بے فکری اور آزادی کے دن تھے، کوئی ذمہ داری ،کوئی فکر،نہ فاقہ، کالج کابلیزر پہن کر ہم خود کو ”گریگری پیک“ سمجھتے، ایک بار لڑکیاں کالج آئیں 

بے فکری اور آزادی کے دن تھے، کوئی ذمہ داری ،کوئی فکر،نہ فاقہ، کالج کابلیزر ...
بے فکری اور آزادی کے دن تھے، کوئی ذمہ داری ،کوئی فکر،نہ فاقہ، کالج کابلیزر پہن کر ہم خود کو ”گریگری پیک“ سمجھتے، ایک بار لڑکیاں کالج آئیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:121
 نجمی صاحب کے کسی عزیز کی شادی تھی۔ مجھے اور صلو سے کہنے لگے؛”اپنی اپنی موٹر لے کر آنا۔ مہمانوں کو ضرورت ہو گی۔“ ہم چلے گئے۔ صلو کو فوٹو گرافی کا بھی حد درجہ شوق تھا۔ وہ اپنا کیمرہ بھی ہمراہ لایا تھا۔ ہم نے تصاویر بھی بنائیں اور پھر بنوا کر سر کے حوالے کردیں۔ مہمانوں میں ایک نازنین بھی تھی جس کی صلو نے کمال مہارت سے مختلف زاویوں سے کئی تصاویر بنائیں۔مجھے یاد ہے جب سر ہمارے ساتھ تصاویر دیکھ رہے تھے تو اس خاتون کی تصاویر دیکھتے صلو بولا؛”سر! یہ مہمان کمال تھیں۔“ وہ مسکرائے اور بولے؛gentlemen she is my niece, married, lives in Canda cant help you. 
 کرایہ چار آنے؛    
کالج کے 4سال یادگار تھے۔ بس پر کالج جانا ہوتا۔ بھٹو صاحب نے طالب علموں کے لئے بس کرائے میں خصوصی رعائیت دی تھی۔ یک طرفہ کرایہ 4 آنے تھا اور اکثر رش کی وجہ سے وہ بھی بچ جاتا تھا۔ 50روپے پاکٹ منی ملتی تھی۔2 روپے روز کے حساب سے۔ کرایہ بچا ہی لیتے تھے۔ ایک سینڈوچ اور پیپسی کی بوتل اتنے پیسوں میں مل جاتی تھی۔ اس زمانے میں لاہور میں volvo کمپنی کی بسیں نئی نئی چلنا شروع ہو ئی تھیں۔ جدید اور آرام دہ۔ آفرین لاہوریوں پر کہ چند سالوں میں ہی ان بسوں کو کھٹارا کر دیا اور رہی سہی کسر ایل او ایس(لاہور اومنی سروس) کے ملازمین نے پوری کر دی تھی۔میں اس دور کا نمائندہ ہوں جب لاہور میں ڈبل ڈیکر بس چلا کرتی تھی۔ ہم بچوں کی خواہش ہوتی کہ اوپر والے ڈیک پر سفر کریں۔ مال روڈ پر ڈبل ڈیکر بس میں سفر کا لطف وہی جانتا ہے جس نے یہ سفر کیا تھا۔ میں بھابڑہ بس سٹاپ سے اکثر اسی بس سے کالج جایا کرتا تھا۔ صبح کے وقت اس کے گیٹ سے لٹک کر ہی سفر ہوتا تھا اور بعض دفعہ اس کا پائیدان رش کی زیادتی کی وجہ سے سڑک پر رگڑ بھی کھا جاتا تھا۔ افسوس میں نے طالب علمی کے زمانے میں ہی ان بسوں کو ایل او ایس”ڈپو شمع“(نزد کیمپ جیل)کی زینت بنتے دیکھا۔ ایل او ایس کے ملازمین نے بھی ان بسوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہم نے اپنی تاریخی عمارات کے ساتھ کرتے تھے۔ کھنڈر کر دیاتب چھوڑا جب صرف ڈھانچے ہی باقی بچے تھے۔سب کچھ نکال کر بیچ ڈالا تھا۔
ہینگ میں سینگ؛ 
کالج کے دور میں آغا سعید خان(بی بلاک میں ہی رہتا تھا۔ہم اکٹھے کرکٹ کھیلتے۔ شاندار اور درویش انسان۔ دوستوں کا دوست۔ بعد میں  بنک میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہا۔ ابا جی اس کی بہت قدر کرتے تھے کہ ابا جی کے کہنے پر ہی اُس نے میرے چھوٹے بھائی شاہد کو دو بار بنک میں نوکری دلائی تھی۔آج بھی ہم اسی محبت سے ملتے ہیں۔)وہ اور میں کالج اکٹھے ہی جاتے تھے۔ اسے گورنمنٹ کالج جانا ہوتا تھا جبکہ مجھے ایف سی کالج۔ کبھی بھابڑہ بس سٹاپ سے بس لیتے اور کبھی اڈا سٹاپ ماڈل ٹاؤن سے۔ ہاں کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ قیصر بھائی اپنی فوکس ویگن پر آجاتے۔ اُن کا دفتر مال روڈ پر تھا۔ وہ مجھے  فیروزپور روڈ نہر کے پل پر ڈراپ کر تے اور آغا کو کالج۔ ہفتہ میں 2 دن کالج میں کرکٹ میچ ہوتے اور 10 بجے کے بعد کلاس میں جانا ممکن نہ رہتا تھا۔ حاضری پوری کرنے کے لیے حامد سعید صاحب سے میچ کھیلنے کی سلپ لینی پڑتی تھی تب جا کر حاضری پوری ہوتی۔ وہ بے فکری اور آزادی کے دن تھے۔ نہ کوئی ذمہ داری نہ کوئی فکر،نہ فاقہ۔ کالج کابلیزر پہن کر ہم خود کو ”گریگری پیک“ سمجھتے تھے۔ ایک بار جب ڈگری کلاس میں تھا تو کنیرڈ کالج کی کچھ لڑکیاں جغرافیہ کے پریکٹیکل کے لئے کالج آئیں۔ یہ چین سروے تھا۔ ہم نے اس سروے کو ”سینگ میں ہینگ“کا نام دے رکھا تھا۔(ڈلہوزی صاحب کی بیگم کنیرڈ کالج میں جغرافیہ پڑھاتی تھیں۔) ہم میں سے صرف ضیا ء ہی یہ مضمون پڑھتا تھا۔ اس نے مجھے اور عتیق کو سروے میں استعمال ہونے والی چین اٹھوائی اور نہر کنارے چل دیا۔ ہم چین اٹھائے اس کے پیچھے تھے۔ لڑکیوں کے اس گروپ میں ایک حسین مہ جبین گریگری پیک سے بات کرنے کے لئے بے چین تھی لیکن گریگری آسانی سے بات کرنے والا تھوڑی تھا۔کالج کے دنوں کی یہ معمولی سی شناسائی یونیورسٹی کے دنوں میں بھرپور دوستی اور الفت میں بدل گئی تھی۔ پوری کہانی آنے والے کسی صفحہ پر شاید ملے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -