عشق را سرمایۂ ایماں علیؓ
حضرت علامہ اقبالؒ کی شاعری کی پہلی کتاب فارسی زبان میں تھی جو 1915ء میں شائع ہوئی۔ اس کا عنوان ’’اسرار خودی‘‘ ہے۔ اس میں 19 منظومات شامل ہیں۔ ان میں گیارہویں نمبر پر ایک ایسی نظم شالم ہے جس کا عنوان ہے: ’’در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیؓ‘‘ یعنی۔۔۔ ’’حضرت علی مرتضیٰؓ کے اسمائے گرامی کی تشریح میں‘‘۔۔۔
اس فارسی نظم میں کل 60 اشعار ہیں۔ نظم کی بحر بہت مختصر، رواں اور مترنم ہے اور الفاظ و مرکبات کا استعمال نہایت سادہ اور دلنشیں ہے، لیکن ان اشعار کے معانی میں حقائق کا جو آتش فشاں دہک رہا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ایک بحر ذخارہے جو ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور جس کی تفہیم اقبال کا مطمع نظر تھی!
سطور ذیل میں اس نظم کے حصہ ء متن کے نیچے اس کا اردو ترجمہ بھی پیش قارئین ہے۔ فارسی متن دینا اس لئے ضروری سمجھا گیا ہے کہ جو قارئین فارسی متن نہیں بھی جانتے ان کو علامہ کے اشعار میں صوت و صدا کی لطف اندوزی اور نغمگی میں شریک کروں۔ ان 60 اشعار کو چھ مختلف ٹکڑوں کی صورت میں تقسیم کر کے ان کا ترجمہ (متن کے ساتھ) دے دیا ہے۔ دیکھئے حضرت علامہ نے حضرت علیؓ کے اسمائے گرامی کی شرح میں معانی و مفاہیم کے کیسے کیسے گہرہائے آبدار ڈھونڈ نکالے ہیں اور پھر ان کو ملت اسلامیہ کی اصلاح و تعمیر کے لئے کس جاں سوزی،فنکاری اور خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔
اس ترجمے کے آخر میں نظم سے حاصل شدہ اسباق (Lessons) کا ایک خلاصہ بھی پیش کر دیا گیا ہے۔۔۔ پہلے نظم کا ترجمہ (بمعہ فارسی متن) ملاحظہ کیجئے:
درشرح
اسرارِ اسمائے علی مرتضیٰؓ
فارسی متن نمبر1
مسلمِ اول شہِ مرداں علیؓ
عشق را سرمایہء ایماں علیؓ
از ولائے دودمانش زندہ ام
درجہاں مثلِ گہر تابندہ ام
نرگسم وارفتہء نظارہ ام
در خیابانش چو بو آوارہ ام
زمزم ار جوشد ز خاکِ من ازوست
مے اگر ریزد ز تاکِ من ازوست
خاکم و از مہرِ او آئینہ ام
می تواں دیدن نوادر سینہ ام
از رُخِ او فال پیغمبرؐ گرفت
ملتِ حق از شکوہش فر گرفت
قوت دین مبیں فرمودہ اش
کائنات آئیں پذیر از دودہ اش
مرسلِ حق کرد نامش بوتراب
حق یداللہ خواند در ام الکتاب
ہر کہ دانائے رموزِ زندگی ست
سرِ اسمائے علیؓ داند کہ چیستِ
ترجمہ:
حضرت علی کرم اللہ وجہ جو نابالغ مردوں میں سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور جو عشق کے لئے سرمایہ ایمان ہیں۔ میری زندگی ان کے خاندان والا تبار کی محبت کی مرہون منت ہے۔ یہ انہی کی محبت کا فیض ہے کہ میں دنیا میں ایک موتی کی طرح درخشاں ہوں۔ میری آنکھیں نرگس کی مانند ان کے مسلسل نظارے میں محو ہیں اور میری مثال اس خوشبو کی طرح ہے جو ان کے باغ میں آوارہ گھومتی رہتی ہے۔ میری خاک سے اگر زمزم کے چشمے ابل رہے ہیں اور میرے انگور کی بیل سے اگر شراب ناب ٹپک رہی ہے تو یہ سب انہی کے کرم کی بدولت ہے۔ میں تو مٹی تھا لیکن ان کے آفتاب نے مجھے اپنی ضوفشانی سے آئینہ بنا دیا اور اب اس خاک کی شفافیت کا عالم یہ ہے کہ اگر چاہیں تو میرے سینے کے اندر میری آواز کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آپؓ کی ہستی وہ تھی کہ پیغمبر آخر الزمانؐ ان کے چہرہء مبارک سے فال نکالا کرتے تھے اور یہ انہی کا جاہ و جلال تھا جس کی بدولت ملت اسلامیہ کا وقار اور ہیبت چار دانگ عالم میں پھیل گئی۔ آنحضورؐ نے انہیں دین مبین کی قوت اور عظمت کہہ کر پکارا اور ان کے خاندان سے ساری دنیا نے آئین و دستور کا سبق سیکھا۔
جناب خاتم المرسلینؐ نے انہیں بوتراب (مٹی کا باپ) کا لقب عطا فرمایا اور خود خدا تعالیٰ نے قرآن حکیم میں انہیں یداللہ (اللہ کا ہاتھ) کہہ کر خطاب کیا۔
حضرت علیؓ کے یہ سارے نام ایسے ہیں جن کی تفسیر و تشریح صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو زندگی کے اسرار و رموز کا علم ہو۔
فارسی متن نمبر2
خاکِ تاریکے کہ نامِ او تن است
عقل از بیدادِ او در شیون است
فکرِ گردوں رس زمیں پیما ازو
چشم کور و گوش ناشنوار ازو
ازہوس تیغ دورُو دارد بدست
رہرواں را ول بریں رہزن شکست
شیرِ حق ایں خاک را تسخیر کرد
ایں گِلِ تاریک را اکسیر کرد
مرتضیٰؐ کز تیغِ او حق روشن است
بوتراب از فتحِ اقلیمِ تن است
ترجمہ نمبر2:
انسان دو چیزوں کا مرکب ہے یعنی بدن اور روح۔ وہ خاک تاریک کہ جس کا نام بدن انسانی ہے اس کے مظالم اور تصرفات اس نوعیت کے ہیں کہ عقل و دانش ان سے فریاد کناں رہتی ہے۔ فکر و تدبر اگرچہ نہایت اعلیٰ و ارفع خصائص ہیں لیکن اس بدن کی وجہ سے وہ زمین کی پستی میں آباد رہتے ہیں۔ اسی بدن کی ناسمجھی اور نارسائی کے سبب آنکھیں اندھی اور کان بہرے ہو جاتے ہیں۔ تن کی ہوس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ ہوس اور لالچ کی دو دھاری تلوار ہمیشہ اس کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ یہ راہگیروں پر شب خون مارتی رہتی ہے۔ حضرت علی نے تن کی اسی خاکِ تاریک کو مسخر کر لیا اور اسے پستیء خاک سے اٹھا کر اکسیر کر دیا اور چونکہ حضرت علی نے تن کی اس سلطنت کو فتح کر لیا تھا اس لئے ان کا لقب ’’بوتراب‘‘ (یعنی خاک یا مٹی کا باپ) رکھا گیا۔
فارسی متن نمبر3:
مرد کشورگیر از کراری است
گوہرش را آبرو خودداری است
ہر کہ در آفاق گردد بوتراب
باز گرداند ز مغرب آفتاب
ہر کہ زیں بر مرکبِ تن تنگ بست
