وہ وقت جو ہمارا منتظر ہے

وہ وقت جو ہمارا منتظر ہے
وہ وقت جو ہمارا منتظر ہے

  

                                                                            کچھ بیج ہم نے بوئے ہیں،جبکہ کچھ ہواﺅں نے ادھر اُدھر زمین میں بکھیر دئیے ہیں؟ اس سے کیا فصل تیار ہونی تھی؟ استعماری طاقتوں کے لئے قبرستان ثابت ہونے والی افغانستان کی سرزمین سے ایک اور غیر ملکی فوج شکست کی ہزیمت اٹھا کرفرار ہورہی ہے۔ جوشیلے مجاہدوں کو تو اس بات کا علم ہو گا، لیکن اپنے آرام دہ صوفوں پر بیٹھے انسانوںسے ایسی غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں کہ وہ اس صورت ِ حال کی پیش بینی میں ناکام رہے۔ افغان شورش پسندی پر مغربی مصنفین کی کچھ کتابیں میرے زیر ِ مطالعہ ہیں۔ ان کوپڑھنے کے بعد مجھے اپنی افغانستان کے حوالے سے ناواقفیت پر ندامت محسوس ہونے لگی ہے۔ ہم جس رٹے رٹائے جملے کو دہراتے رہے ہیں کہ ” یہ ہماری جنگ ہے“....وہ ہماری کج فہمی کی دلالت کرتا ہے ۔ آج احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری جنگ ہر گز نہیں، بلکہ امریکیوں کی جنگ تھی۔ وہ یہاں آئے، اُنہوںنے اسے شروع کیا اور یہ جنگ ہماری صرف اس حوالے سے تھی کہ پرویز مشرف اور پھر پی پی پی کی نااہل حکومتوں اوردفاعی اداروں کے فیصلوں کی وجہ سے ہم اس میں بری طرح الجھ گئے۔

دفاعی اداروں کے افسران نے، جو ہماری عارضی قسمت کے نگران بن چکے تھے، اس جہادی کلچر کے بیج بوئے۔ جب اس کلچر کے لئے کھیت تیار کیا گیا تو کچھ کانٹے دار جھاڑیاں خود ہی اُگ جاتی ہیں۔ اس سے پہلے ، جب ہم نے پہلے افغان جہاد میں نہایت دلجمعی سے شرکت کی تھی تو اس کے منفی نتائج ہماری سرزمین سے دور رہے۔ اس سے شہ پا کر جب ہم نے دوسری افغان جنگ میں قدم رکھاتو ہمار ا خیال تھا کہ ہم پھر اس کے مضمرات سے بچ جائیں گے، لیکن اس مرتبہ حالات بدل چکے تھے، چنانچہ ہم خود اس کا نشانہ بن گئے۔ اس وقت واحد اچھی بات یہ ہوئی تھی کہ فوج نے اس راہ میں آنے والی دلدل کو بھانپ کر اس میں قدم نہ رکھا اور اس کا کریڈٹ اس کو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ پرویز مشرف کی کمان تلے اس نے امریکی ترغیبات اور احکامات کو ماننے سے انکار کردیا۔ اگرچہ اس نے کچھ ہدایات پر عمل بھی کیا، لیکن تمام پر نہیں۔

یہ بات درست ہے کہ فوج کی ہائی کمان پر الزامات لگے کہ وہ دہرا کھیل کھیل رہی ہے، یعنی وہ امریکیوں اور طالبان، دونوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ اُس وقت تو یہ الزامات واقعی بہت افسوس ناک لگ رہے تھے ، لیکن آج احساس ہوتا ہے کہ فوج نے دانائی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مکمل طور پر امریکہ کا ساتھ دے کر خود کو طالبان دشمنی کے جہنم میں نہیں دھکیل لیا۔اسی دوران امریکی بھی اپنے نقصانات کے حوالے سے بہت محتاط تھے ۔ اُن کے افغانستان میں لڑنے والے فوجیوں نے تلوار سے دست بدست لڑنے والے قرون ِ وسطیٰ کے جنگجوو¿ں سے کہیں زیادہ زرہ بکتر پہن رکھی تھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی حفاظت تو ہر قیمت پر یقینی بنا رہے تھے، لیکن چاہتے تھے کہ پاک فوج اس جہنم میں اتر جائے۔ عام طور پر پاکستان کے کچھ دفاعی افسران (اور اکثر صحافی بھی ان سے پیچھے نہیںہوتے)غیر ملکی طاقتوںکے آلہءکار ہوتے ہیں، لیکن اس ضمن میں اُنہوںنے قابل ِ ستائش حد تک امریکی دباﺅ برداشت کیا۔

آج دیکھیں صورت ِ حال کیا رخ اختیار کر رہی ہے؟امریکی افغانستان سے بوریا بستر باندھ کر واپسی کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔ اب دنیا کی کوئی طاقت ان کو یہاں نہیں روک سکتی۔ ذرا سوچیں ، اگر جنرل اشفاق پرویز کیانی ان کے دباﺅ کے سامنے جھکتے ہوئے شمالی وزیرستان چلے گئے ہوتے تو کیا ہوتا؟یقینا پاک فوج کی شمالی وزیرستان میں کارروائی سے جنگ کے نتائج تبدیل نہیں ہونے تھے ، اس لئے امریکہ نے یہاںسے ضرور واپس جانا تھا، لیکن ہماری فوج ایک دلدل میں دھنس جاتی اور امریکہ کی طرف سے اس مرتبہ بھی کوئی مدد نہ ملتی ، بالکل اسی طرح، جس طرح سابقہ افغان جنگ کے بعد اُس نے ہم سے آنکھیں پھیر لی تھیں۔ اس مرتبہ اُنہوںنے پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان کو چھوڑ کر نہیں جائیںگے۔ اس پر جنرل ڈی گال یا د آتے ہیں۔ ایک مرتبہ انہوںنے کہا تھا کہ معاہدے ”نوجوان لڑکیوں اور گلاب کے پھولوں جیسے ہوتے ہیں۔ وہ جب تک کام دیں، اُس وقت تک ہی اُن کی پاسداری کی جاتی ہے“۔

آج کے پاکستان میںفوج پر تنقید کرنا فیشن بن چکا ہے اور جب تک ہم دفاعی اداروںکے خلاف بیانات نہ داغیں،ہماری جمہور پسندی کی سند ” جعلی“ معلوم ہوتی ہے،تاہم یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ فوج نے افغان مسئلے پر نہایت کمال سے اپنے پتے کھیلے ہیں۔ اُنہوںنے امریکیوں سے بگاڑ پیدا کرنے کی بھی حماقت نہیں کی ، لیکن اُن کی بہت سی باتیں بھی نہیں مانیں۔ چونکہ حالات یہ پیدا ہورہے تھے کہ امریکیوں کا یہاںسے جانا ٹھہر گیا تھا ، اس لئے ایبٹ آباد میں بن لادن کے ٹھکانے پر حملے سے ان کو جواز مل گیا کہ وہ توہین محسوس کرتے ہوئے تاثر دیں کہ وہ امریکہ سے ناراض ہیں۔ اب جبکہ افغانستان کی لہو رنگ تاریخ کا ایک اور باب بند ہورہاہے تو بہت سے معاملات پر سے غیر یقینی پن کی دھند چھٹنی شروع ہوگئی ہے۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ امریکی یہ جنگ ہار چکے ہیں تو دوسری طرف طالبا ن میں کچھ سمجھداررویے کے آثار نمایاں ہیں۔ وہ جنگ تو جیت رہے ہیں، لیکن اس پر دھڑلے سے بیان بازی نہیں کررہے ہیں ۔ دوسری طرف کرزئی حکومت بھی یہی تاثر دے رہی ہے کہ وہ امریکیوںکے جانے کے بعد اپنے قدموں پر کھڑی نہیں رہ سکے گی۔ اس ضمن میں کرزئی کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، کیونکہ حالات کی ستم ظریفی نے اُن کو ان کی اوقات سے بڑھ کر کردار سونپ دیا تھا۔ ایک کٹھ پتلی چاہے کتنا عمدہ رقص کیوں نہ کرتی دکھائی دے، اس کی ڈور کسی اورکے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے سوویت یونین نے بھی یکے بعددیگر مختلف کٹھ پتلیوں کی حکومت قائم کرنا شروع کی، لیکن وہ حالات کے سیلاب میں خس و خاشاک ثابت ہوئیں۔ اسی طرح امریکہ نے بھی جنوبی ویت نام میں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی اور اس مقصد کے لئے اُنہوںنے جنوبی ویت نام کی فوج کو تقویت دی، لیکن جب دوسال بعد اشتراکی فوج نے شمال کی طرف سے حملہ کیا تو امریکی حمایت یافتہ حکومت کے پرزے بکھر گئے۔

تاریخ خود کو ہمیشہ نہیں دہراتی ، لیکن ایک جیسے افعال ایک جیسے نتائج ہی پیش کرتے ہیں۔ افغانستان میں جو ہم دیکھ رہے ہیں، وہ یہی ہے ۔ اب امریکی خود کو اور دوسروںکو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ وہ اپنے پیچھے افغانستان میں استحکام چھوڑ کر جار ہے ہیں اور ان کی تربیت یافتہ افواج طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں،لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے، کیونکہ حقائق ان دعوو¿ں کی نفی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کابل میں تشویش کی لہر چھائی ہوئی ہے، تاہم ہمیں حامد کرزئی کی پریشانی پر محظوظ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے بھی اپنی راہوںسے بہت سے کانٹوںکو چننا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کابل میں جوبھی حکومت قائم ہو جائے، اس سے ہمارا طالبان کا مسئلہ ¿ حل نہیںہوگا۔ہمارے مسائل انتہائی گھمبیر ہیں شمالی وزیرستان میں جنگجو دستے، خود کش حملہ آوروں کی کھیپ، انتہا پسندوں کا ملک بھر میں پھیلا ہوا نیٹ ورک ، امریکیوںکی واپسی سے طالبان کے اعتماد میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں ان کی کارروائیوںمیں شدتاور کیا ہم ان مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لئے تیار ہیں؟

امریکی افواج کی واپسی سے طالبان کو پاک فوج سے ایک شکایت دور ہوجائے گی کہ یہ غیر ملکی مفا د کے لئے کام کرتی ہے اور اس سے ماحول کچھ بہتر ہوجائے گا، لیکن بنیادی مسئلہ ¿ حل نہیں ہوگا۔ دوسرے ممالک کو بھی ایسے ہی مسائل درپیش رہے ہیں، جیسا کہ روس کے سامنے چیچینا اور سری لنکا کے سامنے تامل ٹائیگرز.... تاہم وہ دوٹوک معاملات تھے، لیکن ان کے برعکس، ہمارے سامنے صورت ِ حال واضح نہیںہے .... اگر ہم طالبان سے بات کریں تو کس نکتے پر اور اگر اُن سے لڑیں تو کس عزم کے تحت؟ان سوالات کا ہمارے پاس ہنوز کوئی جواب نہیںہے۔ اس دوران ہماری قومی قیادت کچھ اور مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ وہ ہر معاملے کو اپنے مفاد کی عینک سے دیکھتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایمانداری ایک بے کیف لفظ ہو،لیکن اخلاقی رویے بھی کوئی چیز ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے آصف علی زرداری صاحب ایسی چیزوںسے عاری تھے، لیکن ان کے جانشین کیا کررہے ہیں؟ چین کے دورے میں شامل کاروباری افراد اور لاتعداد صاحبزادگان کا اپنے اپنے والد کی ہمرکابی میں سفر کرنے کی ضرورت پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، تاہم عملی طور پر جب آپ زیر ِ گردش قرضوں کی بات کریں تو یہی نام دوبارہ سامنے آئیںگے۔ مشہورروسی مصنف ٹالسٹائی نے سوال اٹھایا تھا”ایک آدمی کو کتنی زمین درکار ہوتی ہے“۔ اسلام کے اس قلعے میں یہ سوال ہنوز جواب مانگتا ہے کہ ایک آدمی کو کتنی دولت چاہیے ہوتی ہے؟

پس ِ تحریر:ایسے سوال بر محل ہوں یا نہ ہوں، یہاں ہم مذہبی فرائض سے غفلت برتنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ سپریم کورٹ کے سامنے پی ایم ایل (ن) نے چھ اگست (جس دن ستائیس رمضان المبارک ہے)کو ہونے والے صدارتی انتخابات کی تاریخ تبدیل کرانے کے لئے درخواست دائر کرتے ہوئے یہ جواز پیش کیا کہ اُس دن ارکانِ پارلیمنٹ عبادت میں اس قدر مشغول ہوں گے کہ ووٹ ڈالنے نہیں آئیںگے۔ گویا ستائیس رمضان کو یہ ملک وجود میں آسکتاہے، لیکن صدر کے لئے انتخابی عمل انجام نہیں پا سکتا، اور اس جواز پر جج صاحبان متفق ہوگئے۔” ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا “ کہ اس ریاست کی ہر چیز بگڑی ہوئی ہے، صرف مذہبی فرائض میں بال برابر فرق نہیں آسکتا۔ کون کہتا ہے کہ ہماری ترجیحات غلط ہیں!

مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔

 نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔ ٭

مزید :

کالم -