پروفیسر جعفربلوچ سے وابستہ یادیں

پروفیسرصابر لودھی نے 38 برس اردو زبان و ادب کی تدریس میں گزارے ہیں۔ ان میں سے 34 برس ان کا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور سے رہا۔ آپ کو استاد الاساتذہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو۔پروفیسرصابر لودھی دس برس اورینٹل کالج میں بطور وزیٹنگ پروفیسر، شعبہ اردو منسلک رہے۔ انہوں نے شاعری بھی کی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے لیکن ان کے خاکوں کا مجموعہ ”بھلایا نہ جائے گا“ ان کی حقیقی پہچان بن چکا ہے۔پروفیسر جعفر بلوچ ان کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ خاکہ لکھنے بیٹھے تو پروفیسر جعفر بلوچ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو کچھ اس انداز میں اجاگر کیا کہ ان کا خاکہ پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر جعفر بلوچ میرے سامنے کھڑے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ بطور رائٹر میں خود بھی پروفیسر جعفربلوچ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں کیونکہ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کے اشاعتی ادارے ایوان ادب،جہاں میں 1985ء سے 1995ء تک جزووقتی ملازمت کیا کرتا تھا، اکثر وبیشتر پروفیسر جعفربلوچ بھی وہاں تشریف لایا کرتے تھے،اپنی بغل میں چمڑے کا بیگ لٹکائے وہ جب نمودار ہوتے تو پروفیسرحفیظ الرحمن احسن صاحب ان سے بہت محبت سے ملتے۔کیونکہ حفیظ صاحب بھی پروفیسر جعفربلوچ کا دل سے احترام کرتے تھے جن خصویات کی نشاندہی پروفیسر صابر بلوچ نے خاکہ لکھتے ہوئے کی ہے،ان تمام خصوصیات کا میں نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔اس لئے میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پروفیسر صابر لودھی مرحوم کا خاکہ سو فیصد حقائق پر مبنی ہے۔پروفیسر جعفر بلوچ بالکل ایسی ہی شخصیت کے حامل سیدھے سادے اچھے انسان تھے۔لیجئے پروفیسر صابر لودھی مرحوم کا پروفیسر جعفر بلوچ کے بارے خاکہ آپ خود پڑھیں -:
پروفیسرجعفربلوچ بظاہر چپ کا گنبد ہیں لیکن اگر کوئی ظاہرسے دھوکا نہ کھائے اور گوش شنوا رکھتا ہو تو اسے معلوم ہو گا کہ اس گنبد میں عہد عہد کی آوازیں گونجتی ہیں۔ پروفیسر صابر لودھی مزید لکھتے ہیں کہ وہ پہلی ملاقات سے کسی کو متاثر نہیں کرتے۔طویل سفر سے آئے ہوئے مسافر لگتے ہیں۔ ملاقاتی ان کو عقیدت سے نہیں ہمدردی سے دیکھتے ہیں۔انہیں لاہور میں قیام کیے ہوئے عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اب تک لیہ کی گرد ان سر کے چھوٹے چھوٹے بالوں پر چھڑکی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔جعفر بلوچ نے ظاہر کو نظر انداز کرکے باطن کو جلا دی ہے، اس لئے جب کوئی ان کے زیادہ قریب آتا ہے تو اس پر گنبد کا راز آشکار ہوجاتا ہے۔ایک حیرت زدہ انسان میں سے کبھی عالم طلوع ہوتا ہے،کبھی شاعر،عجز و نیاز کی بہت سی شکلیں ایک ہی صورت میں دکھائی دیتی ہیں۔جعفر بلوچ کو بچپن سے خرقہ پوشوں کی صحبت حاصل رہی ہے۔ان بزرگوں کا مسلک تھا ”ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد“جعفر بلوچ نے بھی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا لیکن المیہ یہ ہوا کہ انہیں خدمت کرنے کا ایسا چسکا پڑا کہ اب ان کے مخدوم بننے کے تمام امکانات ختم ہوچکے ہیں۔صاحب نظر خرقہ پوشوں نے اپنا سارا زور ان کے ذوق شعر کو نکھارنے پر لگا دیا ہے اور جس کا ذوق نکھر جائے وہ زندگی بھر افسر نہیں بن سکتا۔زیادہ سے زیادہ پروفیسر بن سکتا ہے۔چنانچہ وہ بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں۔جعفر بلوچ شعر گوئی میں شاگرد تو نسیم لیہ اور راجہ محمد عبداللہ نیاز کے ہیں، لیکن ان کے فکری اور وجدانی روابط اسد ملتانی اور کشفی ملتانی سے بھی جا ملتے ہیں۔مولانا مودودی ؒ سے انہیں بچپن ہی سے عقیدت رہی ہے۔غیرشعوری طور پر انہیں چھوٹی "ی"(یائے نسبتی) سے بڑا لگاؤہے۔جعفربلوچ میرے نزدیک ایک ایسا نیاریا ہے جو راکھ میں سے نہیں،ریت میں سے سونے کے ذرے تلاش کرتا ہے۔ انہوں نے غیر معروف لوگوں کو معروف کرانے کی قسم کھارکھی ہے۔یہ ان کا محبوب مشغلہ بھی ہے۔اپنا ذاتی مکان انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر خود تعمیر کیا۔مکان کی بنیادیں خود کھودیں۔ مصالحہ خود تیار کیا۔اپنے ہی مزاج کا ایک نیک دل راج مستری بھی
تلاش کیا اور اسے اینٹیں چننے پر لگا دیا۔باقی ہفت خواں خود طے کیے۔شریک کار ہونے کے علاوہ ہماری دوستی ایک اور رشتے سے بھی قائم ہے۔ہمارا تعلق ایک ہی ضلع مظفرگڑھ سے رہا ہے۔قیام پاکستان کے بعد میں نے مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے علی پور کے ہائی سکول میں داخلہ لے لیاتھا۔اس وقت جعفر بلوچ لیہ کے ایک پالنے میں لیٹے اپنا انگوٹھا چوسا کرتے تھے۔ علی پور کی تحصیل ہیڈ پنچند کے قریب واقعہ تھی۔حد نظر تک سرسبزو شاداب کھیت پھیلے ہوئے تھے۔کھجوروں، آموں اور اناروں کے درخت پھلوں سے لدے رہتے تھے۔اس ماحول کا میرے مزاج پر بڑا خوشگوار اثر پڑا۔لیہ کی تحصیل اس زمانے میں ریگستان کا ایک ویران منظر پیش کرتی تھی۔البتہ کہیں کہیں کھجوروں کے جھنڈ کی صورت میں نخلستان کا تصور بھی اُبھرتا تھا۔جعفر بلوچ پر اس ریگستان کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔یہ ضروری ہے کہ جب سے لیہ ضلع بنا ہے۔جعفربلوچ کا قد بھی نکل آیا ہے اور میں ابھی تک تحصیل ادب کی سطح پر کھڑا ہوں
اور تخلیق کی منزل سے دور ہوں۔جعفربلوچ محبت کرنے والے ایک دردمند استاد ہیں۔لچھے دار گفتگوکرنے والے مقرر نہیں۔اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ان کا ذہن زبان سے زیادہ تیز چلتاہے۔وہ اس قدر تیزی سے سوچتے ہیں کہ الفاظ ان کی سوچ کا ساتھ نہیں دے پاتے۔لفظ پر لفظ چڑھ جا تا ہے۔ تعلیمی اداروں میں تین قسم کے اساتذہ پائے جاتے ہیں۔دبدبے والے، پڑھانے والے، سکھانے والے۔سبھی استاد قابل احترام ہیں۔دبدبے والے اپنا سکہ لباس اور زبان سے جماتے ہیں۔پڑھانے والے مقررہ نصاب ایک سال میں ختم کرا دیتے ہیں، دہرا بھی دیتے ہیں اور اگر وقت نکل آئے تو نوٹس بھی لکھوا دیتے ہیں لیکن سکھانے والے استاد،طلبہ کی تربیت کرتے ہیں اور ان کی شخصیت میں چھپے ہوئے جوہر بھی تلاش کرتے ہیں۔ جعفربلوچ اور ان کے شاگرد اکھڑے اکھڑے نظر آتے ہیں۔سال اختتام کو پہنچتا ہے تو جعفر بلوچ، غالب کے میرن صاحب بن جاتے ہیں۔لوگ ان پر جان نثار کرتے ہیں، صدقے واری جاتے ہیں۔ رسم مشایعت عمل میں آتی ہے اور کبھی کبھار ان کے عقیدت مند ان کے پیچھے ”تودہ قلاقند“بھی لیے پھرتے ہیں۔ وہ اپنے اخلاص فی العلم،بربادی اور جذبہ خیر سے دلوں کو مسخر کرتے ہیں۔لیکچرار بننے سے پہلے جعفربلوچ نے کئی پاپڑ بیلے،ملیریاارڈیکشن پروگرام میں مائیکرو اسکوپسٹ بنے، کھاد کے کارخانے میں نوکری کی، سکول میں پڑھایا، مظفر گڑھ اور پتوکی کے راستوں کی خاک اڑائی لیکن ان پر کسی پیشے کی چھاپ نہیں لگی۔تمام پیشوں کے رنگ ان کی شخصیت کے معصوم رنگ میں گم ہوگئے ہیں۔ان کا مزاج ایسے آہوئے رم خوردہ کاساہے جو کسی ختن میں قید نہیں رہتا۔حیرت زدہ آنکھوں سے دوسروں کو دیکھتا ہے اور پھر چوکڑیاں بھرنے لگتا ہے۔
فرصت میں کسی وقت اسے غور سے پڑھئے
جعفر بھی کسی مصحف اقدس کا ورق ہے