چوں نگیں بر خاتمِ دولت نشست
زیر پاش انیجا شکوہِ خیبر است
دست او آنجا قسیمِ کوثر است
از خود آگاہی یداللہی کند
از یداللہی شہنشاہی کند
ذاتِ او دروازۂ شہر علوم
زیر فرمانش حجاز و چین و روم
ترجمہ نمبر3:
حیدری اور کراری کی بدولت ممالک فتح کئے جا سکتے ہیں۔ جو کوئی بھی اس دنیا میں بوتراب بنتا ہے وہ آفتاب کو مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کروا سکتا ہے (اشارہ ہے معجزہ رجعتِ خورشید کی طرف)۔ جس کسی نے بھی اس تن کے گھوڑے پر کس کر زین باندھی اور اس کی لگامیں اپنے قابو میں رکھیں وہ سلطنت کی انگوٹھی میں ایک نگینے کی طرح فٹ ہو گیا۔ وہ ایک ایسی ہستی بن گیا کہ اس دنیا میں جس کے پاؤں کے نیچے قلعہ خیبر رکھ دیا گیا اور آخرت میں اسے حوض کوثر کا پانی تقسیم کرنے پر مامور کرنے کا شرف عطا کر دیا گیا۔ وہ چونکہ خود آگاہ ہوتا ہے اس لئے یداللہی کرتا ہے اور یہی یداللہی (دست خداوندی) اس کو شہنشاہ دیتی ہے۔ اس کی ذات شہر علوم کا دروازہ بن جاتی ہے۔ حجاز و چین اور روم جیسی عظیم سلطنتیں اس کے زیر فرمان ہو جاتی ہیں۔
فارسی متن نمبر4:
حکمراں باید شدن برخاکِ خویش
تا مئے روشن خوری ازتاکِ خویش
خاک گشتن مذہبِ پروانگی است
خاک را اب شو کہ ایں مردانگی است
سنگ شو اے ہمچو گُل نازک بدن
تا شوی بنیادِ دیوارِ چمن
از گِلِ خود آدمے تعمیر کن
آدمے را عالمے تعمیر کن
گر بناسازی نہ دیوار و درے
خشت ازخاک تو بندد دیگرے
اے ز جورِ چرخِ ناہنجار تنگ
جامِ تو فریادئ بیدادِ سنگ
نالہ و فریاد و ماتم تاکجا
سینہ کوبہیائے پہیم تاکجا
در عمل پوشیدہ مضمونِ حیات
لذتِ تخلیقِ قانونِ حیات
خیز و خلاّق جہانِ تازہ شو
شعلہ در بر کن خلیل آوازہ شو
با جہانِ نامساعد ساختن
ہست در میداں سپر اندا ختن
مرد خود دارے کہ باشد پختہ کار
با مزاج او بسازد روزگار
گر نہ سازد با مزاجِ او جہاں
می شود جنگ آزما با آسماں
بر کند بنیادِ موجودات را
میدہد ترکیبِ نو ذرات را
گردشِ ایام را برہم زند
چرخِ نیلی فام را برہم زند
می کند از قوتِ خود آشکار
روزگارِ نو کہ باشد سازگار
درجہاں نتواں اگر مردانہ زیست
ہمچو مرداں جاں سپردن زندگیست
آزماید صاحبِ قلبِ سلیم
زورِ خود را از مہماتِ عظیم
عشق با دشوار ورزیدن خوش است
چوں خلیلؑ از شعلہ گل چیدن خوش است
ممکناتِ قوتِ مردانِ کار
گردد از مشکل پسندی آشکار
حربہء دوں ہمتاں کین است و بس
زندگی را ایں یک آئین است و بس
ترجمہ نمبر 4:
اپنے تن کی حکمرانی کرنی چاہئے تاکہ اپنے انگور کی بیل سے لذیز اور مصفیٰ شراب سے لطف اندوزی حاصل کی جا سکے۔ جل کر خاک ہو جانا اور مٹ جانا پروانوں کا مذہب ہے۔ اس کے برعکس اگر تم خاک کے باپ (ابو تراب) بن جاؤ تو یہ مرد لوگوں کا مذہب ہو گا۔ تمہارا بدن تو پھول کی طرح نازک ہے۔ یہ نازک اندامی کس کام کی؟ اس تن کو پھول نہیں پتھر میں تبدیل کرو تاکہ اس سے کسی گلستان کی دیواروں کی بنیادیں اٹھائی جا سکیں۔ اپنی مٹی سے ایک نیا آدم، ایک نیا انسان بناؤ اور پھر اس آدم، اس انسان سے ایک نئی دنیا تعمیر کرو۔ اگر تم اپنی مٹی، اپنی خاک، اپنی اینٹوں سے اپنے دیوار و در نہ بناؤ گے تو دوسرے لوگ تمہاری اینٹوں کو استعمال کر لیں گے۔ تم چرخِ نابکار اور فلکِ کج رفتار کے ظلم و ستم سے تنگ کیوں ہو؟ تمہارے بلوریں جام و ساغر پتھروں سے شاکی کیوں ہیں؟ یہ نالہ و ماتم، یہ فریاد و فغاں یہ سینہ کوبی اور یہ رونا دھونا کب تک؟ دیکھو عمل اور حرکت میں زندگی کا راز پوشیدہ ہے اور لذت تخلیق قانون حیات ہے۔ اس لئے اٹھو اور ایک نیا جہان، ایک نئی دنیا تخلیق کرو۔ اپنے دامن میں شعلے بھر لو اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی طرح باطل کے شعلوں کو راکھ کر دو۔ ناموافق صورت حال کے سامنے سر تسلیم خم کرنا گویا میدان جنگ میں ہتھیار ڈال دینے کے متراف ہے۔ اگر انسان خوددار اور پختہ کار ہو تو یہ زمانہ اس کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ اگر دنیا ایسے انسان کا حکم ماننے سے انکار کر دے تو نہ صرف وہ شخص ایک نئی دنیا تعمیر کر لیتا ہے بلکہ آسمان کے ساتھ پنجہ آزمائی پر اتر آتا ہے۔ وہ ناموافق دنیا کے موجودات کی بنیادیں اکھاڑ ڈالتا ہے اور عناصر کو نئی ترکیب و تشکیل عطا کرتا ہے۔ وہ گردش ایام کو زیر و زبر کر ڈالتا ہے اور چرخ نیلی فام کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ وہ اپنی ذاتی قوت سے ایک ایسا جہان نو تشکیل دیتا ہے جو اس کے لئے سازگار ہوتا ہے ۔اور اگر دنیا میں مردانہ وار جیا نہ جا سکے تو مردانہ وار مر جانا عین زندگی ہے۔ جس انسان کے سینے میں قلب سلیم ہوتا ہے وہ اپنا زور بازو مختلف قسم کی عظیم مہمات کے ذریعے آزماتا رہتا ہے۔ مشکل اور پرمصائب حالات عشق کے لئے بہت مرغوب و محبوب ہوتے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح شعلوں کو گل و گلزار میں تبدیل کرنا کتنا کیف آگیں ہوتا ہے! مرد لوگوں کی ہمت و جرأت کی تمام اہیلتیں اور صلاحیتیں (Potentials) مشکل حالات ہی میں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ کم ہمت لوگوں کا حربہ صرف اور صرف کینہ پروری، حسد اور انتقام ہے اور ان کی ساری زندگی اسی عذاب میں گزر جاتی ہے۔
فارسی متن نمبر 5:
زندگانی قوتِ پیداستے
اصل او از ذوقِ استیلاستے
عفوِ بے جا سردئ خونِ حیات
سکتہء در بیتِ موزونِ حیات
ہر کہ در قعرِ مذلت ماندہ است
ناتوانی را قناعت خواندہ است
ناتوانی زندگی را رہزن است
