑھائی جاتی ہے،کالج یونیورسٹی میں انہیں اردواور انگریزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر تب تک وہ اپنی مادری زبان میں مہارت حاصل کر چکے ہوتے ہیں مگر ہمارے ذہنی غلام حکمرانوں کو بچوں کے اس مخمصے کا حل نکالنے کی فرصت ہی نہیں،سکھ برادری کا پنجاب اور پنجابی سے روحانی تعلق ہے اور وہ اس تعلق کی بھر پور طریقے سے حفاظت بھی کر رہے ہیں،وہ انگریزی  بھی سیکھتے ہیں  مگر اہمیت اپنی زبان کو دیتے ہیں، جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ میاں محمد بخش،سلطان باہو، بلھے شاہ،شاہ حسین،بابا فرید،خواجہ فرید،حافظ برخوردار کا کلام وہاں بچے بچے کی زبان پر ہے،جبکہ مغربی پنجاب میں نئی نسل میں سے شائد ہی کوئی ان نابغہ روزگار ہستیوں بارے علم رکھتا ہو۔

پنجابی ادب پنجاب میں پنجابی زبان کی طرح اجنبی ہوتا جا رہا ہے،حالانکہ اگر صرف پنجاب کے کلاسیکل شعرا کا کلام ہی بچوں کو بطور مضمون پڑھایا جائے تو انہیں اخلاقی تعلیم اور تربیت کی ضرورت نہ رہے، ملک پر طویل عرصہ تک حکمران رہنے والوں کی سیاست جب فقط پنجاب تک محدود تھی تو انہوں نے نعرہ لگایا اور اس نعرہ سے دیواریں کالی کرا دیں ”جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ“مگر اقتدار میں آکر پنجاب اور پنجابی دونوں سے لا تعلق ہو گئے، 12کروڑ سے زائد آبادی کے حامل پنجاب میں پنجابی کو صوبہ بدر کیا جا رہا ہے،اپنے ہی دیس میں پنجابی اجنبی ہو رہی ہے مگر کسی کو اس کی فکر نہیں،فنون لطیفہ کے قدر دان حکمران بھی اس سے بے خبر ہیں،دانشوروں کا کہنا ہے نئی نسل کی فطری صلاحیتوں کو ان کی مادری زبان میں ہی نکھارا جا سکتا ہے،امریکہ و یورپ کی ترقی کا سبب انگریزی نہیں بلکہ مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنا ہے اور ان کی مادری زبان ہی انگریزی ہے،انہی طلباء کو چینی،روسی یا اردو زبان میں سائنس و ٹیکنالوجی پڑھائی جائے تو نتیجہ شائد اس سے بھی برا ہو جو ہماری نئی نسل دے رہی ہے۔

آج ہم قرض سے حاصل کی گئی ترقی پر خوشی کے ڈونگرے برسا رہے ہیں،والدین اولاد کو بیرون ملک بھیج کر خوش ہیں کہ ان کے بچوں پر ترقی خوشحالی کے دروازے کھل گئے ہیں، بہت جلد یہ نئی نسل پاکستانی رہے گی نہ اسلامی،تہذیب اپنی رہے گی نہ تمدن،اقدار اپنی ہوں گی نہ روایات،زبان اپنی رہے گی نہ پہچان،کیا ہم سکھ برادری سے کچھ سبق حاصل نہیں کر سکتے وہ کہیں بھی ہوں،کتنی بھی دولت کما لیں اپنی مادری زبان پنجابی اور  پنجاب سے ناتہ برقرار رکھتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -