معراج مصطفےٰ۔۔۔مااکملک

اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتے ہیں تو ”کن فیکون“ فرماتے ہیں کن (ہو جا) فیکون (پس وہ ہو جاتا ہے) ویسے تو کائنات ارض وسما کا ذرہ ذرہ اس بات کا شاہد ہے، لیکن مذکورہ کن فیکون کی معراج واقعہ معراج ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (سبحان الذی اسری بعبدہ لیلہ من المسجد الحرام الی مسجد الاقصیٰ) پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی۔ قرآن مجید کے واضح حکم کے بعد بات اپنی تکمیل کو پہنچ جاتی ہے اور اگر انبیائے کرام کے حالات زندگی کا جائزہ لیا جائے تو عقلی اور منطقی طور پر بھی سلسلہ نبوت چلتا چلتا جب حضرت سیدنا محمد الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہے تو یہ اپنی معراج کو پہنچ جاتا ہے اور باقاعدہ اعلان کردیا جاتا ہے کہ (ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن الرسول اللہ وخاتم النبین) ویسے تو سب انبیا و رسل کے ہاں معجزات کا سلسلہ تواتر کے ساتھ رہا ہے اور ان معجزات کو قرآن مجید میں بیان بھی کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ ”اور اسی طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو آسمان وزمین کا نظام سلطنت دکھایا، تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو“ اور موسی علیہ السلام سے فرمایا(تاکہ ہم آپ کو کچھ بڑی نشانیاں دکھائیں) اور پھر ان نشانیوں کو دکھانے کا جو مقصود تھا اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد(ولیکون من الموقنین) تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوں میں واضح فرمایا ہے۔ یوں ان کو مشاہدات کی سند حاصل ہو جاتی تھی اور وہ حق الیقین کے راز کو پا لیتے تھے پھر تو وہ حق ادا کر دیتے تھے۔ خدا کی رضا اور پھر بس۔ واقعہ معراج تو خیر معجزات کی معراج تھی۔ تسخیر کائنات کا عملی مظاہرہ۔ عبد اور معبود کے درمیان سب فاصلے ختم۔ سب انبیاء کا خاتم النبیین کی نبوت کا اقرار۔ سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں سب انبیاء ورسل کا نماز ادا کرنا اور پھر نمازوں کا تحفہ اور وہ تحفہ جس کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ الصلوٰۃ قراۃ العینی (نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے) بقول اقبال (ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر۔۔۔ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی)
مذکورہ واقعہ کے بارے میں سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے درج ہے۔ غالب خیال یہ ہے کہ یہ واقعہ نبوت کے دسویں سال 27 رجب المرجب کو رونما ہوا۔ واقعہ کا تسلسل کچھ یوں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپؐ کے جسم مبارک سمیت براق پر سوار کر کے حضرت جبرائیل کی معیت میں مسجد حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی پھر آپ نے وہاں نزول فرمایا اور انبیاء کی امامت فرماتے ہوئے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد اسی رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے سارے دروازے وا ہو گئے۔پہلے آسمان پر آپ کی ملاقات حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے ہوئی اور آپ نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے آپ کو مرحبا کہا اور سلام کا جواب دیا اور پھر آپ کی نبوت کا اقرار کیا۔اِسی طرح دوسرے آسمان پر پہنچ کر آپ کی ملاقات حضرت یحییٰ بن زکریا اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام سے ہوئی۔ دونوں کو سلام کیا گیا۔ سلام کا جواب دیا گیا۔ مبارک باد دی گئی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا گیا۔تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام پانچویں پر حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام اور چھٹے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقاتیں ہوئیں۔ سب کو سلام کیا گیا سب نے سلام کا جواب دیا۔ مبارک بعد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا گیا۔ آخری آسمان پر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی سلام کیا سلام کا جواب دیا گیا۔ مبارک باد دی گئی اور نبوت کا اقرار کیا گیا اور سدرہ المنتہی(کالا رنگ ٹولاں دا۔۔سدرہ لنگھ ٹریا سردار رسولاں دا) مستند روایات کے مطابق حضرت جبرائیل کا وہاں پڑاو اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تن تنہا سفر۔ حریم ذات اور یوں (جانے جان والا یا لے جان والا) اور بقول اقبال (عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام۔۔۔ اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں)۔ بیت معمور، خدائے جبارجل جلالہ کا دربار اور پھر دو کمانوں کے برابر یا پھر اس سے بھی کم فاصلہ۔ (کہا حق نے آغوش رحمت میں لے کر۔۔۔جو تیرا نہیں ہے وہ میرا نہیں ہے) نماز کا تحفہ اور تخفیف نماز کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مابین مکالمہ۔ اس رات آپ نے کیا کیا نہ دیکھا اللہ اکبر اللہ اکبر۔ رب کے بھید نرالے اور ؐمحمد ہمارے بڑی شان والے۔ واقعہ معراج کائنات ارض وسماء کا منفرد اور بے نظیر واقعہ چشم فلک نے دیکھا اور دیکھنے والوں نے بھی دیکھا،بلکہ بہت کچھ ہی دیکھا۔ اندھے بحثوں میں پڑ گئے اور اُلجھ کے رہ گئے۔ اُلجھنے والوں کے لئے ہاویہ ہے اور ان کو کیا معلوم کہ ہاویہ کیا ہے۔ ان کو تو اس کی بھی خبر نہیں ہے کہ طاقت وقدرت خداوندی اور مقام کبریا کیا ہے۔ شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہے۔ سبحان اللہ مااجملک ما احسنک ما اکملک۔ تقابلی جائزہ سرا سر تباہی۔ قریش کے جن لوگوں نے غور سے دیکھا وہ تو دیکھتے رہ گئے اور جن کی نظریں کمزور تھیں ان کو اپنے اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان فرق نظر نہ آیا۔ بے شک قرآن نے حق بیان کیا اندھے اور دیکھنے والے برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔
آج کا دور اور ہم۔ غور وفکر کی اشد ضرورت ہے۔ آنکھیں کھول کے رکھنے کی ضرورت ہے۔ نسخہ کیمیا ہمارے پاس ہے اور ہمارے جملہ عیوب کو دور کرنے کا مجرب نسخہ نماز۔ اللہ کا دیا گیا تحفہ اور امت محمدی کا تابناک مستقبل۔ اس مرحلے پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول پیش نظر۔ (میں جب چاہتا ہوں اللہ سے باتیں کروں تو نماز ادا کرتا ہوں اور جب چاہتا ہوں اللہ مجھ سے باتیں کرے تو میں قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں۔ آئیے یہ دونوں کام شب معراج مناتے ہوئے کرتے ہیں۔ نسبت مصطفیؐ کی بدولت ہم پر بھی لطف ورحمت اور عنایات کے سارے دروازے وا ہو جائیں گے اور ہم کیا سے کیا ہو جائیں گے یوں خلیفہ اللہ فی الارض کی بھی ہم عملی تفسیر پیش کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ بقول راقم الحروف(بیٹھا ہوں یہی سوچ کے اس در پہ کہ اک دن۔۔۔وا ہوگا دردولت سرکار مدینہ)
٭٭٭٭٭