بطنش از خوف و دروغ آبستن است
ازمکارم اندرونِ او تہی است
شیرش ازبہرِ ذمائم فربہی است
ہوشیار! اے صاحبِ عقلِ سلیم
درکمیں ہا می نشیند ایں غنیم
گر خردمندی، فریبِ او مخور
مثلِ حربا ہر زماں رنگش دگر
شکلِ او اہلِ نظر نشناختند
پردہ ہا بر روئے او انداختند
گاہ او را رحم و نرمی پردہ دار
گاہ می پوشد رداے انکسار
گاہ او مستور در مجبوری است
گاہ پنہاں در تہِ معذوری است
چہرہ در شکلِ تن آسانی نمود
دل ز دستِ صاحبِ قوت ربود
ترجمہ نمبر5:
زندگی درحقیقت قوت ظاہر کا نام ہے۔ زور بازو کا زوردار مظاہرہ اس کا بنیادی عنصر ہے۔ مجرموں کو بلاوجہ اور بلاجواز معاف کر دینا ،سردیء خونِ حیات کی دلیل ہے۔ یہ ایک ایسی کمزوری ہے جسے شاعرانہ اصطلاح میں زندگی کے موزوں اشعار میں سکتے یا سقم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ ناتوانی اور کمزوری کے گڑھے میں گرے ہوتے ہیں وہ اپنی اس کمزوری کو قناعت کا نام دے دیتے ہیں۔ یہ ناتوانی زندگی کی رہزن ہے اور اس محترمہ کا پیٹ خوف اور جھوٹ جیسی بیماریوں سے حاملہ رہتا ہے۔ کسی بھی احسن اور نیک صفت سے اس کا ضمیر خالی ہوتا ہے اور وہ مذموم اور بری صفات کا گوشت پوست اپنے اوپر چڑھا کر موٹی ہوتی رہتی ہے۔ اے عقل و ہوش رکھنے والے، اس حرافہ سے خبردار رہنا۔ یہ دشمن کی طرح گھات لگا کر بیٹھ جاتی ہے۔ اگر تو صاحب ہوش ہے تو اس کے فریب میں نہ آنا۔ یہ گرگٹ کی طرح ہر لمحہ رنگ بدلتی رہتی ہے۔ ہمارے اہل نظر اس کی ظاہری شکل و صورت کے باطن میں نہیں جھانکتے اور اس پر پردہ ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ ناتوانی خود بھی مختلف پردوں میں جلوہ دکھاتی ہے، مثلاً بعض اوقات یہ رحم، نرمی اور ملائمت کی پردے میں ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی عجز و انکسار کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔ کبھی مجبوری کا بہانہ تراش لیتی ہے اور کبھی معذوری کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ بعض اوقات یہ تن آسانی اور سہل کوشی کا خول اپنے چہرے پر سجاتی ہے اور صاحبانِ قوت کے ہاتھوں سے قوت چھین لیتی ہے۔
فارسی متن نمبر 6:
باتوانائی صداقت توام است
گر خود آگاہی، ہمیں جامِ جم است
زندگی کِشت است و حاصل قوت است
شرحِ رمزِ حق و باطل قوت است
مدعی گر مایہء دار از قوت است
دعویٰء او بے نیاز از حجت است
باطل از قوت پذیرد شانِ حق
خویش را حق داند از بطلانِ حق
از کُنِ او، زہر کوثر می شود
خیر را گوید شرے شر می شود
اے زآداب امانت بے خبر
از دوعالم خَویش را بہتر شمر
از رموزِ زندگی آگاہ شو
ظالم و جا ہل ز غیر اللہ شو
چشم و گوش و لب کشا اے ہوشمند
گر نہ بینی راہِ حق، برمن بخند
