مولانا کوثر نیازی: چند یادیں
عباس اطہر مرحوم و مغفور کی کتاب ”کہاں گئے وہ لوگ“31 شخصیات کا نگار خانہ ہے۔اس میں ایک خاکہ مولانا کوثر نیازی مرحوم کا بھی شامل ہے۔ اسے پڑھ کر ماضی کی کئی بھولی بسری یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔خاص طور پر 1970ء کا ہنگامہ خیز زمانہ نگاہوں میں پِھر گیا، جب پورا ملک سیاسی محاذ آرائی کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا۔پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے مابین اسلام اور سوشلزم کے معاملے میں بُری طرح ٹھنی ہوئی تھی۔جماعت اسلامی کے سٹیج سے مدیر ”چٹان“ آغا شورش کاشمیری کی خطابت گونج رہی تھی،تو پیپلزپارٹی کے مقررین میں مولانا کوثر نیازی سرفہرست تھے۔
مولانا کوثر نیازی 1950ء کے عشرے میں میانوالی کے کسی سکول میں استاد تھے اور شعر و ادب سے غایت درجہ دلچسپی رکھتے تھے۔رانا نذر الرحمان مرحوم کا کہنا ہے کہ وہ مولانا کوثر نیازی کو میانوالی سے لاہور لائے اور انہیں مدیر سہ روزہ ”کوثر“ مولانا نصر اللہ خان عزیز کے سپرد کر دیا۔ ذرا بہتر علمی اور ادبی ماحول میسر آیا تو کوثر صاحب کی صلاحیتوں کو جلا ملنے لگی۔ پہلے جماعت اسلامی کے ادبی رسالے ماہنامہ ”تعمیر انسانیت“ کی مجلس ادارت میں شامل رہے، پھر ہفت روزہ”شہاب“ کا ڈیکلریشن اپنے نام پر حاصل کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ”شہاب“ جماعت اسلامی کا ایک مقبول جریدہ بن گیا۔1953ء کی تحریک ختم نبوت میں کوثر نیازی گرفتار ہوئے تو جیل میں انہیں مرکزی نائب امیر جماعت مولانا امین احسن اصلاحی ایسے عظیم اسکالر کی صحبت میں رہ کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر تخلیق ِ شعر کا رجحان فروغ پذیر ہوا۔اسی دور کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ”زرِ گل“ کے عنوان سے شائع ہوا تو اس میں مولانا اصلاحی کا دیباچہ شامل تھا۔ ”زرِ گل“ کی انقلابی آہنگ کی شاعری ایک مدت تک جماعت اسلامی کے کارکن پڑھتے اور سر دُھنتے رہے:
اس ملک پہ اللہ کا کرم ہو کے رہے گا
یہ دَیر کسی روز حرم ہو کے رہے گا
پہرے تو بٹھا دو گے مگر میرے قلم سے
اسلام کا پیغام رقم ہو کے رہے گا!!
زندانیو! گھبراؤ نہ اِس جور و جفا سے
سر جبر کا اکڑا ہوا خم ہو کے رہے گا
وہ وقت بھی آئے گا مظلوم پہ کوثر
جو ہاتھ بھی اُٹھے گا، قلم ہو کے رہے گا
جماعت والے ان کے ایک شعر کے تو بڑے ہی مداح تھے،ان کا کہنا تھا کہ اس شعر میں جماعت کی فلاسفی بڑی جامعیت اور خوبصورتی کے ساتھ سمٹ آئی ہے:
جذبات میں ا ٓکر مرنا تو مشکل سی کوئی مشکل ہی نہیں
اے جانِ جہاں! ہم تیرے لیے جینا بھی گوارا کرتے ہیں
اتنے گہرے نظریاتی اور جذباتی تعلق کے باوجود کوثر مرحوم جماعت سے کب اور کیوں نکل گئے،اس حوالے سے عباس اطہر لکھتے ہیں:
”جب محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان الیکشن شروع ہوا وہ جماعت اسلامی سے الگ ہو گئے۔ان پر الزام تھا کہ وہ بہت پہلے سے ہی مرحوم ایوب خان کے ساتھ ملے ہوئے تھے، صرف وقت کے انتظار میں تھے۔ حقیقت جو بھی ہو اس دور میں انہیں عورت کی قیادت، خلاف اسلام نظر آتی تھی اس لیے انہوں نے اپنا فیصلہ ایوب خان کے حق میں دے دیا۔جماعت اسلامی لاہور کے امیر کا عہدہ چھوڑا اور ایوب خان کی جماعت میں سرگرم عمل ہو گئے۔ (ص114:)
میری معلومات کے مطابق صدارتی انتخاب سے قبل بلاشبہ کوثر صاحب ایوب حکومت سے رابطہ میں تو تھے،لیکن ابھی انہیں ”ایوب خان کے حق میں فیصلہ دینے کا حوصلہ نہ ہوا تھا۔ان کا ایک مختصر سا پمفلٹ ”کیا عورت صدرِ مملکت بن سکتی ہے؟“ جماعت نے ہزاروں کی تعداد میں چھاپ کر تقسیم کیا تھا،جو دراصل کوثر صاحب کا خطبہ جمعہ تھا۔اس میں انہوں نے احادیث کی روشنی میں عورت کی حکمرانی کے حق میں دلائل دیئے تھے۔جماعت اسلامی کے قائدین کو کوثر صاحب کی بدلی ہوئی لائن کا اندازہ ہو گیا تھا،لیکن وہ چاہتے تھے کہ کوثر صاحب خود ہی مستعفی ہو جائیں۔مبادا کوئی اور رکن بھی غلط فہمی میں چلا جائے۔
عباس اطہر کا کہنا ہے کہ پہلے پہل کوثر صاحب نے بھٹو اور شیخ مجیب، دونوں سے رابطہ رکھا،لیکن بھٹو صاحب نے انہیں ایک طرف ہونے کا مشورہ دیا، چنانچہ وہ باقاعدہ طور پر پیپلزپارٹی میں چلے گئے، لیکن وہ وہاں بھی زیادہ دیر نہ رہے۔آغا شورش نے 1970ء میں گجرات کے ایک جلسے میں اس حوالے سے پیش گوئی کر دی تھی۔آغا کی تقریر کے وہ الفاظ آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہیں، انہوں نے کہا:
”1857ء میں دِلی لٹ گئی تو قلعہ معلی کا سامان باہر چاندنی چوک میں نیلام ہونے لگا۔کسی ریاست کے راجے کو اس کے منشی نے بتایا کہ کوڑیوں کے بھاؤ سامان بک رہا ہے۔خاص طور سے دیوان خاص کے لیے کوئی فانوس لے لیں، چنانچہ راجہ وہاں پہنچا اور اس نے ایک فانوس کی قیمت پوچھی۔دکاندار نے جواب دیا، ”دو روپے“! راجے نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا، چلو بھئی چلتے ہیں،منشی نے کہا، سرکار دو روپے تو کوئی قیمت ہی نہیں، راجے نے کہا، بھئی جن چیزوں نے اپنے مالکوں سے وفا نہیں کی،وہ ہم سے کیا کریں گی! آغا صاحب نے ذرا بلند آہنگی کے ساتھ کہا،بھئی جس شخص نے مولانا مودودیؒ سے وفا نہیں کی،جن کی وہ تصنیف ہے تو تم سے کیسے کرے گا؟
چند سال ہی گزرے کہ ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا اور پیپلزپارٹی کے لیے ابتلا کا دور شروع ہو گیا۔کوثر صاحب نے پروگریسو پیپلز پارٹی بنا لی، یوں ان کی یہ چوتھی پارٹی تھی۔بعد میں جب پیپلز پارٹی دوسری مرتبہ اقتدار میں آئی تو کوثر صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بن گئے۔عباس اطہر صاحب کی اس رائے سے مَیں متفق نہیں کہ 1970ء کے زمانے کا ”شہاب“ زرد صحافت“ کا نمونہ نہیں تھا۔اس لیے کہ مَیں اس دور میں ”شہاب“ پڑھتا رہا ہوں،اس میں الزام تراشی کے حوالے سے اتنا گندا مواد چھپتا رہا کہ آج تک کوئی جریدہ اس کی مثال پیش نہیں کر سکا۔البتہ کوثر صاحب نے جو چند کتابیں لکھیں وہ بہت پڑھی گئیں۔خاص طور سے ”اور لائن کٹ گئی“ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنا ایک معتبر مقام رکھتی ہے! اگرچہ اس میں بھی بعض باتوں کو نقد و نظر کی میزان میں تولیں تو ان کی کوئی قیمت نہیں پڑتی، اس کے باوجود اس کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں!