دیارِ غیر میں وطن کی یادیں!
جب بیرون ملک سفر ہو تو مختلف ممالک میں پاکستانی احباب کے علاوہ دیگر ممالک کے کئی دوست جو پہلے سے واقف ہوتے ہیں، مل جاتے ہیں۔ ان سے مل کر جو خوشی جانبین محسوس کرتے ہیں اسے شاید الفاظ میں بیان نہ کیا جاسکے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملاقات میں پہلی بار تعارف ہوتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سالوں پرانا دوستانہ ہے۔ ہر شخصیت کی اپنی خوبیاں ہوتی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’مومن الفت کرتا ہے اور اس سے الفت کی جاتی ہے۔
‘‘ یہ فرمان نبوی اخلاقی تعلیم کا بہترین مرقع ہے۔ برطانیہ کے ایک سفر میں بھارت سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رکن اور مشہور مصنف و نعت گو جناب تابش مہدی میرے ساتھ کئی شہروں میں شریک سفر تھے۔
ہم برمنگھم میں تھے اور یہ ماہ رمضان تھا۔ برمنگھم میں کچھ دنوں کے قیام اور پروگراموں کے بعد ہمیں پریسٹن روانہ ہونا تھا۔ سفر پر روانہ ہونے سے قبل افطار اور نماز سے فارغ ہوئے اور بھاگم بھاگ ریلوے سٹیشن پہنچے۔
چونکہ برمنگھم سے ورجن ٹرین رات نوبج کر بیس منٹ پر روانہ ہورہی تھی، اس لئے افطار کے بعد ہمارے پاس بہت کم وقت تھا۔ مفتی فاروق صاحب اور ریاض صاحب نے بڑی عقل مندی کا مظاہرہ کیا کہ ہمیں الگ افطار کا موقع فراہم کردیا اور کھانا اس ہدایت کے ساتھ پیک کردیا کہ ٹرین میں جاکر آرام سے کھالینا۔
یہ آئیڈیا ہماری اپنی خواہش کے مطابق بھی تھا لیکن ہم نے از راہِ مزاح اپنے میزبانوں سے کہا کہ آپ نہیں چاہتے کہ ہم آپ کے سامنے کھانا کھائیں تو ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔
مجھے اور تابش مہدی صاحب دونوں کو اکٹھے ہی پریسٹن روانہ ہونا تھا۔ افطار کے بعد علما کے مشورے سے ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرلیں کیونکہ منزل مقصود پر پہنچنے کے وقت تک عشاء اور تراویح ہوچکی ہوتی۔
جمع بین الصلوٰتین کی سہولت سفر کے دوران اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کے لئے اسی طرح صدقہ ہے جس طرح سفر میں قصر نماز کوصدقہ قرار دیا گیا ہے۔
نماز کے بعد مفتی فاروق صاحب اور ریاض محمدصاحب ہمیں ریلوے اسٹیشن لے گئے۔ ہم سوا نو بجے ریلوے اسٹیشن پہنچے اور اپنی گاڑی کا نام اور پلیٹ فارم نمبر دیکھ کر متعلقہ پلیٹ فارم پر پہنچ کر ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ ٹرین ٹھیک اسی وقت پلیٹ فارم پر آلگی جب ہم وہاں وارد ہوئے۔ نو بج کر بیس منٹ پر ورجن ٹرین چل پڑی۔
لمبے دن کا روزہ ٹھنڈے موسم کی وجہ سے پیاس کا احساس تو نہیں ہونے دیتا تھا مگر بھوک لگ جاتی تھی۔ کھانے کے بکس کھولے اور ہم دونوں مسافر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ یہ دو آدمیوں کا کھانا ہے یا پانچ آدمیوں کا۔
ہمارے برابر کی نشست پر ایک انڈین نوجوان بیٹھا تھا۔ ہم نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی اور اس نے بھی اپنے پسند کے کچھ آئٹمز لئے ۔ بہرحال کوشش کے باوجود ہم سے لوازمات کا بیس پچیس فیصد حصہ ہی سمیٹا جاسکا۔
باقی ہم نے پیک کرکے اسی ٹیبل پر رکھ دیا۔ جب ٹرین کا عملۂ صفائی آیا تو میں نے انھیں کہا کہ ان ڈبوں میں لذیذ پاکستانی کھانا موجود ہے۔ اگر آپ برا نہ منائیں تو استعمال کرسکتے ہیں۔
عملہ صفائی نے مسکرا کر ہمارا شکریہ ادا کیا۔ یہ معلوم نہیں کہ پھر ان ڈبوں کے ساتھ انھوں نے کیا سلوک کیا۔ بہرحال وہ میزیں صاف کرکے یہ ڈبے اٹھا کر لے گئے۔
تابش مہدی صاحب بھارت میں ٹرین کے نظام اور اس کے محاسن کے بارے میں تفاصیل بتا رہے تھے۔ جو بھی بھارتی مسلمان کبھی ملتے ہیں، وہاں کی ٹرین سروس کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔
محترم مولانا احسن مستقیمی صاحب نے تو ایک مرتبہ اپنے ریلوے نظام کی اتنی تعریف کی کہ جی چاہا ان کے ساتھ ہی انڈیا کا چکر لگا آؤں مگر انڈیا جانا راقم کے لئے کئی وجوہات سے خاصا مشکل ہے۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد بھارت نے جن شعبوں کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان کی سروس میں مزید بہتری پیدا کی، ان میں ٹرین سروس سرفہرست ہے۔ تابش مہدی صاحب کی پیش کردہ اس حسین تصویر کے سامنے مجھے وطن عزیز کا تباہ شدہ ریلوے نظام پیش کرتے ہوئے خاصی خفت محسوس ہوئی۔
عام معاشی صورت حال کے بارے میں یہ معلومات ملتی رہتی ہیں کہ بھارت میں غربت ہم سے کم نہیں، زیادہ ہے مگر قومی ترقی کے لئے بھارتی حکومتوں نے بڑی سنجیدہ کوشش کی ہے۔
ان کے ارباب حل وعقد چین کی ابھرتی ہوئی قوت کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، اس لئے مختلف شعبوں میں اپنے ملک کو انھوں نے خاصا مستحکم کیا ہے۔ تابش صاحب کے بقول بجلی کی صورت حال بھی ہم سے بہت بہتر ہے۔
آخر کیوں نہ ہو، سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے ذریعے ہمارا سارا پانی چوری کرکے بھارت نے ہمارے ہردریا پر بیسیوں غیرقانونی وغیراخلاقی ڈیم اور بیراج بنا رکھے ہیں۔ اس کے باوجود مہدی صاحب کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار بجلی کی قلت کا سامنا وہاں بھی کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک انفرادی بدعنوانی کا تعلق ہے اس میں بھارت بھی ہم سے کم نہیں مگر مجموعی طور پر اداروں کو کھوکھلا کرنے کے بجائے انھیں مستحکم کرنے اور سہارا دینے کی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔
بھارت کے ایک بڑا ملک ہونے کے باجود پاکستان نے اب تک جس طرح اس کا مقابلہ کیا ہے، اس میں محب وطن پاکستانی عوام اور اسلام دوست قوتوں بالخصوص حریت پسند کشمیریوں کا بڑا کردار ہے۔
پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا بھی ایک قابلِ فخر کارنامہ ہے۔ جب ہم اپنے ملی مفاد کو مجروح ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو پھر بھارتی دوستوں کے سامنے ہمارے پاس آجاکے یہی ایک دلیل رہ جاتی ہے کہ ہم عالمی قوتوں کی مخالفت اور اپنی معاشی مشکلات کے باوجود اپنے بل بوتے پر ایٹمی کلب میں داخل ہوئے ہیں۔
اس سے ایک جانب ہمارے سائنسدانوں کی ذہانت وقابلیت عیاں ہوتی ہے اور دوسری جانب ہمارے عوام کی بے پناہ قربانیوں کی تصویر بھی منعکس ہوتی ہے۔ دل چسپ گفتگو کے دوران مہدی صاحب نے جماعت میں اپنی ذمہ داریوں اور ادب کے حوالے سے اپنی خدمات کا تذکرہ بھی کیا جو واقعی قابل قدر ہے۔
ہماری دل چسپ بات چیت جاری تھی اور ٹرین مختلف سٹیشنوں سے گزرتی ہوئی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی۔ پریسٹن ریلوے اسٹیشن پر اسے گیارہ بج کر نو منٹ پر پہنچنا تھا۔ ٹھیک گیارہ بج کر نو منٹ پر ٹرین پلیٹ فارم پر جارکی۔
جب گھڑی دیکھی تو میں نے تابش صاحب سے کہا کہ واقعی یہ ورجن کہلانے کی مستحق ہے۔ ریلوے سٹیشن سے باہر آئے تو مولانا اقبال صاحب اور میاں عبدالحق صاحب نے استقبال کیا اور اقبال صاحب کی گاڑی میں ہم برنلے کی طرف روانہ ہوئے۔
تقریباً سوا بارہ بجے ہم ریڈلے آپہنچے۔ مجھے یہاں میری رہایش پر چھوڑ کر تینوں حضرات برنلے کی طرف روانہ ہوگئے۔ مہدی صاحب کا قیام مسجد ابراہیم کے مہمان خانے میں تھا۔ ہمارے میزبان جو بریف کیس میری رہایش پر چھوڑ گئے، برنلے پہنچ کر انھیں احساس ہوا کہ وہ تو تابش مہدی صاحب کاتھا۔
مجھے بھی ان کے جانے کے بعد اس کا احساس ہوا مگر خیر میرے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا البتہ تابش صاحب کو اپنے بریف کیس کی فوری ضرورت تھی کیوں کہ انھیں اس میں سے اپنی دوائیں نکالنا تھیں۔
لہٰذا تھوڑی ہی دیر کے بعد مولوی اقبال صاحب کو دوبارہ میرے پاس آنا پڑا اور میرا بریف کیس مجھے دینے کے بعد تابش صاحب کا بریف کیس لے کر وہ ان کی طرف روانہ ہوگئے۔