انٹری ٹیسٹ ،جوہر قابل کا قاتل،اکیڈیمیز کا مافیا

انٹری ٹیسٹ ،جوہر قابل کا قاتل،اکیڈیمیز کا مافیا
انٹری ٹیسٹ ،جوہر قابل کا قاتل،اکیڈیمیز کا مافیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘‘ دسویں جماعت اچھے نمبروں سے پاس کرنے والے زیادہ تر طالب علموں سے یہی فقرہ سننے کوملتا ہے۔ مسیحا کہلانے والے یہ لوگ انسانیت کی کس قدر خدمت کرتے ہیں‘ اس کا اندازہ آپ سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں بیٹھے عام ڈاکٹروں اور سپشلسٹوں کی فیسوں‘ لکھے گئے ٹیسٹوں سے حاصل ہونے والی کمیشنوں اور پرائیویٹ ہسپتال میں چھوٹا موٹا آپریشن کرکے آٹھ دس ہزار کی دیہاڑی لگانے کے آئے روز ہونے والے انکشافات سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کی ہر دوسرے چوتھے ہفتے ہنگامہ آرائی کی خبریں بھی آپ کی سماعت سے گزرتی ہوں گی‘ مخصوص کمپنیوں سے کمیشن لے کر صرف ان کی مہنگی ادویات پر مبنی نسخہ لکھ کر دینے والا معاملہ تو اب پُرانا ہو چکا ہے۔ ممکن ہے پاس ہونے والے بچے انسانیت کی خدمت کا ہی جذبہ رکھتے ہوں‘ لیکن جب انہیں اچھے نمبروں میں امتحان پاس کرنے کے باوجود انٹری ٹیسٹ کے بیزار کن اور پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تو یقیناً وہ اپنی سوچ تبدیل کر لیتے ہوں گے۔ہمارے ملک میں جس طرح مختلف شعبوں‘ اداروں اور محکموں کو مختلف النوع مافیاز نے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے‘ اسی طرح انٹری ٹیسٹ بھی ایک مافیا کی شکل دھار چکا ہے۔
حال ہی میں ایم بی بی ایس میں داخلہ لینے کے خواہش مند طلبا و طالبات کو اس وقت شدید کرب اور اذیت سے گزرنا پڑا جب میڈیکل کالجز میں داخلہ ٹیسٹ کے پیپرز آؤٹ ہونے کے بعد ہائی کورٹ نے انٹری ٹیسٹ کے نتائج پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے تو یہ حکم دینا ہی تھا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ پیپر آؤٹ کیسے اور کیوں ہوا؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انٹری ٹیسٹ پر زور تو بہت دیا جاتا ہے‘ لیکن اس حوالے سے سیکریسی کا کوئی نظام یا انتظام نہیں ہے اور اگر یہ اب آؤٹ ہوا ہے تو ممکن ہے ماضی میں بھی مخصوص‘ مطلب بھاری آسامیوں کو بھاری معاوضے پر فراہم کر دئیے جاتے ہوں اور یوں ایم بی بی ایس میں بھی میرٹ کا اسی طرح قتل کیا جاتا ہو‘ جیسے دوسرے شعبوں میں کیا جاتا ہے اور اس پر شرم بھی محسوس نہیں کی جاتی۔
اس ٹیسٹ کو ایم کیٹ MCATٰیعنی میڈیکل کالجز ایڈمشن ٹیسٹ Medical Colleges Admission Test کہا جاتا ہے۔یہ ٹیسٹ Multiple choice questions (MCQs) کے ذریعے لیا جاتا ہے یعنی ایک سوال کے کئی جواب لکھے گئے ہوتے ہیں اور طالب علم کو ان میں درست جواب کی نشان دہی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن نتائج نیگیٹو سسٹم کی بنیاد پر دئیے جاتے ہیںیعنی اگر درست نشان لگایا تو بصورت دیگر غلط نشان لگانے کی صورت میں نمبر کٹ بھی جاتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی بچے پر دباؤ ہوتا ہے۔ امسال بھی امتحانی ماحول سے نکلنے والے کتنے ہی بچے رو رہے تھے اور ان کے والدین پریشان تھے۔ بعض بچوں کو غشی کے دورے بھی پڑے تھے۔ انٹری ٹیسٹ کے اجرا ‘ انعقاد اور نتائج مرتب کرنے کے نظام میں بہت سے سقم ہیں‘ جن پر دلائل سے تنقید کی جا سکتی ہے۔ اس ٹیسٹ کا آغاز چند سال پہلے ہی ہوا ہے‘ ورنہ اس سے پہلے بورڈوں کے نتائج کی بنیاد پر براہ راست ہی میرٹ پر آنے والے بچوں کو ایم بی بی ایس میں داخلہ دے دیا جاتا تھا۔ اس ٹیسٹ کے آغاز کا مقصد اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ خود حکومت کو اپنے تعلیمی بورڈوں کے نتائج پر اعتماد اور اعتبار نہیں ہے اور وہ ڈاکٹری میں دل چسپی رکھنے والوں کا ایک اور ٹیسٹ لینا ضروری سمجھتی ہے۔ اب اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کامقصد میرٹ کو یقینی بنانا تھا یا میرٹ کی دھجیاں اڑانا‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ شروع دن سے ہی یہ ایم کیٹ تنقید کی زد میں ہے‘ جو بلا سبب نہیں ہو سکتی۔
میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کے خواہش مند کتنے ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پنجاب کے میڈیکل کالجز میں 3400سیٹیں ہیں‘ جس کے لئے ہر سال تقریباً 45000طلبہ ایم کیٹ کا امتحان دیتے ہیں ۔ اس صورتحال سے نجی اکیڈمیاں بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ حال ہی میں میڈیکل انٹری ٹیسٹ کا پیپر ایک نجی اکیڈمی نے ہی 50000روپے فی طالب علم فروخت کیا تھا۔ اس پر بچوں کے والدین اور خود بچے سراپا احتجاج بن گئے اور کہا کہ بچوں کا مستقبل داؤ پر لگانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ یہ پیپر اس نجی اکیڈمی والوں کے ہاتھ لگا کیسے؟ اور اس بار ہاتھ لگا ہے تو کیا ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے؟ وہ بچے جنہوں نے دن رات محنت کرکے میٹرک اور انٹر میں پوزیشنیں حاصل کیں اور نوے فیصد سے زائد نمبر حاصل کئے‘ اپنے ساتھ ہونے والی اس سنگین ناانصافی پر مایوس اور تعلیمی نظام سے بد دل ہوتی جا رہی ہے۔ اس ناانصافی کا شکار محض بچے ہی نہیں ‘ ان کے والدین بھی ہیں‘ جنہوں نے اپنے بچوں پر دن رات محنت کی ہوتی ہے ۔ میں ایک ایسے ادارے کے سربراہ کے طور پر کام کر رہا ہوں جو طلبہ کو ہی ڈیل کرتا ہے۔ ایسے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے میں مالی معاونت کرتا ہے‘جو لائق ہونے کے باوجود مالی مسائل کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے قابل نہیں ہوتے‘ چنانچہ میں ایسے بچوں کو جانتا ہوں ‘ جنہوں نے ایم کیٹ کے انٹری ٹیسٹ کے لئے تین تین سال تک انتظار کیا ‘ اور ایسے گھرانوں سے بھی واقف ہوں ‘ جنہوں نے اپنے بچے کو ایم بی بی ایس یا انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے اپنی جائیدادیں تک فروخت کر دیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ انٹری ٹیسٹ کا پرچہ آؤٹ ہونے‘ اکیڈمیوں کی ہزاروں روپے فیس نہ دے سکنے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرے جانے پر وہ کیا سوچتے ہوں گے۔نجی اکیڈمیوں نے کیا لوٹ مار مچا رکھی ہے‘ اس کا اندازہ اس یوں لگائیے کہ اس وقت صرف لاہور میں 200سے زائد نجی اکیڈمیاں اس کاروبار میں متحرک ہیں اور امیدواروں سے من مانی فیسیں وصول کر رہی ہیں۔ بعض اکیڈمیوں میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کی فیس گھنٹوں کے حساب سے لی جاتی ہے ۔ ایگزیکٹو گروپ کی تیاری کی فیس فی طالب علم پچاس ہزار روپے رکھی گئی ہے۔سپر ایگزیکٹو گروپ کی اس سے بھی زیادہ ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ وہ لائق طالب علم جنہوں نے اعلیٰ نمبر حاصل کئے اور جو ان نجی اکیڈمیوں کی فیسیں افورڈ نہیں کر سکتے‘ وہ کیا کریں؟ اگر یہ نجی اکیڈمیاں ایم کیٹ کے سوالیہ پیپرز تک رسائی حاصل کرکے اپنے طلبہ کو وہ پیپرز فراہم کر دیتی ہیں یا حل کرا دیتی ہیں تو اس سے ان لائق طلبا و طالبات کی جو حق تلفی ہوتی ہے‘ اس کا کیا مداوا ہے حکومت کے پاس ؟ ایم بی بی ایس میں داخلوں کا معاملہ اس قدر پیچیدہ اور گنجلک بنا دیا گیا ہے انٹر میڈیٹ پاس کرنے والے بچوں کے لئے عذاب بن چکا ہے۔ڈاکٹروں کے لئے کوئی بہت اچھا سرکاری سروس سٹرکچر موجود نہیں ہے ‘ لیکن نجی سیکٹر میں یہ ایک منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے اس لئے ایف ایس سی پاس کرنے والا ہر طالب علم ایم بی بی ایس میں داخلے کو ترجیح دیتا ہے۔
ان مسائل پر قابو پانے اور انہیں حل کرنے کا میرے نزدیک بہترین طریقہ یہ ہے کہ بورڈوں اور یونیورسٹیوں کے امتحانات کو فول پروف بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ کسی مزید انٹری ٹیسٹ کی ضرورت پیش نہ آئے۔ دوسرے حکومت کو چاہئے کہ ہر سال میڈیکل کی سیٹوں کی تعداد میں کچھ اضافہ کرے تاکہ کچھ مزید طلبا کو داخلے کی سہولت فراہم کرکے مسابقت کی شدت اور نجی اکیڈمیوں کی لوٹ مار کے گراف کو نیچے لایا جا سکے۔تیسرے‘ نجی میڈیکل کالجز میں فیسیں کم کرائی جائیں تاکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی ان میں داخلے لے سکیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ چوتھے‘ میڈیکل سے ہی منسلک دوسرے شعبوں میں سروس سٹرکچر کو بہتر بنایا جائے تاکہ ان کا سکوپ بڑھے اور سارے طالب علموں پر صرف ایم بی بی ایس کی ہی دھن سوار نہ ہو۔ ہمیں اچھے فارماسسٹس کی ضرورت ہے‘ اچھے پیرامیڈیکل سٹاف کی ضرورت ہے‘ اچھے فزیوتھراپسٹس کی ضرورت ہے‘ اچھے ڈینٹسٹس کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت اسی وقت پوری ہو سکتی ہے‘ جب ان شعبوں میں تنخواہیں بڑھا کر اور سروس سٹرکچر بہتر بنا کر پُرکشش بنایا جائے گا‘ ورنہ تو اسی طرح بھگدڑ مچی رہے گی اور میرٹ کی دھجیاں جا بجا بکھری نظر آتی رہیں گی۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -