زینب کی یاد۔۔۔ اور یہ مسلی کچلی معصوم لاشیں۔۔۔

پاکستان کا ”سو کالڈ“ اسلامی معاشرہ جس تنزلی کی طرف جا رہا ہے اسے دیکھ کر قصور کی معصوم زینب یاد آ جاتی ہے۔ 2018ء جنوری میں زینب سے ریپ اور قتل کا دلخراش واقعہ ہوا۔ تو وقت ٹیلی ویژن پر محترم سلیم بخاری صاحب کے ساتھ اپنے ٹیلی ویژن پروگرام ٹاکرا میں عوام سے اور اپنے آپ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ زینب کو نہ بھولیں گے اور نہ بھولنے دیں گے۔ زینب کو اپنے دِل و دماغ سے جدا نہیں کریں گے اور ایسی معصوم بچیوں سے ہونے والی زیادتیوں پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ بذریعہ قلم اور بذریعہ آواز اس معاملے کو اٹھاتے رہیں گے۔ لہٰذا اب اپنے قلم کے ذریعے ایسے معاملات کو اُٹھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ کچھ دنوں پہلے بھی اس بارے میں لکھا تھا، لیکن ہر چند دن بعد کوئی نیا دلخراش واقعہ سامنے آ جاتا ہے۔ تو ویسی ہی تکلیف ہوتی ہے جیسی آج سے سات سال پہلے زینب کی لاش دیکھ کر اور اس سے بھی 32 سال پہلے قصور ہی کی ایک اور معصوم بچی کی لاش دیکھ کر ہوئی تھی۔ میو ہسپتال لاہور کے ڈیڈ ہاؤس سے پوسٹ مارٹم کے بعد نکلنے والی معصوم بچی کا کفن میں آدھا چھپا ننھا معصوم چہرہ دیکھ کر وہ تکلیف ہوئی تھی، جس نے بہت دِنوں تک رات کو سونے نہیں دیا تھا۔ اس بچی کے دو قاتلوں کو بھی اس وقت کے ایس ایس پی لاہور (بعد آئی جی) کے حکم پر انہی کھیتوں میں لیجا کے دنیا سے رخصت کیا گیا تھا جہاں انہوں نے اس بچی کے ساتھ درندگی سے ریپ کرنے کے بعد اسے قتل کیا تھا۔ 2018ء والی قصور کی زینب کا قاتل پکڑا گیا اور سزا سنائی گئی، لیکن سچ یہی ہے کہ پولیس کو آج 21 ویں صدی میں بھی اتنی تربیت نہیں دی جا سکی کہ وہ ایسے کیسوں میں اتنے شواہد اکٹھے کر لیں کہ عدالت سے ملزمان کو سخت ترین سزا دلوا سکیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پولیس اپنے ”ڈرائنگ روم“ میں ملزم کے ”اعترافِ جرم“ کو ”کافی“ سمجھ کر بعد خود ملزمان کو سزا دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔تو متعلقہ ڈی ایس پی، ایس پی، ایس ایس پی، ڈی آئی جی یا صوبے کا آئی جی مقدمے کی نوعیت کے مطابق اکٹھے ہو کر ملزم کی عالم بالا کو رخصتی کا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ کاش ایسا نہ ہو۔ تازہ ترین دو تین کیس میں، بلکہ اس سے زیادہ کیسوں میں پولیس یہ قبول کر چکی ہے کہ ملزم یا ملزمان کا ڈی این اے ”میچ“ کر گیا تھا۔ اگر فرانزک لیبارٹری سے ثبوت مل گیا تھا تو اس کے بعد اس سے بڑا کون سا ثبوت ”پولیس اور جج صاحبان“ کو چاہئے تھا۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ ہم سب کو سائنس کی بدولت پتہ ہوتا ہے کہ نئے اسلامی مہینے کا چاند فلاں تاریخ کو نکلے گا، لیکن دور بینیں لگا کر ”چندا ماموں“ کو آسمان پر ڈھونڈنے کی اداکاری کی جاتی ہے۔ اب ڈی این اے نے ملزم کی نشاندہی کر دی کہ ملزم کون ہے تو کیا تلاش کر رہے ہیں۔ آج گھر گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگ گئے ہیں اور کچھ نہیں تو کسی ہمسائے کا کیمرہ ہی ”مطلوبہ منظر“ محفوظ کر لیتا ہے۔اِس کے باوجود پولیس کا کہنا ہے کہ یہ شواہد عدالتوں کے لئے ناکافی ہیں۔ اب تو جج حضرات (اگر اسے اپنی توہین یا اپنے اوپر عدم اعتماد محسوس نہ کریں) سے گزارش ہے کہ وہ کوئی تازہ ریفریشر کورس کر لیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ ڈی این اے میچ ہونا کتنا اہم ہے۔ اس کے بعد اور کیا چاہئے۔ ایک شخص جس کا اس معصوم بچی سے کوئی تعلق نہیں اس کے ”سپرم“ کا اس بچی کے جسم پہ پایا جانا کتنا بڑا ثبوت ہے۔ آخر آپ کو اور کیا چاہئے۔
