قائدین

ماضی سے حال تک دنیا میں قوموں کی اجتماعی زندگی کا جائزہ لینے سے ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قوموں کی اجتماعی ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کے پاس واضح مقاصد ہوں، جن پر بحیثیت مجموعی پوری قوم یا غالب اکثریت کا اتفاق ہو۔اس طرح کے مقاصد کی تکمیل میں ایک اہم عنصر جذبہ مزید شامل ہو جاتا ہے جو اس صورت حال میں اجتماعیت کی پیداوار ہوتا ہے اور اگر اس وقت قائدین اپنی قوم کی قیادت کا صحیح حق ادا کرتے ہوئے ایسی تحریکوں کی رہنمائی، جرات، ہمت اور ایمانداری سے کریں تو تاریخ کا رخ موڑا جا سکتا ہے اور ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جا سکتے ہیں جن پر آنے والی نسلیں اور خود تاریخ بھی فخر کرتی ہے۔کمیونزم کے زوال کے بعد دنیا نظریاتی تحریکوں سے تقریباً خالی ہو چکی تھی لیکن افغان جہاد کی کامیابی نے اسلام کے مردہ دل مایوس اور شکست خوردہ پیروکاروں میں ایک نیاولولہ، جوش اور دنیا میں پھر سے اپنا مقام بنانے کی امنگ پیدا کر دی اور افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد مغرب کے سامراجی اور ان کے ایفرو ایشیائی حلیف اس تحریک کو اپنے لئے شدید خطرہ سمجھتے ہوئے اسے دبانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مغربی سامراجیوں کے تمام ہتھکنڈے اس جذبے کو دبانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، جسکی پاداش میں استحصالی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ اور افغانستان و جنوبی ایشیا میں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے جو ہولی کھیلی ہے ایسی درندگی اس سے قبل نہ کبھی دیکھی نہ سنی، مگر جذبہ ایمانی ہے کہ قرونِ اولٰی کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔
اسلامی دنیا کے اسلام سے ناواقف حکمران بھی اس تحریک سے اسی طرح خائف ہیں جس طرح مغربی سامراجی، اور ان کے اس خوف کی وجہ سے یہ تحریک جو ملت اسلامیہ کی اجتماعی آواز ہے، کی قیادت ان نیم خواندہ مولویوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے، جو خود بھی اسلام کے آفاقی و ابدی پیغام کی روح سے مکمل واقف نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کم علم اور دنیا پرست قائدین نے جہاں جہاں ممکن ہوا، اس تحریک سے متاثرہ نوجوانوں کو اختلافی معاملات میں الجھا کر فرقہ واریت جیسی گھناؤنی کارروائیوں کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔ جو کچھ ہماری نسل نے دیکھا ہے وہ اسی دنیا پرستی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا کوئی گلی کوچہ اس فرقہ پرستی کی وبا سے محفوظ نہیں ہے۔
پچھلے 25 برس سے بالعموم اور 11ستمبر 2001ء کے واقعے کے بعد بالخصوص ساری دنیا میں اس تحریک کے بارے میں ایک عجیب سا وہم اور خوف پایا جاتا ہے جو بتدریج بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تحریک کے قائدین بھی اپنے موقف کو موثر انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت اور بعض صورتوں میں مطلوبہ جرات سے محروم ہیں، جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ ہے،جو اکثر اسلامی ممالک میں برسراقتدار ہے، مگر مغرب سے بڑھ کر اس تحریک اس جذبے کا مخالف ہے۔ یہ لوگ اس حالتِ جنگ جیسی کیفیت میں اپنے کمزور ہونے کی دلیل سے لوگوں کو مغربی طاقتوں کے خلاف بولنے سے منع کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ اپنے آقاؤں سے وفاداری نبھا رہے ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں سے بیشتر کا اقتدار مغربی طاقتوں کا ہی مرہونِ منت ہے۔
اسلامی دنیا اس قسم کی صورت حال سے پہلی دفعہ نہیں گزر رہی، بلکہ مختلف ادوار میں مسلمان اس قسم کے حالات سے نبردآزما ہوتے رہے ہیں اور جب بھی انہیں حوصلہ مند اور ایماندار قیادت میسر آئی۔ انہوں نے ہمیشہ حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیئے ہیں، جن پر مورخین آج تک حیران ہیں۔ کیا تخلیق پاکستان ایک ایسا ہی کارنامہ نہیں؟ اسلامی دنیا کی موجودہ صورت حال کا تقابل جب ہم ماضی سے کرتے ہیں تو ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے جہاں ہم میں انتشار اور ناانصافی تھی وہاں سقوطِ بغداد اور ڈھاکہ جیسے واقعات ہوئے لیکن جہاں ہم متحد اور مقصد پر متفق تھے، وہاں ایسے واقعات بھی ہوئے کہ آج تک بعیداز عقل محسوس ہوتے ہیں۔ جناب خالدؓ بن ولید کا چھوٹے سے دستے کی مدد سے تمام دن ہزاروں کے لشکر سے جنگ اور بلا نقصان واپسی یا طارق بن زیاد کا کشتیاں جلا دینا تو سب کو معلوم ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اسلامی اندلس کے آخری دنوں میں جب مسلمانوں کی حکومت صرف غرناطہ تک ہی محدود تھی اور سلطان ابوالوید غرناطہ کا حکمران تھا۔ عیسائیوں نے دو لاکھ لشکرِ جرار کے ساتھ غرناطہ پر چڑھائی کر دی۔ اس لشکر کے مقابلے کے لئے غرناطہ سے صرف ساڑھے پانچ ہزار کا لشکر دستیاب ہوا مگر جذبہ دیکھئے کہ سلطان ابوالوید نے اپنی معمولی سپاہ سے دو لاکھ فوج کو شکست دی بلکہ ایک لاکھ حملہ آوروں کو قتل کرکے سات ہزار کو جنگی قیدی بھی بنا لیا۔ 6جمادی الاول 719ھ کو ہونے والی اس جنگ میں صرف تیرہ مسلمان شہید ہوئے۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں میجر شفقت بلوچ کی کمپنی بی آر بی نہرکے پار والے علاقے کی حفاظت پر مامور تھی۔ انہوں نے کئی دن دشمن کو نہر کے پار روکے رکھا اور باوجود جدید ترین اسلحہ رکھنے والے دشمن کو شدید جانی نقصان پہنچایا اور کئی ٹینک تباہ کر دیئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاک فوج کا کوئی جوان زخمی بھی نہ ہوا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عام لوگ اور خواص اپنے اپنے افعال و کردار پر غور کریں اور خود کو اس سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں جس کی اسلام بطور دین ان سے توقع کرتا ہے بالخصوص اسلامی دنیا کے حکمرانوں اور قائدین کو یہ بات ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ عام لوگ اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