جنوبی پنجاب مردہ باد ، نئے صوبے زندہ باد ۔ ۔ ۔

جنوبی پنجاب مردہ باد ، نئے صوبے زندہ باد ۔ ۔ ۔
جنوبی پنجاب مردہ باد ، نئے صوبے زندہ باد ۔ ۔ ۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پنجاب اسمبلی پریس گیلری ( نواز طاہرسے)انداز و بیان اور تہذیب و شائستگی پارلیمانی زبان و اطوار کہلاتی ہے جس کی روشن مثال پاکستان کی اسمبلیاں بھی رہی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا انحطاط بڑھتا جا رہا ہے معقول وجوہ کا سہارا لئے بغیر موقف اور اور الفاظ بدلنا عام ہوگیا ۔غیر جانبدار قرار دیے جانے والے منصب بھی گیر جانبداری کے مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ اسمبلیوں میں جانی دشمنوں کی طرح لڑائی کرتے نظر آنے والے اراکین اپنے معاملات میں اس کے بالکل مختلف نظر آتے ہیں اور ا ن کی ’نورا کشتی ‘ کبھی انسانی اور کبھی کیمرے کی آنکھ دیکھ لیتی ہے ۔ منگل کو شروع ہونے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس اگرچہ ایجنڈے کی کارروائی کے قریب سے بھی گزرے بغیر ہنگامہ آرائی اور کورم کا شکار ہوگیا لیکن اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی حکومت اور اپوزیشن میں معاملات طے ہوتے دیکھے گئے ۔ جس وقت اراکین کو پکارنے والی گھنٹیاں بھی تھکی محسوس ہورہی تھیں اس وقت محکمہ ایسائز اینڈ ٹیکسیشن کے پارلیمانی سیکرٹری آجاسم شریف ایوان میں آئے اور انہوں نے اپوزیشن اراکین اعظمیٰ بخاری ،ساجدہ میر، سیمل کامران اور ثمینہ خاور حیات سے کہا کہ چونکہ آج سوالوں کے جواب میں نے دینے ہیں اسلئے ’ہاتھ ہلکا‘ رکھیں ۔ ان اراکین میں کچھ دیر تک خوشگوار ماحول میں مکالمہ ہوا ۔ ایک رکن نے آجاسم شریف کےطنز کیا کہ آج کسی سوال پر ضمنی سوال نہیں ہوگا اور سب اچھا ہے کہا جائے گا تو وہ کچھ چِڑ گئے لیکن مطمئین ہوکراپنی نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ان کی گڈ لک تو یہ رہی کہ سوالوںپر بحث کی نوبت ہی نہ آسکی ۔اجلاس شروع ہوتے ہی ایوان کا ماحول کشیدہ ہوا تو وزیر قانون اپنی نشست پر خاموش بیٹھے رہے جبکہ حکومت کیخلاف اور صوبہ جنوبی پنجاب کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے ہوئے و زیر قانون کی جانب دیکھ کر مسکراتے رہئے۔ سپیکر کی ڈائس کے سامنے احتجاج کے دوران بھی یہ صورتحال برقرار رہی جہاں پیپلز اپوزیشن اراکین جنوبی پنجاب ، بہاولپور صوبہ زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ایک دوسرے سے مذاق بھی کرتے رہے۔ جس سے کئی بار یہ تاثر بھی ابھرا کہ حکومت اور اپوزیشن درحقیقت کوئی اختلاف ہے ہی نہیں ۔البتہ ایک دوسرے کی قیادت پر تنقید اور سخت جملے استعمال کئے جانے کے موقع پر تو ایسا بھی لگا کہ کہ ابھی دست و گریبان ہو جائیں گے کیونکہ جنوبی پنجاب کی حمایت اور مخالفت میں نعروں کے دوران ن لیگ کے کیلئے ’گماشتے“ جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا تو پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زارادری’ ڈاکو‘ کا لفظ استعمال ہوا لیکن لیکن معاملہ اس کے برعکس رہا اور اراکین ایک دوسر سے مذاق کرتے نظر آئے ۔ یوں ایجنڈے کی کارروائی ٹچ کئے بغیر ہی اجلاس ختم ہو گیا جس کے ساتھ ہیں سارے ارکان شیرو شکر ہوگئے ،اس طرح جنوبی پنجاب کا معالہ ٹھٹوں میں اُڑا دیا مجموعی طور پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے ’ مل ملا ‘کر احتجاج کیا ،سر کاری فنڈز سے دیہاڑی پکی کی اور نورا کشتی کر کے گھروں کو چلے گئے ۔اجلاس کے بعد واپس جاتے ہوئے ایک سینئر پارلیمینٹرین نے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے تو بہت شرم آئی ، اس بہتر تو پنچائت کے لوگ ہوتے ہیں ، وہاں بھی بات کسی مناسب انداز سے کی جاتی ہت جبکہ یہاں تو منتخب لوگوں کی کریم ہے اس میں جو جھلک نظر آتی ہے وہ قابلِ ستائش نہیں ، اسمبلی ایسی تو نہیں ہوا کرتی تھی۔

مزید :

لاہور -