چنی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں
اللہ کپتان کو نظر بد سے بچائے آہستہ آہستہ وہ وزیر اعظم سے ایک لیڈر کے طور پر سامنے آرہے ہیں،ایک بہادر غیور لیڈر کے طور پر امریکہ کو جو وہ کہہ رہے ہیں کاش پہلے کسی وزیر اعظم نے اس طرح کی جرات مند انہ بات کی ہوتی ماضی کو ”پھولیں“ تو اس میں سے بزدل لیرو لیر قیادت ہی سامنے آتی ہے۔شکر یہ ہے کچھ وزرائے اعظم انڈر ویئر ریگولر پہنتے تھے ورنہ امریکی ایئرپورٹ پر کوئی اچھی ویڈیو سامنے نہ آتی۔اللہ کپتان کی حفاظت فرمائے مجھے تو ذوالفقار علی بھٹو یاد آرہے ہیں۔جب امریکہ نے اپنے گود لئے ”ڈّڈوچارجروں“کو میدان میں اُتاراتو بھٹو صاحب اکیلے رہ گئے اور پھائے لگ گئے۔قوم لیڈروں سے بہادری مانگتی ہے اور اپنی باری پر تھوڑی سی جو پی لی ہے کہہ کر ”انٹا غضیل“ ہو جاتی ہے۔عمران خان درست کہتے ہیں کاٹھے انگریزوں کی نقالی کرنے سے سافٹ امیج نہیں بنتا۔بھلا شاہ،وارث شاہ،میاں محمد بخش سے زیادہ سافٹ امیج کون سامنے لا سکا۔انگریز برصغیر میں جب انہی جیسی پینٹ اور ہیٹ پہننے والوں کو بابون صاحب کہتے تو کاٹھے انگریز اور فخر سے اپنی گیلس کی لاسٹک پٹاخ پٹاخ اپنے ”ڈ ڈھ“پر مارتے۔بعد میں پتہ چلا بابون اس باندر کو کہتے ہیں جو نقالی میں ماسٹر ہوتا ہے۔افسوس ماضی کے حکمران اقتدار میں آکر سافٹ امیج کے چکر میں ننگے ہو کر ناچتے،سر پر بوتلیں رکھ کر ڈانس کر کے اپنی ٹھرک پوری کرتے رہے۔بھلا دوسرے کی برابری کے چکر میں اپنا منہ چپیڑاں مار کے لال کرنا کہاں کا سافٹ امیج ہے۔سنتا سنگھ گوشت لینے قصاب کے پاس گیاقصاب نے اپنا سافٹ امیج بناتے ہوئے کہاکہ بھائی جان گوشت لینے آئے ہیں،سنتا سنگھ بولا نہیں میں تہاڈے کول بکرے دی موت تے تعزیت کرن آیاں۔بھیا میرے سیدھی سیدھی بات کرو امریکہ کو اڈے دیں گے نہ کرائے کے ٹٹو بنیں گے۔بڑی ہو گئی ہر باری کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑے بارہ آنے نہیں ہو گا۔ہم نے بڑی چٹّی برداشت کر لی،وٹّی کے بعد اب کٹھی کا وقت ہے۔اب ہمارا اقوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ہی سافٹ امیج ہو گا،ہم دنیا کے کانے نہیں ہیں۔فواد چودھری جس طرح حکومتی میڈیا میں اصل سافٹ امیج پر کام کر رہے ہیں ”پینڈا تھوڑا اوکھا“ضرور ہے لیکن عزم مضبوط ہو تو بندہ منزل کی طرف دو گام چلتا ہے اور منزل ”پھڑک“ کے سامنے آجاتی ہے۔فواد چودھری وزرات سائنس میں گئے تو وہاں انہوں نے جنگل میں منگل کر دیا۔آج ہم وینٹی لیٹر اپنا بنا رہے ہیں،ویکسین اپنی بن گئی،رویت ہلال کی ”آئی سائٹ“ بہتر ہو گئی۔اب قوم کہتی ہے ”چن چن دے سامنے آگیا میں دوہاں تو صدقے جاں“۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین گج وج کے میدان میں آگئی ہے ہمارا یقین ہے کہ سرکاری میڈیا کے ذریعے ہم اصل بیانیہ سافٹ امیج کی شیروانی پہن کر کبھی دھوتی کرتہ پہن کر کبھی اجرک سر پہ رکھ کر میدان میں آئے گا۔
حیرت ہے فیٹف پر وہ لوگ بھی اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں جنہیں بازار سودا خریدنے بھیجیں تو بیگم پرچی پر سودا اور پیسے لکھ کر دیتی ہے۔مریم بی بی کا غصہ تو چلو سمجھ میں آتا ہے انہوں نے تو حکومت پر کچیچیاں وٹنی ہی ہیں۔لیکن یہ جو فیٹف کا ”دھوم چڑکڑا سائیاں دا“چل رہاہے ماضی میں اس کے ”کتن والے“کون تھے۔فیٹف نے جن الزامات پر پاکستان کو جکڑ جمبو لگایا ہے وہ پچھلے کئی دہائیوں کے چن تھے جو فیٹف کی شکل میں چڑھے۔بنتا سنگھ نے سنتا سنگھ سے کہا یار نیوٹن کا تیسرا قانون کیا ہے؟،سنتا سنگھ بولا یار تجھے پتہ ہے میں سائنس کا طالبعلم ہوں تو کسی قانون کے طالبعلم سے یہ سوال پوچھ لے۔چلو مریم بی بی کو تو سمجھ آتا ہے وہ بڑی میاں ہیں لیکن چھوٹی میاں مریم اورنگزیب بھی عزیز میاں قوال اور ہمنوا بن جاتی ہیں۔آپا جی آپ سائنس کی طالبعلم ہیں بھلا آپ کو نیوٹن کے تیسرے قانون کا کیا پتہ۔کاش ماضی میں ہم اپنی ”منجھی تھلے ڈانگ“پھیرتے رہتے تب تو ہمیں کان میں تیلا پھیرنے سے فرصت نہیں تھی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکمرانوں کے گرد ہمیشہ ”چنی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں“چلتی رہیں اور غریب عوام ”بنو رانی بڑی دلگیر وے،کندھا ڈولی نوں دے جائیں ویر وے“گاتے رہے اور ویر بچارے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہے
۔یہ قانون،یہ آئین،یہ انصاف کا نظام بھی ان کے لئے ”وے سب توں سوہنیا ہائے وے من موہنیا“گاتا رہا۔وہ کھا پی کر ڈکار مار کر ”اُڈ دا دوپٹہ میرا ململ دا“گاتے اُڈ کے باہر کی ٹھنڈی فضاؤں میں جا بیٹھے اور وہاں سے سے عوام کو انقلاب کے نام پر”نیٹرے آ ظالما وے میں ٹھر گئی آں“گاتے رہے۔خیر اب زمانہ بدل رہا ہے وہ وقت گئے جب خلیل خان فاختائیں اُڑایا کرتے تھے اب تو ان کاکہنا ہے کہ ’کاں وی نیں“مانتے ”کاں وی سیانے“ہو گئے ہیں۔