مقبوضہ کشمیر پھر سے جاگ اٹھا ہے       (2)

  مقبوضہ کشمیر پھر سے جاگ اٹھا ہے       (2)
  مقبوضہ کشمیر پھر سے جاگ اٹھا ہے       (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرا یہ کالم ہفتے میں دو روز شائع ہوتا ہے، ایک جمعہ کو اور دوسرا پیروار کو…… اخبار کی انتظامیہ سے میری درخواست ہے کہ وہ ادارتی صفحہ کے کالموں کو بھی جاری روزانہ خبروں کے ساتھ منسلک کر دیں۔ میرا مطلب ہے کہ اگر کوئی اہم واقعہ / حادثہ بالخصوص پاکستان یا اس کے کسی ہمسایہ ملک میں ہوتا ہے اور کوئی کالم نگار اس واقعے پر قلم اٹھاتا ہے تو اس پر بحث کرنے کے لئے کسی کالم نگار کے کسی مقررہ یا موعودہ دن کاانتظار نہ کیا جائے بلکہ اسی روز اس کالم کو شائع کر دیا جائے۔

یہ درست ہے کہ اس طرح کے واقعے یا حادثے کی خبریں صفحہء اول پر شائع کر دی جاتی ہیں لیکن پرنٹ میڈیا میں اس خامی کا کوئی علاج نہیں کہ کوئی خبر فوراً ہی اسی لمحے یا اسی ساعت میں اخبار میں شائع نہیں ہو سکتی …… مثال کے طور پر اگر کوئی اہم واقعہ کسی روز صبح سے شام تک کے بارہ گھنٹوں میں رونما ہوتا ہے تو سوشل میڈیا تو اسی لمحے اس واقعے کی تفصیل اور اس پر بحث و مباحثے کواسی ساعت شائع کر دیتا ہے اور وہ قاری جس کے پاس سمارٹ موبائل فون ہو، اس کو پڑھ بھی لیتا ہے اور جس کے پاس نہیں بھی ہے تو وہ یہ خبر اس کو سنا دیتا ہے جبکہ اخبار ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے وقتِ مقررہ اور یومِ موعودہ پر ہی شائع ہونا ہوتا ہے۔ 

سوشل میڈیا کو یہ تفوق حاصل ہے کہ وہ فی الفور اسے ”خبرنامے“ میں ڈال دیتا ہے اور ”صاحبانِ سمارٹ موبائل فون“ اس کو فوراً پڑھ اور جان لیتے ہیں …… اس پرابلم کا کوئی حل تو اب تک دریافت نہیں ہو سکا اور امید ہے کہ آئندہ بھی نہیں ہو سکے گا۔ہاں البتہ ادارتی صفحہ کے کالموں میں جوبحث کی جاتی ہے وہ شاید سوشل میڈیا پر اس تفصیل اور انداز سے اپ لوڈ نہ کی جا سکے کہ جو پرنٹ میڈیا پر کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر مقبوضہ کشمیر (پہل گام) میں ایک اہم واقعہ 22اپریل کو رونما ہوا۔ اس روز منگل کا دن تھا۔چار بجے بعد دوپہر اس واقعے کی خبر دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تھی۔ میں نے اس پر اسی وقت کالم لکھ دیا۔ لیکن میرے کالم کے شائع ہونے کا مقررہ دن تو جمعہ (25اکتوبر) تھا…… اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بحث تین روز کے بعد شائع ہوئی…… اندریں حالات میری گزارش ہے کہ اس پہل گام کی طرح کے واقعے کو کالم نگاری کا حصہ، وقوعِ حادثہ سے ایک دن بعد شائع کیا جا سکتا تھا یعنی بدھ وار کو۔ لیکن میرا یہ کالم بدھ کو نہیں بلکہ جمعہ کو شائع کیا گیا کہ میرا کالم جمعہ اور پیر کے روز ہی شائع ہوتا ہے۔

ادارتی صفحہ کے انچارج چودھری خادم حسین صاحب نے میرا کالم پڑھنے کے بعد جب میری توجہ اس بات کی طرف مبذول کروائی کہ اس حادثے کی مزید تفصیل بھی سوشل میڈیا پر آ رہی ہے، اس کا کیا کریں؟ میں نے جواب دیا کہ پرنٹ میڈیا اور بالخصوص میرے کالم کا یومِ مقررہ تو پیروار (Monday) کو ہوگا۔ اس لئے مناسب یہ ہوگا کہ میرے اس کالم کے خاتمے کے بعد ”جاری ہے“ لکھ دیا جائے تاکہ میں اپنے اگلے کالم میں اس کی وہ تفصیل بھی لکھ سکوں جو آپ بتلا رہے ہیں۔چنانچہ انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا اور اس طرح یہ حصہ کالم جوآپ کی نظرسے آج گزر رہا ہے اس کا تعلق 23اپریل سے ہے نہ کہ آج 28اپریل سے۔ گزشتہ کالم میں اس واقعے کی مزید تفصیل نہیں دی جا سکی تھی۔ آج یہ تفصیل لکھ رہا ہوں تو یہ بھی پانچ دن کی تاخیر کے بعد (23اپریل تا 27اپریل)

نریندر مودی صاحب نے اس واقعہ پر اپنے سویلین وزراء اور دیگر عہدیداروں سے بحث و مباحثہ کے بعد جو بیان جاری کیا ہے، اس کے درج ذیل سات بڑے بڑے نکات / حصے قابل غور ہیں:

1۔ سندھ طاس پانی کا منصوبہ زیرِ التواء رہے گا۔

2۔پاکستان سے آنے والے تمام پاکستانی سیاح 48گھنٹوں کے اندر اندر واپس چلے جائیں گے۔

3۔واہگہ اٹاری بارڈر فی الفور بند کر دیا جائے گا۔

4۔پاکستان کے ساتھ کسی بھی جگہ کوئی کرکٹ میچ کھیلا نہیں جائے گا۔

5۔سارک (Saark) وغیرہ کا ویزہ بھی بند کر دیا جائے گا۔

6۔موجودہ تمام ویزے ختم متصور ہوں گے۔

7۔سفارتی عملے کے بیشتر بھارتی اراکین واپس بلا لئے جائیں گے۔

8۔پاکستان آرمی ہمارے حملے کی منتظر رہے گی۔

جونہی یہ خبر پاکستان پہنچی تو فوراً پاکستانی نیشنل سیکیورٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا جس میں ٹاپ کے سویلین اور فوجی عہدیدار شامل تھے۔ اس اجلاس  کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا وہ انڈین اعلامیے کا ”ترکی بہ ترکی“ جواب تھا۔

اس کی شقوں میں سب سے اہم شق یہ تھی کہ اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی روکاتو یہ ایک ”کھلی جنگ“ تصور کی جائے گی اور پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا، تمام بھارتی ویزے منسوخ متصور ہوں گے اور تمام ہندوستانی شہریوں کو 48گھنٹوں کے اندر اندر پاکستان  سے نکل جانا ہوگا۔ بھارتی سفارت خانے کے عملے کو بھی 48گھنٹوں کے اندر اندر پاکستان سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا اور یہ بات زور دے کر کہی گئی کہ اگر سندھ طاس منصوبہ جو 9برس کی باہمی گفت و شنید کے بعد ستمبر 1960ء میں روبہ عمل لایا گیا تھا اس پر اگر بقول مودی یکطرفہ عمل کیا گیا تو بھارت کھلی جنگ کے لئے تیار رہے، کوئی بھارتی طیارہ پاکستانی فضائی حدود کے اندر پرواز نہیں کر سکے گا اور ہر قسم کی باہمی تجارت بھی ختم تصور ہوگی۔

پنجابی زبان کے بعض محاورے اور ضرب الامثال کی زبان ایسی ”بے نقط“ ہے کہ اس کو اردو زبان میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔

البتہ اس کی متبادل اور ”شریفانہ“ نقل وہ اردو محاورہ ہے جو اس طرح ہے: ”گھٹنے کو درد ہو تو دانت نکلواؤ“……

پہل گام پر حملہ تو خود وہاں کے کشمیری حریت پسندوں نے کیا تھا، مودی جی کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی اس سیکیورٹی پارٹی سے جواب طلب کرتے جو وہاں متعین تھی اور پوچھتے کہ وہ کہاں غائب تھی لیکن اس کی بجائے انہوں نے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا!…… ہاں اگر کوئی شواہد وہاں سے مل جاتے کہ اس حملے میں پاکستان ملوث ہے تو اور بات تھی اور وہ حق بجانب تھے کہ سندھ طاس کا پانی بند کرنے کا ذکر کرتے اور دوسرے وہ اقدامات کرتے جن کا ذکر اوپر کیا گیا۔ یہی وہ بات ہے جو مودی گورنمنٹ کے کسی کارندے کی سمجھ میں نہیں آتی۔ درد کہاں ہوتا ہے اور علاج کہاں کیا جاتا ہے!

انڈین نیشنل سیکیورٹی کے چیف اجیت دوول کو خوب معلوم ہے کہ ان کی انٹیلی جنس، پاکستان کے ہمسائے افغانستان کے مشرقی صوبوں میں بیٹھ کر کیا کارستانیاں کرتی رہتی ہے۔وہ TTP سے مل کر بلوچستان میں دن رات جو پاکسان مخالف سرگرمیاں پلان اور Execute کرتی رہتی ہے کیا اس کی خبر جناب مودی کو نہیں دی جاتی؟…… اگر دی جاتی ہے تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہر اچھے بُرے عمل کا ایک ردِ عمل بھی ہوتا ہے۔ یہ ردِعمل پاکستان کی حکومت یا پاک آرمی نہیں کرتی بلکہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند کرتے اور کرواتے ہیں۔ یہی آزادی خواہ لوگ وسطی اور مشرقی ہندوستان میں بھی سرگرمِ عمل ہیں۔ کشمیر میں ان کو روکنے کے بجائے مودی جی نے پہلے تو کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کیا اور اب ہر تین ماہ بعد سینکڑوں پنڈت اندرونِ بھارت سے لا کر وادی کشمیر میں ”آباد“ کئے جارہے ہیں …… مقصود یہ ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کا توڑ کیا جائے تاکہ جب بھی وہاں الیکشن ہوں تو یہ ہندو پنڈت آگے آکرکشمیری مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کی سبیل کریں۔

پہل گام پر حملے کے ”دہشت گرد“ تو پکڑے نہیں جا سکے۔ بس فرض کرلیا گیا ہے کہ یہ پاکستان کی طرف سے آئے ہیں۔ وہاں مقبوضہ کشمیر میں پانچ لاکھ انڈین آرمی جو دن رات وادی کے چپے چپے کی نگرانی پر متعین ہے اس سے پوچھا جائے کہ اس علاقے کی سیکیورٹی کی ذمہ دار ”چنار کور“ 22اپریل کو بوقتِ دوپہر کہاں سوئی ہوئی تھی؟…… یعنی یہ وہی ضرب المثل ہے کہ گھٹنے کے درد کا علاج دانت کے درد کے علاج میں ڈھونڈ اجائے…… پنجابی قارئین اس ضرب المثل کی مترادف پنجابی ضرب المثل کو یاد کریں گے تو ان کو ہنسی بھی آئے گی او رمودی جی کے اس فیصلے کی قلعی بھی کھل جائے گی۔

 (ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -