وزیراعظم صاحب نئے پاکستان میں ایک اور حوا کی بیٹی لٹ گئی

انسانوں کے ساتھ جنسی دست درازی، جنسی زیادتی اور اس طور پر ہراساں کرنے کا سلسلہ بہت پرانا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے طریقے بھی بدلتے رہے اور یہ سلسلہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جاتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں جہاں دوسرے جرائم میں بدتدریج کمی ہو رہی ہے۔ سڑکوں پر ہونے والے ٹریفک حادثات میں کمی آرہی ہے، وہاں بھی جنسی زیادتیوں میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ بلکہ امریکہ اور یورپ میں اس کی شرح کچھ زیادہ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یورپ میں زیادتی کیس کی تشریح میں اور پاکستان یا دوسرے اسلامی ممالک میں اس کی تشریح میں فرق ہے۔ کیونکہ یورپ میں تو کوئی اپنی منکوحہ کو بھی بغیر اجازت چھو نہیں سکتا جبکہ دو طرفہ رضامندی میں سب کچھ جائز ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی کہ یورپ میں شاید 5 فیصد کیس روپورٹ نہیں ہوتے جبکہ پاکستان میں 85 فیصد چھپا لیے جاتے ہیں اور اس کی وجوہات یہ بتائی جاتی ہیں کہ برے کام پر پردہ رکھنا چاہیے، کسی بہن بیٹی کی عزت نہیں رہے گی(جیسے جبری زیادتی سے عزت نہیں جاتی بلکہ دوسروں کو پتا چلنے سے جاتی ہے)، پھر اس سے کوئی شادی نہیں کرے گا(جیسا کہ یہ جرم اس مظلوم خاتون نے کیا ہوا ہے) کہ اس بری عورت سے اب کوئی شادی نہ کرے۔ بلکہ ایسی مظلوم لڑکیاں معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتی ہیں۔
اس لیے ہمارے ہاں اکثریت ایسے کیسوں پر پردہ ڈال دیتی ہے اور حوا کی بیٹیاں اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مرتی رہتی ہیں۔ اور بدقماشوں کے حوصلے بڑھتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے اندر پچھلے چند برسوں میں جنسی زیادتی کے اتنے زیادہ دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوئے کہ انسانیت کانپ اٹھی، کئی معصوم بچوں اور بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کیا گیا۔ جن میں سب سے زیادہ دردناک واقعہ قصور میں ہوا جہاں زینب نامی معصوم بچی نشانہ بنی۔ پھر عوام کے پرزور احتجاج پر پارلیمنٹ نے زینب کے نام سے قانون پاس کیا اور ایسے جنسی درندوں کے لیے سخت سزا مقرر کی، لیکن کیا پھر یہ سلسلہ رک گیا؟؟ نہیں اس کے بعد بھی مسلسل اس طرح کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔اور اس کی تازہ مثال آزاد کشمیر کے ضلع بھمبر کے علاقہ کوٹ جیمل جو کہ بھارتی سرحد کے بہت قریب ہے میں ایک معصوم بچی کو اغوا کر کے تین راتوں اور ایک دن گینگ ریپ نشانہ بنایا جاتا رہا اور اس بچی کا باپ ہاتھ جوڑے علاقے کے معتبروں کے دروں پر فریادیں کرتا رہا کہ میری بیٹی کو چھڑا دو، لیکن کسی نے کچھ نہ کیا حتیٰ کے چوتھے دن ان درندوں نے خود ہی اپنی ہوس مٹانے کے بعد 13 سالہ بچی کو خون آلود کپڑوں کے ساتھ گھر بھیجا، بچی کا باپ ایک بار پھر انہی معتبروں کے در پر پہنچا اور ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آؤ میری بچی کی حالت دیکھو، وہ آئے بچی کو دیکھا اور پوچھا کہ یہ کس نے کیا ہے تو جب اس نے علاقے کے بڑے اور تحصیل زکواۃ کونسل کے چیئرمین کے بیٹے کا نام لیا تو معتبروں نے سخت سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ اپنی زبان بند رکھو اور خاموشی اختیار کرو ورنہ یہاں رہنا محال ہو جائے گا۔
اس طرح پورے دس دن تک کسی نے کوئی بات کرنے کی جرات نہ کی علاقے کے تمام لوگ اور صحافی اس پورے واقعے سے واقف ہونے کے باوجود خاموش رہے آخرکار بھمبر سے ایک صحافی نے راز کھولا اور 30 مارچ کو اغوا ہوکر 2 اپریل کو واپس آنے والی بچی کی ایف آئی آر 14 اپریل کو درج ہوئی جب تک کئی شواہد بھی مٹائے جا چکے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اس وقت تک کاروائی نہ ہوئی جب تک راقم نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا کر اس مظلوم خاندان کی مدد کا اعلان نہ کیا اور اس دور دراز علاقے میں جا کر اس خاندان کو دلاسہ دیا۔ اس کے بعد مرکزی ملزم کو پیش تو کر دیا گیا لیکن اس سے اس کے جرم کے مطابق پوچھ گچھ ہوئی نہ ساتھی ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ہم کئی بار ایس پی صاحب سے ملاقات کر کے معاملے کی سنگینی سے آگاہ کر چکے ہیں، لیکن ملزمان کا تعلق چونکہ ایک سیاسی اثر و رسوخ والے خاندان سے ہے شاید اسی لیے نہ صرف علاقے کا سیاسی نمائندہ جو کہ آزادکشمیر کابینہ میں وزیر ہے خاموش ہے بلکہ اس کا مدمقابل سابق وزیر بھی سامنے آنے سے کترا رہا ہے۔
ضلع بھمبر میں حال ہی میں تعینات ہونے والے ایس ایس پی صاحب ایک اچھی شہرت کے پولیس آفیسر ہیں۔ لیکن لگتا ایسے ہے کہ اس کیس میں ان کے ہاتھ بھی باندھ دیئے گئے ہیں۔ مجھے ان کے اس جملے پر حیرانی ہوئی ہے کہ سوشل میڈیا پر کیس اچھالنے سے یہ بچی معاشرے میں جینے کے قابل نہیں رہے گی۔ اس ساری صورتحال میں صرف ایک بات حوصلہ افزا ہے کہ علاقے کے لوگ بالخصوص نوجوان بلا تحصیص برادری اور سیاسی جماعت مضطرب ہیں اور مظلوم خاندان کی داد رسی چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس حساس سرحدی علاقے میں فضا خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہم اس کالم کی وساطت سے وزیراعظم پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اس واقعے کا نوٹس لیں اور غیرجانبدارانہ انکوائری کے بعد مجرموں کو جرم کے مطابق سزا دلوائیں اور اس مظلوم خاندان کو جو 65 کی جنگ میں انڈین مظالم سے جان بچا کر آزادکشمیر میں آبسا تھا تحفظ فراہم کریں۔ تاکہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں فرق نظر آئے۔