اسلامی دنیا بحران کی زد میں !

اسلامی دنیا بحران کی زد میں !

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




مجھے یاد ہے کہ یہ اسّی کی دھائی تھی جب سوویت یونین کے خلاف بیان بازی کرتے ہوئے صدر ریگن نے کہا تھا ”امریکہ اتنا طاقتور ہے کہ وہ ایک نئی دنیا بسا سکتا ہے“....ان کے ایک رپبلکن جانشین، صدر جارج ڈبلیو بش، نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی، مگر ایک نئی دنیا تخلیق کرتے ہوئے وہ اس کو تہہ و بالا کر بیٹھے۔ یہ ان کی کاوش کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر طرف ہنگاموں، بدنظمی اور افراتفری کا راج ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، جس کی نظریاتی کشمکش کے نتیجے میں دنیا مشرق اور مغرب کے بلاکوں میں تقسیم ہو گئی تھی ، طاقت کا ارتکاز ایک ملک کے ہاتھوں میں چلا گیا ۔ اس کے نتیجے میں دنیا کو مجموعی طور پرسلامتی کے حوالے سے نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اب کشمکش کی تفاوتی لائن مغرب اور باقی دنیا کے درمیان کھنچتی ہے، مگر اب ان کے درمیان طاقت کا توازن ختم ہو چکا ہے۔ مغربی دنیا طاقتور اور امیر اور بے پناہ وسائل کی مالک ہے، جبکہ باقی دنیا ، جس میں زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک شامل ہیں اور ان میں دنیا کی زیادہ تر آبادی کا ارتکازہے ، غربت اور پسماندگی کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے تیسری دنیا کا کوئی معاملہ بھی درست نہیں ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک میں آمریت اور غیر منتخب شدہ قیادت کی وجہ سے ناقص طر ز ِ حکومت اور لاقانونیت پائی جاتی ہے، جبکہ اکثر ریاستیں داخلی یا خارجی محاذوں پر مسلسل کشمکش کا شکار ہیں۔سب سے پریشان کن صورت ِ حال یہ ہے کہ دنیا کے دو وسیع ترین علاقے ، افریقہ اور جنوبی ایشیا ، جو انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، انتہائی غربت اور تشدد کا شکار ہیں۔ یہ دونوں خطے دشمنی ، کشمکش، تنازعات، تاریخی مسائل، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر سنگین تصادم کی وجہ سے عدم استحکام سے دوچار ہیں۔
اسلامی دنیا کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ اس کی حالت کو انیسویں صدی کے ایک بدقسمت فرانسیسی جہاز ” میڈوسا“ ، جو نااہل کپتان کی غلطی اور اس کی دوسروں کی رہنمائی پر انحصار کی عادت کی وجہ سے ریت میں دھنس گیا اور اس کو تباہی اور موت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ میڈوسا کا ڈھانچہ ابھی بھی مغربی افریقہ کے ساحل کے پاس ریت میں دھنسا ہو ا دیکھا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح اسلامی دنیا بھی ”نااہل کپتانوں “ کی وجہ سے طوفان کے تھپیڑے کھا رہی ہے اوراس کو اس بحران سے نکالنے والا کوئی نہیںہے۔
 ستاون کے قریب ممالک پر مشتمل عالم ِ اسلام کو ، جو دنیا کی بیس فیصد آبادی ، ستر فیصد توانائی کے وسائل اورپچاس فیصد قدرتی وسائل رکھتا ہے، معاشی اور سیاسی طور پر ایک عظیم عالمی قوت ہونا چاہیے تھا، مگر یہ وسائل کے اعتبار سے امیر ہونے کے باوجود ہر حوالے سے کمزور ہے۔ دنیا کے مجموعی جی ڈی پی کا صرف چھ فیصد اسلامی دنیا سے آتا ہے۔ اس کا عالمی فیصلہ سازی میں کوئی عمل دخل نہیں ، بلکہ یہ اپنے مسائل بھی حل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اگرچہ کچھ اسلامی ممالک میں دنیا کے وسیع ترین تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں، مگر زیادہ تر مسلم ممالک بدترین غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ طویل نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد اسلامی ریاستیں آزادی اور خود مختاری تو حاصل کر چکی ہیں، مگر یہ ابھی تک سیاسی اور معاشی خود انحصاری کی منزل سے دور ہیں۔ چند ایک کے سوا، زیادہ تر اسلامی ممالک، جو غریب اور پسماندہ ہیں اور وہاںسیاسی دیوالیہ پن اور آمریت کا راج ہے، حمایت اور بچاﺅ کے لیے مغرب کے رحم و کرم پر ہیں ۔ ان کے ہاں نہ سول ادارے مضبوط کرنے کی روایت پائی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم اور متحرک نظام ِ حکومت موجود ہے۔ان میں کوئی دم خم موجود نہیں ہے اور جو بھی دولت ان کے پاس ہو ، وہ زیادہ تر مغربی ممالک کے کام ہی آتی ہے۔
 آج تمام اسلامی دنیا کے حکمران اور اس میں کسی کواستثنا حاصل نہیں ہے سیاسی قوت اور اقتدار کے لئے امریکہ کے دست ِ نگر ہیں اور انہی کی وجہ سے آج اسلامی ممالک سیاسی ، معاشی اور دفاعی معاملات میں مغربی دنیا کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان کی سرزمین اور وسائل مغربی طاقتوں کی فوجی ”حفاظت “ میں ہیں اور تیل اور دیگر وسائل میں سرمایہ کاری کا براہ ِ راست فائدہ ”محافظوں “ کو ہی پہنچ رہا ہے۔ ان نام نہادآزاد اور خود مختار اسلامی ممالک کی سیاسی زندگی کا ایک ایک لمحہ رہن رکھا جا چکا ہے، ان کی آزادی پر غلامی خندہ زن ہے، ان کی پارلیمنٹ اگر کوئی ہو بے توقیر ہے، ان کے ہاں کوئی قانون نہیں اور ا ن کی اپوزیشن جماعتیں بھی اتنی ہی بدعنوان ہیں، جتنا کہ حکمران طبقہ۔ آج احساس ہوتا ہے کہ نوآبادیاتی حکمرانوںنے جاتے جاتے دیسی حکمرانوں کے ہاتھ زمام ِ اختیار اس طرح تھما دی کہ ان ممالک کو حقیقی آزادی نصیب ہی نہیںہو۔ سوائے اس کے کہ یہ ممالک اقوام ِ متحدہ کے اراکین ہیں، ان کے پاس آزادی اور خودمختاری کی اور کوئی علامات موجود نہیں۔
اسلام سلامتی کا مذہب ہے، مگر اسلامی ممالک میں، خاص طور پر دوسری جنگ ِ عظیم کے خاتمے کے بعد سے، امن نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے ان میں ہر طرف بدنظمی اور تشدد کی آگ جل رہی ہے ۔ کچھ ریاستیں تو غیر ملکی انتہاپسند تنظیموں کا گڑھ ہیں، جبکہ کچھ ممالک کی سرزمین کو غیر ملکی طاقتیں بڑی آزادی سے استعمال کر تے ہوئے اپنی مرضی سے جوکارروائی چاہے کرتی ہیں۔ کچھ ریاستیں انتہائی خود غرضی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے عالمی قوتوں کی آلہء¿ کار بنتے ہوئے دیگر ریاستوں کے خلاف پراکسی جنگ میں اپنے وسائل جھونک دیتی ہیں، جبکہ کچھ ریاستیں تو اپنے عوام کے خلاف ہی فوجی آپریشن میں مصروف ہیں۔ فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان میں جنم لینے والا انسانی المیہ اسلامی دنیا کی بے کسی کی دلالت کرتا ہے۔

9/11 کے بعد سے اسلام کے مخالفین نے اسے عالمی افراتفری یا د ہشت گرد کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں کوئی بھی خرابی واقع ہو، اسلام کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ مسلمانوںکی ان تحریکوں کو ، جو خالصتاً آزادی کی جد وجہد سے عبارت تھیں، آج دنیا میں انتہاپسندی اوردہشت گردی کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کی آڑ میں اسلامی ممالک پر فوجی قوت سے قبضہ کرنے اور جبر کے خلاف کی جانے والی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دے کر آہنی ہاتھوںسے کچلنے کی پالیسی کو روا سمجھا جاتا ہے۔ امر ِ واقع یہ ہے کہ مسلمانوںکے مسائل کو پس ِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ فلسطینیوںنے تنگ آکر آزادی کے لئے جدوجہد ترک کردی ہے، عراق ابھی تشدد کی آگ میںجل رہا ہے، افغانستان نے ابھی امن کا منہ دیکھنا ہے، کشمیر کی تحریک کو کچل دیا گیا ہے، لبنان بھی سلگ رہا ہے ، پاکستان میںقیادت کا بدترین بحران پیدا کر دیا گیا ہے، جبکہ ایران کو بھی مسلسل نوٹس مل رہے ہیں۔ اسلامی دنیا کا حال شاید اس قدر خراب کسی بھی زمانے میں نہیں تھا۔ یقینا ایک سنگین بحران نے اس کو گھیرا ہوا ہے اور اس سے کوئی جائے مفر دکھائی نہیں دیتی ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس گھمبیر ہوتی ہوئی صورت ِ حال کے باوجود اسلامی دنیا ایک متحد بلاک کی صورت میں سامنے آکر ان مسائل سے نبردآزما ہونے سے قاصر ہے۔ اس کے خود غرض حکمرانوںنے نہ صرف اپنے ممالک کی سلامتی اور خود مختاری کو مغربی طاقتوںکے ہاں گروی رکھ دیا ہے، بلکہ اپنے عوام کا سیاسی اور معاشی مستقبل بھی داﺅ پر لگا دیا ہے۔
یہ ہے وہ بھیانک منظر جس کے خدوخال اسلامی دنیا کے حکمرانوںکی بداعمالیوںنے تراشے ہیں۔ دقیانوسی ذہنیت کے حامل افراد نے، جیسا کہ ہم ہیں، اس تبدیل ہوتی ہوئی خطرناک دنیا میںاپنا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے کچھ نہیںکیا ۔ ناسٹلجیا کا شکار ہو کر اسلام کی عظمت ِ رفتہ کی یاد میں گم رہنے اور حال کو نظر انداز کرنے میںکوئی دانائی نہیں تھی۔ مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں سے اقتدار کا چھن جانا اور تقریباً تمام اسلامی ممالک کا مغربی نوآبادیاتی نظام کا شکار ہو جانا اور اب سیاسی، معاشی، سماجی اور صنعتی پسماندگی کی ذلت برداشت کرنا مسلمان حکمرانوں کی تاریخی ناکامیوں کا افسوس ناک اظہار ہے، تاہم اسلامی دنیا کے سیاسی اداروں کی زبوں حالی، ذہنی اور فکری انحطاط، سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی سے محرومی، ”طرزِ کہن پر اِڑنے اور آئین ِ نو سے ڈرنے“ اور مغرب پر انحصار بڑھانے کی ذلت پر ہم صرف غیر مسلم دنیا کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے ہیں ۔
اس صورت ِ حال میں اُس وقت تک بہتری نہیں آئے گی، جب تک اسلامی دنیا اغیار کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے مسائل سے خود نمٹنے کی پالیسی نہیں بنائے گی۔ اس کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل نہیں ہوںگے۔ اسے اتحاد، ہم آہنگی اور اخوت کے ذریعے اپنی زمامِ تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں تھامنا ہے۔ ان کواپنی دولت اور وسائل کو، جو ابھی مغربی ممالک کے تصرف میں ہیں، اپنے عوام کی سماجی اور معاشی فلاح اور سیاسی قوت کے لئے استعمال کرنا سیکھنا ہوگا۔ اسلامی دنیا کے مقدر کو تبدیل کرنے کے لئے سیاسی اور معاشی خودانحصاری، فوجی قوت ، امن و جمہوریت اور علم و ٹیکنالوجی کی راہ پر چلنا ہوگا۔ اس دنیا میں جرم ِ ضعیفی کی سزا صرف مرگ ِ مفاجات ہی ہے اور یہ قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے۔ ٭

مزید :

کالم -