آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی

مجھے 2004ء میں دو دفعہ انڈیا جانے کا موقع ملا۔ تب پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ انہوں نے ادبی، علمی اور ثقافتی وفود کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جتنے لوگ پاکستان سے ادھر جاتے تھے، چند ماہ بعد اتنے ہی لوگ ادھر سے اِدھر آتے تھے۔ پاکستانی وفود ورلڈ پنجابی کانگریس کے بینر تلے واہگہ کے راستے انڈیا جاتے تھے۔ کانگریس کے مدارالمہام فخر زمان صاحب تھے جو اس وقت پنجاب، پنجابی اور پنجابیت کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔ پہلی بار ہمارا وفد امرتسر، چندی گڑھ اور دلی تک محدود رہا۔ دوسری بار ہمیں ہریانہ لے جایا گیا۔ تب ہریانہ کے وزیراعلیٰ اوم پرکاش چوٹالا تھے (آج تقریباً 80 برس کی عمر میں وہ ہمارے نیب جیسے اداروں میں پیشیاں بھگتتے پھر رہے ہیں)۔ اوم پرکاش چوٹالا صاحب نے ہریانہ کے دارالحکومت چندی گڑھ کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی میں ایک پنجابی کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا۔ رات کیوقت ایک ثقافتی شو بھی منعقد ہوا، جس میں چوٹالا صاحب نے بالی وڈ کے سینئر اداکار سنیل دت کو بطور مہمان خصوصی مدعو کر رکھا تھا، لیکن عین وقت پر ان کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ دت صاحب کی مروت اور وضع داری دیکھئے کہ وہ خود نہیں آسکے توپاکستانیوں کی دلداری اور میزبانی کے لئے اپنے بیٹے سنجے دت کو بھیج دیا۔کْرک شیتر یونیورسٹی میں وائس چانسلر صاحب بھی آئے۔ وی سی صاحب کے ساتھ ایک صاحب چپکے ہوئے تھے۔ جو پاکستانی ادیب یا صحافی وی سی صاحب کو اپنی کتاب تھمانا چاہتا وہ کہتے: ”آپ میرے او، ایس، ڈی کے حوالے کر دیجیے“۔یہ او ایس ڈی صاحب بہت سرگرم تھے۔ سب کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ ہمارے ہاں تو او ایس ڈی بننے والے افسر عضو معطل بنا دیئے جاتے ہیں۔ انہیں پرکشش کرسی سے اٹھا کر کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔ حاضر سروس افسراو ایس ڈی کو منہ لگانا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں صورتِ حال بالکل الگ ہے۔ میں نے آخراسی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کے ہاں او ایس ڈی کا کیا مطلب ہے؟ وہ بولے: ”اس کا مطلب ہے، آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی، یہ وی سی صاحب کے پرسنل اسسٹنٹ ہیں“۔ تب یہ بات میری سمجھ میں آئی، جس آدمی کو ہمارے ہاں پی اے کہا جاتا ہے، انڈیا میں اسے او ایس ڈی کہتے ہیں۔دوسری بات یہ دیکھنے میں آئی کرک شیتر یونیورسٹی میں ملنے والے ہر لیکچرار، پروفیسر اور صحافی کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا ہوا تھا۔ جسے دیکھا پی ایچ ڈی کئے ہوئے تھا۔ چلئے محکمہ تعلیم سے وابستہ لوگ تو یہ ڈگری حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ صحافی بھی پی ایچ ڈی ملے۔ آج سترہ سال کے بعد پاکستان میں بھی یہی صورت حال ہے۔
چند روز پہلے ایک عجیب واقعہ ہوا۔ میں لاہور کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی میں اپنے ایک پروفیسر دوست کے پاس بیٹھا تھا۔ وہاں ایک طالبہ پہلے سے بیٹھی تھی۔ پتا چلا کہ اسے ایم فل کی سطح پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لئے ایک ایسی شخصیت کا موضوع دے دیاگیا ہے جو پاکستان سے ہزاروں میل دور، لندن میں رہتی ہے۔ اس طالبہ نے کبھی ان کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ بس ان کی شاعری کی کتاب پڑھ رکھی ہے۔ وہ طالبہ لندن میں مقیم شخصیت کے دوست احباب کے بارے میں بھی کچھ زیادہ نہیں جانتی۔ جب میں نے اپنے پروفیسر دوست سے اس طالبہ کے موضوع تحقیق، شخصیت کا نام پوچھاتو جو نام انہوں نے بتایا وہ سن کر میں اچھل کر رہ گیا۔ وہ شخصیت احسان شاہد کی ہے۔ احسان شاہد پچھلی تین دہائیوں سے لندن میں رہتا ہے۔ میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے احسان شاہد نے اتنی محنت کی کہ آج گورے بھی اس کی طرف رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ گورے اس کے بچھائے ہوئے دستر خوان سے مفت کھانا کھاتے ہیں۔ وہ انسانوں کو انسانوں کی نظر سے دیکھتا ہے۔ کسی ذاتی یا قومی تعصب کاشکار نہیں۔ پاکستان سے لندن جانے والی ہر ممتاز شخصیت کا میزبان احسان شاہد ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک کشادہ اور درد مند دل دیا ہے۔ وہ دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے۔ اگر اسے پتا چل جائے کہ کوئی شاعر یا ادیب کسی مشکل میں ہے تو وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک اس مشکل کو حل نہ کردے۔
احسان شاہدشاعر بھی ہے۔ اس کی شاعری اس کی شخصیت کی طرح درد مندی کا مظہر ہے۔ اس کے ہر شعر میں درد کی ایک لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ احساس شاہد جانتا ہے کہ غزل کا مطلب اگر عورتوں کے بارے میں باتیں کرنا ہے تو اس چیخ کو بھی غزل ہی کہتے ہیں،جو شکاری کا تیر لگنے کے بعد ہرن کے گلے سے نکلتی ہے۔ اگر شاعری میں درد نہ ہو تو وہ بے کار ہے۔ احسان شاہد کو اللہ تعالیٰ نے درد کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اس لئے اس کی شاعری میں تاثیر بھی ہے اور سوز بھی۔ وہ دماغ سے دولت کماتا ہے اور دل سے دوستوں کی محبت۔ دماغ سے کمائی ہوئی دولت وہ اپنے دل کے مشورے پر کمزوروں، ناداروں اور بھوکوں پر خرچ کرتا ہے وہ آج سے اکیس برس پہلے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مجھے ملا تھا۔ تب آتش جوان تھا۔ وہ بھی اور میں بھی۔ اس کے نوابی ٹھاٹھ باٹھ نے مجھے بہت متاثر کیا، لیکن جوں جوں زندگی کی حقیقت اس کی سمجھ میں آتی گئی توں توں اس کی شخصیت بدلتی گئی۔ پہلے وہ اپنی زندگی بدلنے کی تگ و دو میں لگا رہا، اب دوسروں کی زندگی بدلنے میں مصروف ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ احسان شاہد بھی ایک آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی ہے۔ اس طالبہ کو تو میں بھول ہی گیا جو میرے پروفیسر دوست کے پاس بیٹھی تھی۔ اس نے مجھ سے اپنے پلاٹ کے لئے اینٹیں، سیمنٹ اور ریت نہیں مانگا، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ چند سطریں لکھ کر اس کی موضوعِ تحقیق شخصیت کو اس کے سامنے ضرور لا بٹھایا ہے۔