ترجمہ نمبر 6:
دوسری طرف ناتوانی کے مقابلے میں توانائی اور صداقت گویا دو جڑواں بہنیں ہیں۔ اگر تو ان کے مفہوم و معانی سے آگاہ ہو جائے تو جام جم یہی ہے۔ قوت اور توانائی زندگی کی کھیتی کا حاصل ہیں اور رموز حق و باطل کی گہرائی میں اتر کر ان کی تشریح کرنے والی چیز کا نام بھی قوت ہے۔ یہ قوت جس کسی کے پاس ہو اسے کسی اور دعوے اور دلیل کی حاجت نہیں رہتی۔ یہ اپنی دلیل آپ ہے۔۔۔ اور یہ نکتہ غور سے سن کہ باطل اسی قوت کو حاصل کر کے شان حق حاصل کر لیتا ہے اور اپنے آپ کو حق گردانتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اگرچہ حق کو جھٹلاتا ہے لیکن قوت کے سہارے اپنے آپ کو حق کہہ کر پیش کرتا ہے۔ اس کے احکام اگرچہ باطل ہوتے ہیں لیکن قوت کی پشت پناہی کی وجہ سے اس کا ہر حکم زہر کو چشمہ ء کوثر بنا ڈالتا ہے۔ وہ جب کسی اچھی چیز کو بری کہتا ہے تو وہ بری بن جاتی ہے۔ یہ توانائی تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے۔ اس کو سنبھالنے کے آداب ہیں اور تو ان آداب سے بے خبر ہے۔ ارے غافل، اپنے آپ کو دونوں جہانوں سے افضل تر سمجھ، زندگانی کے رموز و نکات سے آگہی حاصل کر اور تمام غیراللہ کے لئے ظالم اور جاہل بن جا۔ کان، آنکھ اور ہونٹ کھول اور پھر بھی اگر تمہیں راہ حق دکھائی نہیں دیتی تو تیرا اللہ حافظ!
تبصرہ:
اس نظم کو علامہ کے گویا سارے افکار و تصورات کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کی دو صد سالہ غلامی نے مسلمانان برصغیر کو سفید چمڑی رکھنے والوں کا جسمانی اور ذہنی اسیر بنا دیا تھا۔ وہ اپنی حقیقت، اپنے شاندار ماضی اور اسلام کے جاہ و جلال کو فراموش کر کے قناعت، انکساری، عجز، نرم خوئی، تواضع ، صلح اور عفو کو مکارمِ اخلاق سمجھ رہے تھے۔ وسط ایشیا پر منگول یلغار کے بعد عجمی تصوف کے بیج برصغیر میں بھی بوئے گئے اور یہاں کی آب و ہوا اور زمین جو سینکڑوں برسوں سے ہندو تہذیب و تمدن کی آماجگاہ تھی، انہیں بہت راس آئی اور وہ وہاں خوب پھلے پھولے۔ اس تصوف نے برصغیر میں اسلام کو افقی کثرت تو مہیا کر دی یعنی ان کی تعدا دمیں اضافہ تو ہو گیا لیکن رفعت و شوکت کی عمودی کثرت عطا نہ ہو سکی کہ اس کے لئے قناعت اور صلح جوئی کے برعکس زور و استیلاء، قوت و جبروت اور شان و شوکت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلام کی روح ہے۔ علامہ نے ایک جگہ اسی مضمون کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں ہجومِ مومنیں
علامہ نے اس نظم میں حضرت علیؓ کے اسمائے گرامی کی جو خوبصورت تشریح کی ہے وہ انہی کا حصہ تھی۔ فقر و استغنا شیر خدا کا خاصہ تھا لیکن خیبر شکنی بھی تو انہی کے ساتھ خاص تھی!
اسباق:
اس نظم میں اسباق کے بہت سے گہرہائے آبدار جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ کس کس کو لکھا جائے اور کس کس کو چھوڑا جائے۔۔۔ تاہم چند اسباق بطور خلاصہ درج ذیل ہیں:
1۔حضرت علیؓ عشق کا سرمایہ ایمان ہیں۔
2۔آنحضورؐ نے انہیں بوتراب کا لقب عطا فرمایا۔ آپ حضورؐ ان کے چہرہ سے فال لیا کرتے تھے اور انہیں قوت دین گردانتے تھے۔ خود قرآن میں انہیں ’’یداللہ‘‘ فرمایا گیا ہے۔
3۔حضرت بوتراب نے تراب (مٹی) کو فتح کر لیا تھا۔ تراب (تن خاکی) کی تسخیر گویا آفاق کی تسخیر ہے۔ ارے غافل، تمہیں بھی اس کو مسخر کر کے ساری دنیا پر حکمرانی کرنی چاہئے۔
4۔پھول کی طرح نازک بدن نہ بن، پتھر کی طرح سخت اور مضبوط بن تاکہ اس سے کسی دیوارِ چمن کی بنیاد رکھی جا سکے۔
5۔اگر تم اپنے آپ کو پتھر نہیں بناؤ گے تو کوئی دوسرا تمہاری مٹی سے پتھر بنا کر اسے اپنے مقاصد کے مطابق استعمال کرے گا۔
6۔اگر ماحول سازگار نہیں تو اسے درہم برہم کر دے اور اپنی مرضی کے مطابق ایسا ماحول تخلیق کر جو تمہارے لئے سازگار ہو۔
7۔ناموافق اور مشکل حالات میں ہمت ہار کر ماحول میں ڈھل جانا گویا میدان کار زار میں ہتھیار ڈلا دینا ہے۔
8۔اگر مردوں اور دلیروں کی طرح زندگی نہ گزار سکو تو پھر دلاوروں کی طرح جان دے دو لیکن کسی کی دھونس برداشت نہ کرو۔
9۔تمہاری پوشیدہ صلاحیتیں (Potentials) ناسازگار ماحول ہی میں کھل کر سامنے آتی ہیں۔
10۔کینہ پروری، حسد اور نفرت کم ہمت لوگوں کا شیوہ ہے۔
11۔بے وجہ کسی مجرم کو معافی دے دینا اور بے سبب کسی دشمن کے ساتھ عفو و درگزر سے کام لینے کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے سینے میں گرم خون باقی نہیں رہا۔
12۔بعض بے وقوف کمزوری کو قناعت سمجھ لیتے ہیں۔
13۔کمزوری اور ناتوانی زندگی پر ڈاکہ ڈال کر اس کا سب کچھ چھین لے جاتی ہے۔
14۔کمزوری ہر وقت انسان کی گھات میں لگی رہتی ہے اس لئے اس ’’قاتل حسینہ‘‘ سے خبردار رہنا چاہئے۔
15۔کمزوری گرگٹ کی طرح مختلف رنگوں اور رویوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ نرم دلی، رحم، انکساری، معذوری اور مجبوری سب کے سب اس گرگٹ کے مختلف روپ ہیں۔
16۔قوت اور اقتدار جسے بھی حاصل ہو جائے وہ اس کا استعمال کر کے اپنی صداقت منوا لیتا ہے۔
17۔اگر کسی باطل پرست کو اقتدار مل جائے تو وہ اپنی باطل پرستی کو عین حق پرستی ثابت کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔
18۔جب تک دونوں جہانوں میں اپنے آپ کو ’’بہترین‘‘ شمار نہیں کرو گے اس وقت تک اقتدار کی امانت کا حق ادا نہیں کر سکو گے۔
19۔تمام باطل پرستوں، حق ناشناسوں اور غیر اللہ کے ماننے والوں کے لئے ظالم بھی بنو اور جاہل بھی۔ یعنی ان کو ختم کرنے اور کچلنے میں کسی مصلحت، کسی ملائیمت اور کسی رواداری کا مظاہرہ نہ کرو۔