آئیے اپنا گھر خود سنواریں
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بین الاقوامی محکمہ کے وزیر لیو جیاں چاؤ اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان آئے اور انہوں نے اسلام آباد میں ہونے والے پاک چین مشاورتی میکنزم اجلاس میں ہمیں یاد دلایا کہ ترقی کے لیے اندرونی استحکام ضروری ہے اور یہ کہ سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے سیکورٹی صورت حال کو بہتر بنانا ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں سیکورٹی کی صورت حال بہتر ہو گی تو ہی تاجر یہاں سرمایہ کاری کریں گے۔ ان کی باتوں سے ہمیں یاد آیا کہ ملک میں سیکورٹی کی صورت حال بہتر بنانے کی کس قدر اشد ضرورت ہے‘ چنانچہ وزیر اعظم نے سرمایہ کاری اپیکس کمیٹی کا ہفتہ کے روز بلایا گیا اجلاس موخر کر دیا اور قومی ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کر لیا جس میں ملک کی سیکورٹی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں مکمل قومی اتفاق رائے کے ساتھ نظام کی وسیع ہم آہنگی پر قائم ہونے والی انسداد دہشت گردی کی ایک جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا‘ اور اتفاق رائے سے آپریشن عزم استحکام کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی گئی۔ علاوہ ازیں وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا جس میں طے کیا گیا کہ چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی پلان کی ہر سطح پر مانیٹرنگ کی جائے گی۔ یاد رہے کہ امسال 26 مارچ کو خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی ایک مسافر گاڑی سے ٹکرا دی جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس گاڑی میں چینی شہری سوار تھے۔ اس واقعہ پر چین نے پاکستان سے احتجاج کیا اور سیکورٹی کی صورت حال بہتر بنانے پر زور دیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین کے دوران بھی یہی نکتہ سامنے رکھا گیا تھا۔ نیا آپریشن اسی ضرورت کے تحت کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے جب عزم استحکام کے نام سے مسلح شدت پسندی کے خلاف ایک نئے آپریشن کا اعلان کیا گیا تو حزب اختلاف سمیت خیبر پختونخوا کے قبائلی عمائدین نے بڑے پیمانے پر اس مخالفت کی جس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ آپریشن کی نوعیت اور شدت کیا ہو گی۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس اعلان پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا گیا‘ تاہم منگل کے روز وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ایک وضاحت جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ ملک کے پائیدار امن و استحکام کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ وژن جس کا نام عزم استحکام رکھا گیا ہے، کو غلط سمجھا جا رہا ہے اور اس کا موازنہ ضرب عضب اور راہ نجات جیسے گزشتہ مسلح آپریشنوں سے کیا جا رہا ہے۔ واضح کیا گیا کہ گزشتہ مسلح آپریشن ان علاقوں میں کیے گئے جہاں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا تھا‘ لیکن اب ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے۔ آپریشن عزم استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلیجنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے تاکہ دہشت گردوں کی باقیات، انتہا پسندوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ان کی سہولت کاری اور ملک میں پُر تشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے کیونکہ اسی طرح ملک کی معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا۔ بڑی اچھی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا ادراک ہو گیا کہ اقتصادی ترقی کے لیے پائیدار امن کا قیام ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ بطور پاکستانی کیا ہمیں ازخود یہ علم نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارا ملک اسی وقت ترقی کرے گا جب یہاں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری فروغ پائے گی۔ زراعت ترقی کرے گی اور صنعتوں کا پہیہ 24 گھنٹے گھومے گا تو ہی ہم درآمدات سے زیادہ برآمدات کر سکیں گے اور تبھی ہماری معیشت مستحکم ہو گی‘ ہم اقتصادی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکیں گے۔ خدمات کا شعبہ پُر عزم ہو گا اور رشوت و کرپشن پر قابو پایا جائے گا تو ہی معاشرتی تفاوت میں کمی آئے گی اور سماجی ہم آہنگی بڑھ سکے گی‘ اور یہ سب اسی وقت ممکن ہو گا جب داخلی سطح پر استحکام ہو گا‘ امن ہو گا‘ سکون ہو گا اور سیاسی معاملات ہموار انداز میں چل رہے ہوں گے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسے کسی اقدام کے لیے ہمیں چینی وزیر کی جانب سے یاد دلانے کا انتظار کیوں کرنا پڑا؟ کیا ہمیں خود یہ علم نہیں ہونا چاہیے کہ اقوام عالم میں سر اٹھا کر چلنے کے انداز اور طریقے کیا ہوتے ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ کئی مسلح آپریشن کیے گئے‘ کئی بار منصوبہ بندی کی گئی‘ اور عملی اقدامات ہوئے پھر بھی معاملات کو اس حد تک نہ سلجھایا جا سکا‘ جس حد تک سلجھائے جانے کی ضرورت تھی۔ دہشت گردی کی وجہ سے ہمیں 80 ہزار سے زیادہ قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ جو اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا وہ اس پر مستزاد۔ ہمیں تو ہر دم الرٹ رہنا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ دسمبر 2014ء میں پشاور آرمی سکول کا سانحہ پیش آیا تھا۔ تب ملک کے سب سٹیک ہولڈر مل بیٹھے تھے اور نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا تھا تو امید بندھی تھی کہ اب دہشت گردی کے عفریت سے مکمل نجات مل جائے گی‘ لیکن افسوس اس پلان پر بھی اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہ کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم آج بھی ملک میں امن و سکون کے حوالے سے ایک دو راہے پر کھڑے ہیں‘ اور آج بھی خیر خواہ اور ویل ویشر ہمیں بتا رہے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانی ہے تو داخلی استحکام کو یقینی بنائیں اور ہم ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ کیا کریں۔ ضروری ہے کہ ایک ہی بار طے کر لیا جائے کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا اور پھر اس پر کاربند رہتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ آپریشن کرنا ہے تو ضرور کریں لیکن اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ عوام کو اس سے پریشانی نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ اسے جلد جلد پایا تکمیل کو پہنچایا جائے تاکہ ملک اور معاشرے میں پائیدار امن قائم ہو سکے اور ملک کو ترقی دینے کا جو خواب ہم عرصہ دراز سے آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں وہ متشکل کرنے کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