خطبہ حجة الوداع؛انسانی حقوق کا کامل منشور
حافظ کریم اللہ چشتی
خطبہ حجة الوداع کواسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔خطبہ حجة الوداع بلاشبہ انسانی حقوق کااوّلین اورمثالی منشور ہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی،قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کا کوئی شائبہ تک نظرنہیں آتا۔
ارشادباری تعالیٰ ہے۔(ترجمہ)”آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیااورتم پراپنی نعمت پوری کردی اورتمہارے لئے اسلام کو دین پسندکیا“۔(پارہ6،سورة المائدة آیت3)
ذی قعدہ 10ہجری میں آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کاارادہ کیایہ حضور ﷺکاآخری حج تھا۔ اسی حوالے سے اسے ”حجة الوداع“ کہاجاتاہے ۔یہ ابلاغ اسلام کی بناءپر”حج الاسلام“اور”حج البلاغ“کے نام سے بھی موسوم ہے۔ اس حج کے موقع پرسرکارِمدینہ ﷺنے جو خطبہ ارشادفرمایا اسے خطبہ حجة الوداع کہتے ہیں ۔ 8ذی الحجہ ترویہ کے دن آپ ﷺمنیٰ تشریف لے گئے وہاں 9ذی الحج (یوم عرفہ) کی صبح تک قیام فرمایا۔ ظہر،عصر، مغرب،عشاء،فجرکی نمازیں وہی پڑھیں پھراتنی دیروہاں توقف فرمایاکہ سورج طلوع ہوگیااس کے بعد آپﷺ منٰی سے عرفات تشریف لائے(عرفات میں قیام حج کا رکن اعظم ہے اگریہاں قیام نہ ہوگاتوحج ادانہیں ہوگا)وہاں وادی نمرہ میں آپﷺ کے لئے قُبہ لگاہواتھاآپ اسی میں استراحت فرماہوئے جب سورج ڈھل گیاتوآپﷺ کے حکم سے قصوا ءاونٹنی پرکجاواکساگیااورآپﷺ قصواءاونٹنی پرسوار ہوکر بطن وادی میں تشریف لے گئے اس وقت آپﷺ کے گرد1 لاکھ 44 ہزارانسانوں کاسمندر ٹھاٹھیں ماررہاتھاآپﷺ نے انکے سامنے ایک جامع خطبہ ارشادفرمایا ۔
آپ ﷺنے اللہ پاک کی حمدوثناءکرتے ہوئے خطبہ کی ابتداءیوں فرمائی ۔”اللہ پاک ایک ہے اسکے سواکوئی معبودنہیں اسکاکوئی شریک نہیں ۔اللہ پاک نے اپنا وعدہ پوراکیااس نے اپنے بندے(محمدرسول اللہﷺ)کی مددفرمائی اورتنہااسکی ذات نے باطل کی ساری مجتمع قوتوں کوزیرکیا"۔
”لوگو!میری بات غورسے سن لومجھے نہیں معلوم کہ تم سے اس سال کے بعداس مقام پرکبھی مل سکوں یانہیں ۔لوگو!اللہ تعالیٰ کاارشاد پاک ہے کہ اے انسانو! ہم نے تم سب کوایک ہی مردوعورت سے پیداکیاہے اورتمہیں جماعتوں اورقبیلوں میں بانٹ دیاہے کہ تم الگ الگ پہچانے جاسکو،تم میں سب سے زیادہ عزت وکرامت والااللہ پاک کے نزدیک وہ ہے جواللہ پاک سے سب سے زیادہ ڈرنے والاہو“۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”نہ کسی عربی کوعجمی پرکوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کوعربی پر،نہ کالاگورے سے افضل ہے اورنہ گوراکالے سے، ہاں بزرگی اورفضیلت کامعیارہے تو تقویٰ ہے۔ سب انسان آدمؑ کی اولادہیں اورآدمؑ مٹی سے بنائے گئے ،اب فضیلت وبرتری کے سب دعوے،خون مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاﺅں تلے دفن اورپامال ہوچکے ہیں۔ پس بیت اللہ کی تولیت اورحاجیوں کوپانی پلانے کی خدمت باقی رہے گی“۔
آپ ﷺ نے فرمایاکہ ”اے لوگو!ایسانہ ہوکہ اللہ پاک کے پاس تم ایسے آﺅکہ تمہاری گردنوں پرتودنیاکابوجھ لداہواہو،اوردوسرے لوگ سامان آخرت لے کرپہنچیں اوراگر ایسا ہوا تومیں اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا“۔
آپ ﷺ نے فرمایاکہ”اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تمہاری جھوٹی نخوت کوختم کرڈالااورباپ داداکے کارناموں پرتمہارے لئے فخرومباہات کی کوئی گنجائش نہیں ۔اے لوگو!تمہارے خون ، مال اورتمہاری عزتیں ایک دوسرے پرہمیشہ اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی ،اس ماہ مبارک( ذی الحج) کی اور اس شہر(مکہ)کی حرمت قائم ہے، تم سب نے اللہ تعالیٰ کے پاس جاناہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے اعمال کے بارے میں تم سے پوچھناہے۔ خبردار! میرے بعدگمراہ نہ ہوجاناکہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاﺅاگرکسی کے پاس امانت رکھی جائے تووہ اسکاپابندہے کہ امانت رکھوانے والے کوامانت واپس دے دے“۔
آپ ﷺ نے فرمایاکہ ”لوگو!ہرمسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے اورسارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو ،ان کا خیال رکھواورانہیں وہی کھلاﺅجوتم خودکھاتے ہو۔ایساہی پہناﺅجوتم خودپہنتے ہو،جاہلیت کی ہربات کومیں اپنے پاﺅں تلے روندتاہوں۔ جاہلیت کے قتل وخونریزی کے تمام جھگڑوں کاملیامیٹ کرتاہوں، پہلاخون میرے خاندان کاہے یعنی ابن ربیعہ بن الحارث کا،میں اسے چھوڑتاہوں۔دورجاہلیت کاسودختم کردیاگیا“۔
آپ ﷺ نے فرمایاکہ”لوگو!اللہ تعالیٰ نے ہرحقدارکواُسکاحق دے دیا ۔حساب وکتاب اللہ تعالیٰ کے ہاں ہوگا۔قرض قابل واپسی ہے ،ادھارلی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے، تحفے کابدلہ دیناچاہیے اورجوکوئی کسی کاضامن ہووہ تاوان اداکرے، کسی کے لئے یہ جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے سوائے اسکے جس پراسکابھائی راضی ہواور خوشی خوشی اسکودے دے، تم خودایک دوسرے پرزیادتی نہ کرو“۔
ہاں اے لوگو!عورتوں کے بارے میں اللہ پاک سے ڈروکیونکہ تم نے انہیں اللہ پاک کے نام پرحاصل کیااوراسی کے نام پرتمہارے لئے حلال ہوئی عورت کے لئے یہ جائزنہیں کہ وہ اپنے شوہرکامال اسکی اجازت کے بغیرکسی کودے ۔تم پرتمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں ۔عورتوں کے بارے میں خداسے ڈرنااور میں تم میں ایسی چیزچھوڑے جارہاہوں کہ اگرتم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھاتواسکے بعدہرگزگمراہ نہ ہوگے اوروہ ہے اللہ پاک کی کتاب، ہاں یادرکھنا،دینی معاملے میں حدودسے تجاوزنہ کرناکہ تم سے پہلے لوگ انہی کے سبب ہلاک ہوئے “۔
”لوگو!شیطان کواب اس بات کی کوئی توقع نہیں رہ گئی کہ اس کی اس شہرمیں پیروی کی جائے لیکن اس کاامکان ہے کہ ایسے معاملات جن کوتم کم اہمیت دیتے ہو،اس کی بات مان لی جائے اوروہ اس پرراضی ہواس لئے تم اس سے اپنے دین اورایمان کی حفاظت کرنا“۔
لوگو!حرمت والے مہینے کوآگے پیچھے کرناکفرمیں اضافہ کرتاہے ،اس سے وہ لوگ اوربھی گمراہ ہوتے ہیں جوکافرہیں اورجوایک سال اُسے حرام رکھتے ہیں اوردوسرے سال حلا ل کرلیتے ہیں۔ تاکہ یہ کافرلوگ اللہ پاک کے حلال کیے ہوئے مہینوں کی گنتی پوری کرلیںاس طرح یہ اللہ پاک کی حرام کی ہوئی چیزوں کوحلال اورحلال کی ہوئی چیزوں کوحرام قراردیتے ہیں“۔
”لوگو!یادرکھومیرے بعدکوئی نبی نہیں اورتمہارے بعدکوئی امت نہیں لہٰذااپنے رب تعالیٰ کی عبادت کرو،پانچ وقت کی نمازاداکرو،سال بھرمیں ایک مہینہ (رمضان)کے روزے رکھو،اپنے مال کی زکوٰة خوش دلی سے اداکرتے رہو،اللہ پاک کے گھرکاحج کرو،اپنے اہل امرکی اطاعت کروتوتم اپنے رب تعالیٰ کی جنت میں داخل ہوجاﺅ گے“۔
”لوگو!اورتم سے میرے متعلق اللہ پاک قیامت کے دن پوچھے گابتاﺅتم کیاجواب دوگے؟صحابہ کرامؓ نے عرض کیاہم شہادت دیںگے کہ آپﷺ نے تبلیغ کردی اللہ پاک کاپیغام پہنچادیااورخیرخواہی کاحق اداکردیایہ سن کرآپﷺ نے شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھاتے اورلوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے فرمایا"اے اللہ پاک!گواہ رہنا،گواہ رہنا"۔
اس خطبے میں آپﷺ نے کئی اموربیان فرمائے اورجب فارغ ہوئے توسورة المائدة کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔(ترجمہ)"آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیااورتم پراپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسندکیا"۔
خطبہ دینے کے بعدآپﷺ نے حضرت بلالؓ فرمایا"اذان پڑھو"۔حضرت بلالؓ نے اذان پڑھی توحضور اکرم ﷺ نے ظہراور عصرکی نمازیں دونوں ملاکرپڑھائیں پھرآپ ﷺنے دعافرمائی یہ دعااتنی طویل تھی کہ سورج غروب ہوگیا۔غروب آفتاب کے بعدآپﷺ اونٹنی پرسوارہوئے اورواپس مزدلفہ تشریف لائے مزدلفہ میں مغرب اورعشاءکی نمازیں ملاکرپڑھائیں۔ صبح کی نمازاوّل وقت میں ادافرمائی اورمشعرالحرام کے پاس آکردعافرمائی حتیٰ کہ سورج نکلنے کے قریب ہوگیا۔حضو رﷺنے حضرت فضل بن عباسؓ ے فرمایاکہ کنکریاں چن لو،انہوں نے 7 کنکریاں حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیں۔نشیب میں جمرة العقبٰی کوکنکرمارنے کے لئے قیام فرمایااور تکبیرپڑھتے ایک ایک کرکے کنکریاں پھینکیں۔حضرت اسامہ بن زیدؓاورحضرت بلالؓ سے جوقریب حاضرتھے، فرمایاسیکھ لو،شایدآئندہ سال میں حج نہ کرسکوں۔ یہاں پر حضور ﷺنے پھرایک مرتبہ خطبہ دیاجس میں قربانی کے فضائل ،طریقہ اور احکام بیان فرمائے۔پھر آپﷺ پہاڑکے دامن میں تشریف لائے اورقربانی فرمائی، 63اونٹ حاضرتھے۔ قربانی کے بعدآپﷺ نے حضرت علی المرتضیٰؓ ے فرمایاکہ قربانی کی کھال مساکین میں تقسیم کردو۔
خطبہ حجة الوداع کے اہم نکات
٭انسانی جان،مال ،عزت وآبرو،اولادکاتحفظ٭امانت کی ادائیگی٭قرض کی واپسی اورجائیدادکے تحفظ کاحق،سودکے خاتمے کاتاریخی اعلان ٭پُرامن زندگی اوربقائے باہمی کاحق٭ملکیت،عزت نفس اورمنصب کے تحفظ کاحق٭انسانی جان کاتحفظ،قصاص ودّیت ٭قانونی مساوات کا حق،نسلی تفاخراورطبقاتی تقسیم کاخاتمہ٭غلاموں کے حقوق کاانقلابی اعلان٭عورتوں کے حقوق کاتاریخی اعلان کیا۔
خطبہ حجة الوداع کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ جس شہراورجس خطے میں پہلے آنحضرت ﷺ کے رشدوہدایت کے پیغام کولوگوں نے جھٹلایاتھااب اسی شہرمیں1 لاکھ 44 ہزارسے زائدافرادآقا ﷺکاخطبہ سن رہے تھے۔ تاریخ سازخطبے میں کئے گئے تمام اعلانات، ہدایات اورتعلیمات پرحضور ﷺکی حیات طیبہ میں ہی عمل کیاگیا۔
اللہ رب العزت ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے، بروزمحشرسرکارِمدینہ کی شفاعت نصیب فرمائے ۔آمین