چیمبر آف کامرس لاہورسے وراثتی سیاست کا خاتمہ!
چیمبر آف کامرس لاہور گزشتہ دو ماہ سے جاری انتخابی سرگرمیوں کے بعد فہیم الرحمن سہگل اور میاں ابو ذر ایک ایک سال کے لئے صدر، انجینئر خالد عثمان سینئر نائب صدر، شاہد نذیر اور خرم لودھی نائب صدر کے لئے نامزد ہو چکے ہیں یکم اکتوبر کو اے جی ایم میں حلف اٹھا کر کام کا آغاز کریں گے۔23اور24 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے لئے تاریخ کی مہنگی ترین انتخابی مہم کو ذاتی طور پر مجھے دیکھنے کا موقع ملا۔گزشتہ سال الیکشن نہیں ہوئے تھے اس لئے موجودہ انتخابات میں جوش و خروش زیادہ نظر آیا۔واقفانِ حال کا کہنا تھا18سال بعد چیمبر آف کامرس میں جمہوری تقاضوں کے مطابق عملاً انتخابات ہوئے ہیں اس سے پہلے چیمبر آف کامرس میں الیکشن نام کے ہوتے تھے عملاً چند خاندانوں نے باریاں لگا رکھی تھیں۔ ڈی جی ٹی او کی ہدایات کے مطابق مجبور الیکشن کمیشن بنتا تھا اور مخصوص لابی ایک دو اجلاسوں میں ایگزیکٹو ممبران کی نشستوں کی بندر بانٹ کر لیتی تھی، ملکی سیاست کی طرح اگر کہہ لیا جائے چیمبر آف کامرس لاہور کی سیاست بھی وراثتی طور پر چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ بتایا گیا ہے گزشتہ18سال میں جس نے بھی آواز بلند کرنے کی کوشش کی اس کو کسی ایگزیکٹو نشست پر اکاموڈیٹ کر دیا گیا۔ چیمبر آف کامرس لاہور کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے پاکستان بننے سے پہلے بھی کاروباری دنیا کا مرکز تھا۔ کاروباری حضرات صنعتکاروں نے نادرن انڈیا سے 1923ء میں نادرن انڈیا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز سے آغاز کیا۔1947ء میں قیام پاکستان کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تبدیل کر کے ویسٹ پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز رکھ دیا۔1960ء میں موجودہ نام چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز رکھا گیا پاکستان کا واحد چیمبر آف کامرس ہے،جو آئی ایس او سے سرٹیفائیڈ ہے۔
بات چیمبر آف کامرس کی تاریخ کی طرف چلی گئی،حالانکہ میرا موضوع چیمبر آف کامرس لاہور کی سیاست ہے، جس کے30 ایگزیکٹو ممبران کی نشستوں پر پہلی دفعہ انتخاب ہوا ہے۔ چیمبر آف کامرس کی تاریخ میں اس کی مینجمنٹ کے لئے 30ممبران ہی طے ہیں ان میں 15 کارپوریٹ کلاس اور15ایسوسی ایٹس کلاس ان میں سے بھی ون تھرڈ ریٹائر کئے جاتے تھے اور باقی نشستوں پر ہر سال نیا انتخاب ہوتا تھا، میں چیمبر آف کامرس لاہور میں 1960ء سے منتخب ہونے والی کاروباری شخصیات کا جائزہ لے رہا تھا یقینا لاہور پنجاب نہیں، پاکستان کاروباری مرکز ہے۔ ستمبر میں چیمبر آف کامرس لاہور کے الیکشن ہی نہیں ہوتے،بلکہ30ستمبر سے پہلے ملک بھر کے تمام شہروں میں چیمبر کے الیکشن ہوتے ہیں۔ اب ہو بھی رہے ہیں،30ستمبر سے پہلے انتخابی مکمل کرنے کے بعد یکم اکتوبر کو اے جی ایم میں نئی باڈی ایگزیکٹو ممبران حلف اٹھاتے ہیں نئے سال کا آغاز ہو جاتا ہے لاہور کی درو دیوار اور چوکوں میں بڑے بڑے سائن بورڈ، پوسٹر، بینر، فلیکس کی جو رونقیں گزشتہ دو ماہ سے لاہور میں نظر آئیں اس میں ہر شخص سوال کرتا نظر آیا کہ چیمبر آف کامرس میں کیا ہوتا ہے؟ الیکشن جیت کر انہیں کیا ملتا ہے؟ اتنا خرچ کر کے خرچہ پورا کیسے کرتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب تو میرے پاس نہیں ہے اس سے پہلے یہی سوال وکلاء سے بھی کیا جاتا ہے ان کی طرف سے بھی گزشتہ چند سالوں سے کروڑوں روپے خرچ کیا جا رہا ہے، حالانکہ اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو اندھا دھند اخراجات،روزانہ کھابوں کی روایت سیاستدانوں نے شروع کی ہے اب اس فلسفے سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ جو لگائے گا اس نے کمانا بھی ہے،کیسے کمائے گا؟ اس حوالے سے شاید میں آج کی نشست میں نہ بتا سکوں۔چیمبر آف کامرس بنیادی طور پر بزنس کمیونٹی کا مرکز ہے۔1985ء میں چیمبر آف کامرس میں باقاعدہ ریسرچ ڈویلپمنٹ کا شعبہ قائم کیا گیا کاروباری حضرات کے لئے بزنس کی راہیں نکالنے سمیت کاروبار کی پرموشن کے لئے سیمینار کا انعقاد اور تجارت کے فروغ کے لئے ملکی اور غیر ملکی اداروں سے رابطے بنیادی فلسفہ کہا جا سکتا ہے۔چیمبر آف کامرس کی تعریف مقاصد پربہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ 23اور 24 ستمبر کے ملکی تاریخ کے منفرد الیکشن جس میں سالہا سال کے حلیف حریف بن کر ایک دوسرے کے بالمقابل تھے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے میں بھی چیمبر آف کامرس لاہور کا کارپوریٹ کلاس کا ممبر ہوں اس لئے میں بھی ووٹ ڈالنے کی سعادت حاصل کرتا آ رہا ہوں۔ہمارے یونیورسٹی کے ساتھی انجینئر خالد عثمان جو پروگریسو گروپ کے سربراہ بھی ہیں گزشتہ چند سالوں سے انہوں نے بھی چیمبر آف کامرس کی سیاست میں اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے جگہ بنا لی ہے۔ پیاف، فاؤنڈر،اتحاد کے الائنس نے نئی قیادت کے آگے پُل باندھ دیئے تھے میں دیکھ رہا تھا۔2001ء میں صدر شیخ آصف تھے، 2023ء میں ان کے صاحبزادے کاشف انور صدر تھے۔ میاں مصباح الرحمن صدر بنے،اس کے بعد ان کے صاحبزادے طارق مصباح صدر بن گئے،ملک افتخار صدر بنے، اس کے بعد شہزاد افتخار، علی ملک کی باری لگ گئی۔ ای سی ممبران کا اگر جائزہ لیں تو اندازہ ہوا کہ چند خاندانوں اور شخصیات کے گرد ہی سارا کچھ گھوم رہا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں 2004ء میں میاں انجم نثار صدر تھے۔2018ء میں محمد علی میاں صدر تھے،2011ء میں عرفان قیصر صدر تھے، 2014ء میں سہیل لشاری صدر تھے، 2013ء میں فاروق افتخار صدر تھے،2017ء میں عبدالباسط صدر تھے۔ 2020ء میں عرفان اقبال شیخ صدر تھے،2021ء میں طارق مصباح، 2022ء میں نعمان کبیر،2023ء میں کاشف انور صدر کی ذمہ داری پر رہے۔2024ء کے انتخابات میں نمایاں شخصیات میں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے ہم زلف صابر مٹھو کے دست ِ راست ناصر حمید میدان میں آئے تو ان کے ساتھ عرفان اقبال شیخ اور میاں سہیل نثار بھی رشتے داری کی وجہ سے اتحاد کا حصہ بننے پر مجبور ہو گئے۔رشتہ داریوں کی مجبوری نے فاؤنڈر پیاف کے اتحاد کو پارہ پارہ نہیں کیا، بلکہ پیاف اور فاؤنڈر کے بھی ٹکڑے کر دیئے ذاتی طور پر مجھے کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے،اپنی اپنی جگہ پر تمام معتبر شخصیات ہیں، کاروباری اور قابل احترام بھی،کاروبار کی وجہ سے تو میں نے کئی جگہوں پر باپ بیٹا، بھائی چاچا،سمدھی،ہم زلف کو ایک دوسرے کے سامنے بالمقابل دیکھا ہے۔ چیمبر آف کامرس لاہور میں بھی رشتہ داریوں کی وجہ سے ہی دھڑے بندی ہوئی اور اتحاد بنے اور ٹوٹے۔ میاں انجم نثار کو عملاً اکیلا کرنے کی کوشش کی گئی،حالانکہ زیادہ دور کی بات نہیں، میاں انجم نثار نے خود اپنی جگہ عرفان اقبال شیخ کو فیڈریشن کا صدر بنایا تھا ان کی وجہ سے پورے ملک کے انتخابات ایک سال نہیں ہو سکے۔میاں انجم نثار کے ساتھ نوجوانوں کے گروپ پروگریسو اور پائنر نے اتحاد بنایا۔ ذاتی طور پر مجھے میاں انجم نثار،محمد علی میاں، فہیم الرحمن سہگل، خالد عثمان کی انتخابی مہم دیکھنے کا موقع ملا۔انہوں نے جس انداز میں پروفیشنل امیدوار میدان میں اتارے پہلی دفعہ حج، عمرہ، ٹریول ٹریڈ کو دو نشستیں دیں جس کی وجہ سے راقم کی دلچسپی الیکشن میں بڑھی۔ ٹریول ٹریڈ کی معتبر ترین شخصیت میرے بڑے بھائی میاں گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین میاں عامر سعید کا نام کارپوریٹ کلاس کے لئے نکلا، سب کچھ چھوڑ کر میدان میں آنا پڑا اس کے ساتھ ہی حج آرگنائزر کے نمائندے کے طور پر ہمارے بھائی منظور حسین جعفری کو بھی نامزد کر دیا گیا، سونے پر سہاگہ انجینئر خالد عثمان سے پہلے ہی34سال پرانا تعلق ہے الحمدللہ سب نے مل کر جس انداز میں انتخابی مہم چلائی اور پولنگ ڈے پر جس طرح میں نے میاں انجم نثار،خالد عثمان، علی حصام، محمد علی میاں اور ان کی ٹیم کو صبح 8بجے سے رات 12بجے تک نتائج آنے تک23 اور24 ستمبر کو دیکھا ان کے اخلاص، محنت اور جدوجہد کا نتیجہ ہے کارپوریٹ کے2400 ووٹ کاسٹ ہوئے۔میاں انجم نثار گروپ 268 ووٹوں کی پینل لیڈ سے کلین سویپ کر گیا اس طرح ایسوسی ایٹس کے13699ووٹوں میں سے 7330 کاسٹ ہوئے،1548 وٹوں کی لیڈ سے پیاف، پائنر، پروگریسو الائنس کے پینل نے کلین سویپ کر لیا۔ شاندار انتخابات کے انعقاد پر چیمبر آف کامرس لاہور کے سیکرٹری خوبصورت اور نفیس شخصیت کے مالک شاہد خلیل الیکشن کمیٹی شہزاد اعظم، نصر اللہ مغل، سید الماس حیدر کو مبارکباد دیتا ہوں اور میاں عامر سعید، منظور جعفری سمیت ایگزیکٹو ممبران اور میاں انجم نثار، خالد عثمان، علی حصام، فہیم الرحمن اور ان کی ٹیم کی تاریخ ساز انتخابی مہم کے نتیجے میں چیمبر آف کامرس سے وراثتی سیاست اور مخصوص لابی کی اجارہ داری ختم کرنے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
٭٭٭٭٭