”بکرے دی رنگ ٹونز“

”بکرے دی رنگ ٹونز“
 ”بکرے دی رنگ ٹونز“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھائی جان نقل کے لئے بھی عقل چاہئے ہوتی ہے بندے کو جب اُڑنا نہ آتا ہو تو پنگے نہیں لینے چاہئیں۔آپ کو کس نے کہا کہ الیکشن میں ڈکیتی کریں وہ بھی آر اوز کو چکوا کے،یار عقل کو ہاتھ مارو۔2013 ء کے الیکشن سے سیکھنا تھا کہ آر او ز کے ذریعے کیسے الیکشن جیتا جاتا ہے۔تسی تے کم ای چک دتا،سیکھیں 2013ء میں کیسے ہینگ لگی تھی نہ پھٹکری اور رنگ بھی وا وا چوکھا آگیا تھا۔الیکشن کمیشن نے لاڈلے کے خلاف فیصلہ دے کر تاریخ میں نام رقم کر لیا۔شکر ہے کسی ادارے نے تو تھوڑا سا فرنٹ فٹ پر آکر سیدھا چھکا مارا اور پی ٹی آئی کو بونڈری سے باہر پھینک دیا۔ورنہ ہمارا انصاف تو ماشاء اللہ۔۔۔مجسٹریٹ صاحب نے سنتا سنگھ کو کہا شرم نہیں آتی پچاس سال کی عمر میں لڑکیوں کو چھیڑ تے ہو،سنتا سنگھ بولا سرکار چھیڑا تو تیس سال پہلے تھا،مقدمہ اب تک چل رہا ہے۔مزید آگے کچھ نہیں کہنا ورنہ مجھے اسلام آبادی وکلاء کا حصہ نہ سمجھ لیا جائے۔ہم بھی نعیم بخاری کے پیرو کار ہیں اس لئے بطور سند لکھ دیا کہ بوقت ضرورت کام آوے گی۔پاکستان آزادی سے لیکر آج تک لاڈلوں اور لاڈلیوں کے لئے خدمات سر انجام دے رہا ہے۔

طاقت ور کے سامنے ”ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی“گاتا ہے اور غریب کے لئے ”جا جا وے جا جھوٹیا“ رہ جاتا ہے۔مجھے تو لاڈلے کا لاڈ ختم ہو کر لاڈلی کی طرف مڑتا نظر آرہا ہے۔خیر سے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ بھی سر پر آن کھڑا ہے،لیکن میری بات لکھ لیں بعد میں کہئے گا کہ ارسطو ثانی نے بتایا نہیں تھا۔آپ جو مرضی کر لیں ریفرنس پہ ریفرنس ٹھوک دیں۔پچھلی بار نوٹ تھیلوں میں گئے تھے اس بار بوریوں میں وصول کئے جائیں گے۔سیاسی دلال ہر جماعت کا بوہا کھڑکا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ”مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے“بس آپ ان سے ایک بار بات پکی کر لیں وہ ”بوہے باریاں تے کنداں ٹپ کے“آجائیں گے۔میری طرح سب سپریم کورٹ کے منتظر ہیں،اس کے فیصلے کے بعد میدان سجے گا۔لیکن کچھ ارکان کے ضمیر ٹکا ٹوکری نہیں ہو ں گے،بولی لگے گی اور خوب لگے گی۔جو ارکان کروڑوں روپے خرچ کے ارکان اسمبلی بنتے ہیں وہ اس لئے نہیں بنتے کہ یہ بیس کروڑ گبھر سنگھ خوش ہو جائیں۔اب مجھے بتائیں کہ الیکشن کمیشن نے گنڈاسا نکال لیا ہے اور نوری نت سے لے کر مکھو جٹی سب سہمے ہوئے ہیں۔

لیکن الیکشن کمیشن،الیکشن  کمیشن کے ساتھ  ”انصاف“ بھی ہے تو اس لئے اندھا بھی ہے ورنہ این اے 75 میں جس طرح دونوں جانب سے کروڑوں روپے بہائے گئے اور الیکشن قوانین ”دل ہو بو کاٹا“گاتے بُلھے کی ہوا کے ساتھ اُڑن چھو  ہو گئے۔حلقے میں سیاسی جماعتیں سٹیکر لگے گھی آٹے اور چینی کے توڑے تقسیم کرتے رہے۔جس طرح تھا ں تھاں دیگیں،قیمے والے نان،بڑے بڑے بینرز،پوسٹرز لگے کیا وہ الیکشن قوانین کی خلاف ورزی نہیں لیکن میرے سیّاں اناڑے نے آر اوز کو چک کر سوتے روشن کھو جگا دیا۔بہر حال اب گیند اک واری فیر شیر شیر کہہ رہی ہے۔بنتا سنگھ کی بیگم سیڑھیوں سے گر گئیں اوپر والا ہونٹ پھٹ گیا۔ڈاکٹر بولا ہونٹ سینا پڑے گا۔تین سو روپے لگیں گے بنتا سنگھ بولا ایہہ لو چھ سو روپے دوویں سی دیو۔ہم تو 1947ء سے سیڑھیوں سے گر پڑے تھے اور عدلیہ،مقننہ اور اسٹیبلشمنٹ نے سچ کہنے والوں کے بڑے طریقے سے ہونٹ سی دیئے۔جو رہ گئے وہ ہمیشہ جے ہو مہاراج ہی پکارتے رہ گئے۔آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے کوئی انقلاب آ جائے گا تو کہے دیتا ہوں کہ پنچوں کاکہا سر آنکھوں پر،پر پرنالہ وہیں بہے گا۔

پاکستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں ایک کٹا باندھ بھی لو تو دوسرا کھل جاتا ہے۔اس لئے یہ دھونس،دھاندلی لوٹ مار کا نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔اور اس کے لئے سٹیک ہولدر نہایت ایمانداری سے بے ایمانی کرتے رہیں گے کیا کریں گندہ ہے پر دھندہ ہے۔رہی عوام تو اس کا کام سو جوتے کھانا اور سو پیاز کھانا ہے وہ نہایت تزک و احتشام سے یہ فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔سنتا سنگھ نے بکرا ذبح کر دیا اور بولا اس کے گردے کپورے تل کر کھاؤں گا،پُٹھ کی بوٹیوں کی چانپیں بنواؤنگا،نرم گوشت کی کالی مرچوں والی کڑاہی،چربی کا گھی اور کھال کی جیکٹ بن واؤں گا،قصائی بولا پاہ جی ایسدی آواز ریکارڈ کر لو موبائل دی رنگ ٹون بنا لینا۔الحمد اللہ سیاست کے سنتوں،بنتوں نے قوم کی اوجھڑی پکائی،گردے کپورے کھائے،چانپیں چابیں،چربی نکالی اور آواز تو پہلے روز سے قومی سیاست کی رنگ ٹونز میں جیوے جیوے،آوے ای آوے ،شیر اک واری فیر،دیکھو دیکھو کون آیا۔۔۔اب آپ کو کیا بتاؤں یہ ٹونز تو آپ خود بھی اپنے حلق سے نکالتے رہتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -