اسلام دین انسانیت!
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل انبیائے کرام خاص وقت اور مخصوص اقوام کے لئے مبعوث کیے گئے۔ حضور پاکؐ تمام بنی نوع آدم کے ہادی ورہنما اور تاقیامت اس مقام پر فائز ہیں۔ آپؐ نے اللہ کا پیغام پوری انسانیت تک پہنچایا حتّٰی کہ وقت کے تمام حکمرانوں پر بھی اتمامِ حجت کردیا۔ آپؐ کے دور میں روم اور ایران کو سپر طاقت کہا جاتا تھا۔ آپ نے ان کے حکمرانوں کو بھی پیغامِ صداقت پہنچایا۔ رومی سلطنت کا بادشاہ قیصر کہلاتا تھا۔ آنحضورؐ کے دور میں اس سلطنت کا تاجدار ہر قل تھا۔ اس نے رومی فوجوں کی پے درپے شکستوں کے بعد ایرانیوں کے مقابلے پر خود رومی لشکروں کی کمان سنبھال کر بہت شاندار تاریخی فتوحات حاصل کیں۔ اسے بازنطینی ریاست کے بادشاہوں میں بہت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اُس کی تخت نشینی۰۱۶ء میں ہوئی اور ۱۴۶ء میں اپنی وفات تک یہ برسرِ اقتدار رہا۔ آنحضورؐ کے جامع و مانع خط کامتن جو تاریخی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، یوں ہے:
’’محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے، ہر قل حاکم روم کے نام، سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے ، میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آ، سلامت رہے گا، تجھے اللہ تعالیٰ دوہرا اجر دے گا اور اگر تو روگردانی کرے گا تو تیری تمام رعیت کے اسلام نہ لانے کا گناہ تجھ پر ہوگا۔ اے اہلِ کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں(تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی شے کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں [سے] کوئی کسی کو اللہ کے سوا کار ساز نہ بنائے۔ اگر یہ بات نہ مانیں تو آپ کہہ دیجیے کہ تم گواہ رہو ہم [اللہ کے] فرماں بردار ہیں۔‘‘(سیرۃ خیر الانام:ص۲۰۳)
قیصر کے پاس آپؐ کا خط لے کر جانے والے صحابی حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبیؓ تھے۔ آپؓ خط لے کر چلے تو آپؓ نے آنحضورؐ سے عرض کیا کہ قیصر روم کے بارے میں معروف ہے کہ وہ براہ راست خط وصول کرنے کے بجائے اپنے گورنروں کے ذریعے وصول کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ بغیر مہر وہ کسی خط کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا۔ نبی اکرمؐ نے تمام حکمرانوں کے نام اپنے خطوط پر مہر ثبت کرنے کے لئے اپنی انگوٹھی کی پشت پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ کروائے۔ ’’محمد رسول اللہ ‘‘ہر خط پر آنحضورؐ کی مہر لگائی گئی۔ یہ خط بیت المقدس میں قیصر روم کے دربار میں پیش کیا گیا، کیونکہ اس وقت قیصر روم یروشلم میں آیا ہوا تھا۔ بصریٰ کے حاکم اور قیصر روم کے گورنر کو مطلع کرکے خط پیش کیا گیا مگر حضرت دحیہ کلبیؓ نے خود بنفس نفیس پہنچ کر یہ خط ہرقل کے حوالے کیا تھا۔
ملوک و شاہان کے نام یہ خطوط محرم ۷ھ بمطابق628-29ء میں لکھے گئے تھے۔ قیصر نے خط تمام سفارتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت عزت و احترام کے ساتھ وصول کیا اور اس کا مضمون پڑھوایا۔ خط کے نفس مضمون سے واقف ہونے کے بعد اس نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ کیا ان دنوں جزیرہ نمائے عرب سے کوئی تاجر یروشلم آیا ہوا ہے تو اسے بتایا گیا کہ ہاں آیا ہوا ہے۔
اتفاق سے ان دنوں سردارِ مکہ ابو سفیان مع دیگر تاجرانِ مکہ شام آیا ہوا تھا۔ اسے بیت المقدس پہنچایا اور دربار میں پیش کیا گیا۔ قیصر نے ہمراہی تاجروں سے کہا کہ میں ابو سفیان سے سوال کروں گا اگر یہ کوئی جواب غلط دے تو مجھے بتا دینا۔ ابو سفیان ان دنوں نبی اکرم ؐ کا جانی دشمن تھا۔ اس کا بیان ہے کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میرے ساتھ والے میرا جھوٹ ظاہر کردیں گے تو میں بہت سی باتیں غلط بتاتامگر اس وقت قیصر کے سامنے مجھے سچ سچ ہی کہنا پڑا۔
سوال و جواب یہ ہیں:
قیصر: ’’محمدؐ کا خاندان اور نسب کیسا ہے؟ ‘‘
ابو سفیان: ’’شریف و عظیم‘‘۔
یہ جواب سن کر ہرقل نے کہا ’’سچ ہے۔ نبی شریف گھرانے کے ہوتے ہیں تاکہ اُن کی اطاعت میں کسی کو عار نہ ہو۔‘‘
قیصر۔ ’’محمدؐ سے پہلے بھی کسی نے عرب میں یا قریش میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟‘‘
ابو سفیان : ’’نہیں‘‘۔
یہ جواب سُن کر ہر قل نے کہا’’اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ اپنے سے پہلے کی نقالی اور ریس کرتا ہے۔‘‘
قیصر: ’’نبی ہونے کے دعویٰ سے پہلے کیا یہ شخص جھوٹ بولا کرتا تھا یا اس پر جھوٹ بولنے کی کبھی تہمت لگی‘‘؟۔
ابو سفیان: ’’نہیں ‘‘
ہر قل نے اس جواب پر کہا: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ جس شخص نے لوگوں پر جھوٹ نہ بولا، وہ خدا پر جھوٹ باندھے‘‘۔
قیصر: ’’اس کے باپ دادا میں سے کوئی شخص بادشاہ بھی ہوا ہے‘‘؟
ابو سفیان: ’’نہیں‘‘۔
ہر قل نے اس جواب پر کہا ’’اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ نبوت کے بہانے سے باپ دادا کی گم گشتہ سلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔
قیصر: ’’محمدؐ کے ماننے والوں میں مسکین و مفلس لوگ زیادہ ہیں یا سردار اور قوی لوگ؟‘‘
ابو سفیان: ’’مسکین حقیر لوگ‘‘۔
ہر قل نے اس جواب پر کہا ’’ہر ایک نبی کے پہلے ماننے والے مساکین و غربا لوگ ہی ہوتے رہے ہیں‘‘۔
قیصر: ’’ان لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے‘‘؟۔
ابو سفیان: ’’بڑھ رہی ہے‘‘۔
ہر قل نے کہا: ’’ایمان کا یہی خاصہ ہے کہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور حد کمال تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔
قیصر: ’’کوئی شخص اس کے دین سے بیزار ہو کر اس سے پھر بھی جاتا ہے‘‘؟۔
ابو سفیان: ’’نہیں ‘‘۔
ہر قل نے کہا ’’لذتِ ایمان کی یہی تاثیر ہے کہ جب دل میں بیٹھ جاتی اور روح پر اپنا اثر قائم کر لیتی ہے، تب جدا نہیں ہوتی‘‘۔
قیصر: ’’یہ شخص کبھی عہد و پیمان کو توڑ بھی دیتا ہے؟‘‘
ابو سفیان: ’’نہیں۔ لیکن اس سال ہمارا معاہدہ اس سے ہوا ہے۔ دیکھیے کیا انجام ہو‘‘۔
ابو سفیان کہتا ہے کہ میں صرف اس جواب میں اتنا فقرہ زیادہ کر سکا تھا مگر قیصر نے اس پر کچھ توجہ نہ کی اور یوں کہا: ’’بیشک نبی عہد شکن نہیں ہوتے۔ عہد شکنی دنیا دار کیا کرتا ہے۔ نبی دنیا کے طالب نہیں ہوتے‘‘۔
قیصر: ’’کبھی اس شخص کے ساتھ تمھاری لڑائی بھی ہوئی‘‘؟
ابو سفیان: ’’ہاں‘‘
قیصر:’’جنگ کا نتیجہ کیا رہا؟‘‘
ابو سفیان: ’’کبھی وہ غالب رہا (بدر میں) اور کبھی ہم (اُحد میں)‘‘۔
ہر قل نے کہا: ’’خدا کے نبیوں کا یہی حال ہوتا ہے لیکن آخر کار خدا کی مدد اور فتح اُن ہی کو حاصل ہوتی ہے‘‘۔
قیصر: ’’اس کی تعلیم کیا ہے‘‘؟
ابو سفیان: ایک خدا کی عبادت کرو۔ باپ دادا کے طریق (بُت پرستی) کو چھوڑ دو۔ نماز، روزہ، سچائی، پاکدامنی، صلہ رحمی کی پابندی اختیار کرو‘‘۔
ہر قل نے کہا: ’’نبی موعودکی یہی علامتیں ہم کو بتائی گئی ہیں۔ میں یہ تو ضرور سمجھتا تھا کہ نبی کا ظہور ہونے والا ہے، لیکن یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ عرب میں سے ہوگا۔ ابو سفیان! اگر تم نے سچ سچ جواب دیے ہیں تو وہ ایک روز اس جگہ کا جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں (شام و بیت المقدس) ضرور مالک ہوجائے گا۔ کاش میں ان کی خدمت میں پہنچ سکتا اور نبی کے پاؤں دھویا کرتا‘‘۔
ابو سفیان کے بقول اس کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک [پھر سے] پڑھا گیا۔ اراکینِ دربار [اب] اُسے سن کر بہت چیخے اور چلائے اور ہم کو دربار سے باہر نکال دیا گیا۔ میرے دل میں اسی روز سے اپنی ذلت کا اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آئندہ عظمت کا یقین نقش ہوگیا۔
ابو سفیان کی طرف سے عملاً اس حقیقت کا اعتراف قدرے تاخیر سے ہوا یعنی فتح مکہ کے بعد مگر ان کی اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اسلام کے حق ہونے اور آنحضورؐ کے غالب آنے کا قیصرِ روم کے دربار ہی میں یقین ہوگیا تھا۔