بھارت پہلگام حملے کی تحقیقات کرائے
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے سانحہ پہلگام میں قابل ِ بھروسہ تحقیقات اور تصدیق شدہ شواہد کے بغیر ہی پاکستان پر بے سروپا جھوٹے الزامات عائد کر دیے،یہ اِس کا وتیرہ ہے جسے روکنا ضروری ہے۔ اُنہوں نے ہر طرح کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناتے پہلگام واقع کی کسی بھی غیر جانبدارانہ، شفاف اور قابل ِ اعتماد تحقیقات میں شرکت اور تعاون کے لئے تیار ہے، دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لئے پاکستان سے زیادہ قربانی کسی نے نہیں دی۔ خطاب کے دوران اُنہوں یہ بھی کہا کہ پانی 24 کروڑ عوام کی لائف لائن ہے جسے روکنے کی کسی بھی کوشش کا پوری طاقت سے جواب دیا جائے گا،اَمن ترجیح ہے لیکن اِسے کمزوری نہ سمجھا جائے، ملک کے وقار اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، کوئی مہم جوئی ہوئی تو فروری 2019ء کی طرح منہ توڑ جواب دیں گے، مسلح افواج کسی بھی مہم جوئی کے خلاف ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے دفاع کی نہ صرف اہل ہیں بلکہ اِس کے لئے تیار بھی ہیں۔ آرمی چیف میجر جنرل سید عاصم منیر نے پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب میں کہا افواجِ پاکستان نے اپنے وطن کے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیں، وہ اِس کا دفاع کرنا جانتی ہیں۔وزیراعظم نے بھارت کو واضح پیغام دے دیا ہے، عسکری و سیاسی قیادت ایک پیج پر ہے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ایک روسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اگر وزیراعظم پاکستان کی پیشکش قبول کرتا ہے تو یہ اچھی بات ہے لیکن اگر بھارت باز نہ آیا تو اُسے اُس کے عمل سے زیادہ سخت ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ سید محسن رضا نقوی نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے باور کرایا کہ پہلگام واقع میں پاکستان کا براہِ راست یا بالواسطہ کسی بھی قسم کا تعلق نہیں ہے لیکن اِس کے برعکس بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ یہ بات توجہ طلب ہے کہ جب بھی بھارت میں کوئی غیر ملکی رہنما آتا ہے تو اُسی دوران ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں، حالیہ واقع پر پاکستان باضابطہ طور پر شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے تا کہ بھارتی حملے کے حوالے سے حقائق منظرِ عام پر آ سکیں، پاکستان غیر جانبدار تفتیش کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔
بھارت اِس وقت جنگی جنون میں مبتلا ہے،اس نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے جس کا اُسے اختیار نہیں ہے۔یہی نہیں بلکہ وہ پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے،اُس نے آبی جارحیت کا آغاز کرتے ہوئے بغیر اطلاع دیے مظفرآباد کے علاقے ہٹیاں بالا میں دریائے جہلم میں اضافی پانی چھوڑ دیا۔ حکام کے مطابق بھارت سے دریائے جہلم میں پانی کے بہاؤ میں آج معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا، تاہم مجموعی صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے۔بھارت نے پاکستانی شہریوں کو بھارت چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے جس میں بچوں کے علاج کی غرض سے وہاں موجود پاکستانیوں کو بھی واپس لوٹنا پڑے گا۔
بھارت نے پہلی دفعہ پاکستان پر اندھا دھند الزام نہیں لگایا بلکہ اس کی پوری تاریخ موجود ہے۔ نومبر 2008ء میں جب بمبئی میں تاج ہوٹل دہشت گردانہ حملوں کی لپیٹ میں آیا تو اُس وقت بھی بھارتی قیادت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پاکستان پر الزام دھر دیا۔اُس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھارتی رہنماؤں سے بات چیت کے لئے دہلی کے دورے پر تھے۔ پاکستانی قیادت نے جب ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے مشترکہ تحقیقات اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھارت بھیجنے کی پیشکش کی تو منموہن سنگھ حکومت نے اسے رَد کر دیا۔ کشیدگی اِس قدر بڑھ گئی کہ پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو پانچ روزہ ہانگ کانگ کا دورہ منسوخ کر کے وطن واپس لوٹنا پڑا۔ اس وقت امریکی افواج کے سربراہ مائیکل مولن سرکاری دورے پر پاکستان میں تھے۔ اس سے پہلے بھی 1993ء اور 2006ء میں بمبئی میں ہونے والے حملوں کا الزام بھارت نے پاکستان پر ہی دھرا،لیکن کبھی کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا۔فروری 2019ء میں بھارت نے پلوامہ حملوں کا ڈرامہ رچایا تب سعودی ولی عہد دو روزہ دورے پر پاکستان میں تھے۔بھارت کا پاکستان مخالف ایجنڈا صرف الزام تراشیوں تک محدود نہیں رہا۔ کلبھوشن یادو جیسے بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری اِس بات کا ناقابل ِ تردید ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں براہِ راست ملوث رہا ہے۔ کلبھوشن یادو کی پاکستان میں موجودگی اور اُس کے اپنے اعترافات بھارتی ریاستی اداروں کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کرتے ہیں۔
اِس وقت پورا بھارتی میڈیا نریندر مودی کی آواز بن چکا ہے، جو جارحیت، الزام تراشی اور اشتعال انگیزی میں سب کو پیچھے چھوڑتا نظر آ رہا ہے۔ ہر چینل اور ہر اینکر بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے پاکستان کو نشانہ بنا رہا ہے۔اِس کے برعکس، پاکستان انتہائی تحمل، متانت اور ذمہ داری کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کر رہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی اپوزیشن بھی حکومتی موقف کی تائید نہیں کر رہی،پہلگام کوئی لائن آف کنٹرول کے ساتھ واقع جگہ نہیں ہے بلکہ یہ حملہ 200 کلو میٹر دور جا کر ہوا ہے، یہ تو بھارتی سکیورٹی پر سوال اُٹھا رہا ہے اور وہاں کی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان نے بھارت کو اس کے اعلانات کا جواب تو دیا ہے،اِس وقت اپنی فضائی حدود بند کر کے چھوٹا سا جھٹکا بھی لگایا ہے۔ پاکستانی قیادت نے نہ صرف پلوامہ حملے سمیت غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کا بر وقت مطالبہ کیا ہے بلکہ تعاون کی پیشکش بھی کی ہے تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں،پاکستان کا یہ رویہ اس کی امن پسندی اور ذمہ دار ریاست ہونے کا عکاس ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ بیان کہ ہم امن کے داعی ہیں ان کی بالغ نظری اور سیاسی فراست کا مظہر ہے، جس کی جھلک ہندوستان کی قیادت کو بھی دکھانی چاہئے۔ بھارت کو چاہئے ہوشمندی سے کام لے،کوئی بھی بتا سکتا ہے کہ واقعہ ہونے کے دس منٹ بعد ہی سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔اس پر لازم ہے کہ بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیموں کو مقبوضہ کشمیر، بالخصوص پہلگام تک بلا تعطل رسائی کی ضمانت دے اور اس راہ میں کسی قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرنے سے باز رہے۔ اگر بھارت واقعی سچائی پر یقین رکھتا ہے تو اسے تحقیقات میں مکمل تعاون فراہم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئے۔