گلشنِ خطابت کے عظیم پھول:مولانا علی محمدصدیقیؒ

گلشنِ خطابت کے عظیم پھول:مولانا علی محمدصدیقیؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا علی محمد صدیقی کے والد گرامی حاجی قادر بخش تھے جو قوم پرہار، سے تعلق رکھتے تھے۔ پرہار، بستی راجن پور کے قریب جانب غرب واقع ہے۔ یہاں مولانا علی محمد صاحب 1944ء میں پیدا ہوئے۔ راجن پور میں مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ پھر مدرسہ عزیزالعلوم شجاع آباد میں داخلہ لیا۔ جہاں قاری سیف الرحمن سے قرآن مجید حفظ کیا۔ یہ مدرسہ مفسر قرآن مولانا عبدالعزیز شجاع آبادی کا قائم کردہ تھا۔ مولانا عبدالعزیز ایک ثقہ عالم تھے۔ قرآن مجید کی تفسیر پر آپ کو رسوخ حاصل تھا۔ خوب ترنم سے تقریر کرتے تھے اور سماں باندھ دیتے تھے۔ مولانا علی محمد صاحب نے آپ سے ترجمہ وتفسیر بھی پڑھا۔ اس کے بعد مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں پڑھتے رہے۔ اس دوران آپ نے مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کے پاس بھی شرف تلمذ حاصل کیا۔ مولانا علی محمد صاحب نے دورۂ حدیث جامعہ مخزن العلوم خانپور سے کیا۔ شیخ الاسلام مولانا محمد عبداﷲ درخواستی، شیخ الحدیث مولانا محمد ابراہیم تونسوی (فاضل دیوبند) اور جامع المعقول والمنقول مولانا واحد بخش صاحب (فاضل دیوبند) کوٹ مٹھن والوں سے حدیث شریف پڑھ کر فارغ التحصل ہوئے۔ یاد رہے کہ مولانا محمد ابراہیم حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے اور مولانا واحد بخش صاحب مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد تھے۔


فراغت کے بعد 1970ء کے آس پاس مولانا علی محمد صدیقی اور مولانا عبدالخالق رحمانی نے مرکز العلوم مسافر خانہ راجن پور میں تعلیمی، تدریسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ قرآن مجید کے حفظ اور درس نظامی کی ابتدائی کتب کی تعلیم کا اجراء کیاگیا۔ دو سال بعد مولانا علی محمد صاحب نے 1972ء میں جامع مسجد کینال کالونی راجن پور میں مدرسہ اشرف المدارس حنفیہ کا اجراء کیا اور پھر زندگی کے آخری سانس تک مدرسہ کا اہتمام اور مسجد کی خطابت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔مولانا علی محمد صدیقی خاندانی طور پر زمیندار تھے۔ خاصی زمین رکھتے تھے۔ اپنی وضع قطع، قدکاٹھ، علمی وجاہت اور زمیندارہ وقار کے باعث سرکاری افسران کے حلقہ میں مقبول ہونے لگے۔


مربوط گفتگو کے بادشاہ تھے۔ تلخ سے تلخ حقیقت کو رسیلی اور میٹھی گفتگو میں ایسا بیان کرنے کے ماہر تھے کہ مشکل سے مشکل مسئلے کو بھی چٹکیوں میں حل کرالیتے تھے۔ آپ کی گفتگو کو ہر آدمی وقعت دیتا تھا۔ اس سے آپ کی ہر دلعزیزی اور مقبولیت عامہ میں اضافہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی رائے کو احترام کا مقام حاصل تھا۔ چنانچہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے سفیر امن، ہمدرد قوم ووطن کے اعزازات نے آپ سے عزت حاصل کی۔ ڈسٹرکٹ مصالحتی کمیٹی اور ڈویژنل امن کمیٹی کے آپ چیئرمین تھے۔ حق کا ساتھ دینا اور ہمیشہ حق وسچ کی بات احسن انداز میں پیش کرنا آپ کا طرّہ امتیاز تھا۔


آپ کے استاذ حضرت مولانا محمد عبداﷲ درخواستی اور حضرت مولانا مفتی محمود جمعیۃ علماء اسلام کے امیر اور ناظم عمومی تھے۔ اس لئے آپ عمر بھر جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ وابستہ رہے۔ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے ہمیشہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے خدمات سرانجام دیں۔ چنانچہ وصال کے وقت بھی آپ عالمی مجلس راجن پور کے امیر کے عہدہ پر فائز تھے۔ مولانا علی محمد صاحب ہمیشہ غریب دوستوں، اور علاقہ کے عوام کی خدمت اور مدد میں کوشاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا جنازہ راجن پور کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے تھا۔ جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی ناظم اعلیٰ مولانا عزیزالرحمن جالندھری نے پڑھایا۔ حق تعالیٰ مغفرت کرے۔ خوب آزاد مرد تھے۔

مزید :

کالم -