کیا آج بھی ”اسلامی سزا سنانے“ کیلئے چار نمازی پرہیزگار گواہ چاہئیں،جنہوں نے ”سوئی میں دھاگہ ڈالتے“ دیکھا ہو۔ تب عدالتیں سزا دیں گی۔ یہ قانون ہماری انگریز کی بنائی عدالتوں پر ”لاگو“ نہیں ہوتا۔ یہ اسلامی عدالتوں کا قانون ہے۔ جنرل ضیاء الحق کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے کہ وہ ”اپنے نافذ کردہ“ اسلامی قانون کے ذریعے ”سزا سے بچنے“ کا ایک ایسا ذریعہ فراہم کر گئے جو ہر دولت مند کو انصاف خریدنے کی مکمل صلاحیت عطاء کر دیتا ہے۔
معصوم بچیوں سے ظلم کے تازہ واقعات میں سرائے عالمگیر میں چار سالہ زہرہ کو زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش کو پھینکا گیا اس کے قاتل کی تلاش میں لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے۔ 11 دن کے بعد ملزم کی شناخت ہو گئی جو کہ اسی گاؤں کا 34 سالہ شخص ندیم تھا۔ ملزم ڈی این اے میچ کئے جانے کے بعد گرفتار ہوا جس کے بعد ”پولیس نصاب“ اور ”طے شدہ روایات“کے مطابق وہ تھانے سے ”فرار“ ہو گیا۔ دھند میں کی جا رہی تلاش کے دوران لڑائی جھگڑے کی آوازوں کے بعد گولی چلی۔ اور پولیس کو ملزم کی لاش ملی۔ یعنی ڈی این اے کے بعد بھی ملزم کو مارنا پڑا۔ ایک اور واقعہ جس میں پولیس نے کسی ڈی این اے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی وہ کامونکی کی پانچ سالہ ایمان کا ریپ اور قتل تھا اس معصوم بچی کو اس کے ہمسائے نے درندگی کے بعد جان سے مار کر اس کی لاش گھر کے صحن میں دفنا دی۔ محلے داروں نے ملزم پر شک گزرنے پر اس کی ماں اور ملزم سے سوال جواب کیے تو انہیں گھر میں کچھ جگہ نئی کھدی نظر آئی۔ محلہ داروں نے خود ہی وہ جگہ کھودی تو بچی کی لاش برآمد ہوئی اور اس لاش کے کپڑے اور حالت سب بتا رہے تھے۔محلے داروں نے ملزم کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے اگلے دن کا انتظار بھی نہیں کیا اور ملزم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کی بجائے راتوں رات ”بھگایا دوڑایا“ اور مار دیا۔ ملزم کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ علاقے کے لوگوں نے اس کا جنازہ نہ پڑھنے اور قبرستان میں جگہ نہ دینے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد پولیس نے سمجھا بجھا کر قبرستان کے غیر آباد علاقے میں قبروں سے دور کرین کی مدد سے گڑھا کھودا اور اس لاش کو گڑھے کے اندر رکھ کر مٹی سے دبا دیا۔
سمجھ نہیں آتی یہ واقعات کب رکیں گے، کیسے رکیں گے کون روکے گا، کیا پولیس کی ملزموں کو رات کے اندھیرے میں براہ راست آسمان پر پہنچانے کی کوششوں سے ”درندگی کے ان واقعات“ کو روکا جا سکے گا۔ سزائیں کیسے دی جائیں گی اور کون سزا دے گا۔ اس سوال کا جواب جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب ہی دے سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