پی ٹی آئی کے تابوت میں آخری کیل

  پی ٹی آئی کے تابوت میں آخری کیل
  پی ٹی آئی کے تابوت میں آخری کیل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پی ٹی آئی کو گھوم پھر کر دوبارہ محمود خان اچکزئی اور مولان فضل الرحمٰن کے دوارے پر آن کھڑے ہونا پڑا ہے۔ البتہ اس مرتبہ شاہد خاقان عباسی بھی ان کی سرپرستی کے لئے نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اس آوارہ گردی کا سبب اس کی وہ خام خیالی تھی کہ وہ سولو فلائیٹ لے کرحکومت کے خلاف احتجاج کا طوفان برپا کر سکتی ہے مگر 26نومبر نے اس غبارے سے ہوا نکال دی اور آج پی ٹی آئی دوبارہ سے اگلا نِگل رہی ہے۔ کمال حوصلہ ہے کہ بیرسٹر گوہر خان اور ان کے حواریوں کا کہ عمرا ن خان کے کہنے پر بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں۔ 

پی ٹی آئی ابھی اس زعم میں ہے کہ عمران خان ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں، وہ اب تک اس حقیقت کو ماننے کو تیارنہیں تھی کہ عمران خان بھلے مقبول ہوں گے مگر ان کے پاس سٹریٹ پاور نہیں ہے، پنجاب میں تو بالکل نہیں ہے۔ وہ تو بھلا ہو جنرل پاشا سے لے کر جنرل فیض حمید کا کہ جنھوں نے این جی اوز کو حکم شاہی صادر فرمایا تھا کہ ملک کے کونے کونے سے اپنے بینیفشریز کو بھرو اور مینار پاکستان پر لا کر ڈھودو تاکہ عمران خان کے نام مینار پاکستان کو بھرنے کا اعزاز کرکے ان کی مقبولیت میں جھوٹ موٹ کی سٹریٹ پاور بھردی جائے۔ رہی سہی کسر ملک بھر کی ضلعی انتظامیہ کے افسروں نے پوری کردی تھی جنھوں نے 2018کے انتخابات میں اسے کامیابی سے ہمکنار کردیا اور یوں پی ٹی آئی کی حکومت معرض وجود میں آگئی۔ مگر وہ لوگ بھول گئے تھے کہ مقبولیت اور سٹریٹ پاور میں فرق ہوتا ہے۔ مقبول تو وسیم اکرم بھی بہت ہیں مگر ان کی سیاسی قبولیت یعنی سٹریٹ پاور نام کو نہیں ہے۔ اسی طرح مقبول تو شاہد خان آفریدی بھی بہت ہیں مگر ان کی سیاسی قبولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ خود عمران خان کا حال یہ تھا کہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود 2013ء کے انتخابات میں وہ تیس بتیس سیٹوں سے زیادہ حاصل نہ کر سکے تھے۔ وہ تو بعد میں جنرل فیض حمید کے گرڈ نے عوام میں اس مقولے کو رواج دیا کہ اتنی مرتبہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو آزمایا ہے، ایک مرتبہ عمران خان کو بھی آزما لیا جائے۔ یہ ایک بار موقع دینے کا معاملہ تھا جو ان دنوں عوام کے گلے کو پڑا ہوا ہے۔ ایک بار موقع کیا مل گیا، عمران خان کو ملکی سیاست کا جزو لاینفک قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ 

اس ساری ایکسرسائز کا مقصد پنجاب سے نواز شریف کی مقبولیت کو ختم کرنا تھا، اسی لئے تو آصف زرداری بھی عمران خان کی حمائت کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر پھر یہ ہوا کہ نواز شریف کی مقبولیت کا کیا خاتمہ ہوتا، خود پیپلز پارٹی کی رہی سہی مقبولیت بھی جاتی رہی اور اس کے حصے کے سارے ووٹ عمران خان کو پڑگئے کیونکہ خود پیپلز پارٹی والے سینے پر نشان تو تیر کا لگائے نظر آتے تھے مگر پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے ووٹروں سپورٹروں کو بلے پر نشان لگانے کی ترغیب دیتے پائے جاتے تھے۔ بعض ایک بزرگ جیالے جو مر کر بھی یہ کام نہیں کرنا چاہتے تھے،انہیں ان کی اولادیں زبردستی بلے پر مہر لگانے پر مجبور کرتی پائی گئی تھیں کیونکہ وہ بغض نواز شریف میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار تھے۔ انہوں نے اپنے بڑوں کی ایک نہ سنی اور اپنی کر کے رہے اور آج کہیں کے نہیں رہے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ صدر آصف زرداری پچھلے ایک ہفتے سے لاہور میں مقیم ہیں اورپیپلز پارٹی ڈھنگ کا ایک بھی اجتماع نہیں کر پائی ہے، بس ڈرائنگ روموں میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور پھوکے فائر کئے جا رہے ہیں۔ 

اب عالم یہ ہے کہ مریم نواز کی شکل میں پنجاب سے پی ٹی آئی کی مقبولیت کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ ان کا ایک سال اس شاندار ترقی کا تسلسل بن گیا ہے جو نون لیگ گزشتہ تین دہائیوں سے یقینی بناتی چلی آرہی ہے۔ نواز شریف نے بروقت ایک سیاسی فیصلہ کرکے اپنے آپ کو وزارت عظمیٰ سے دور رکھ کر اپنی بیٹی کی شکل میں شریف فیملی کی سیاست کو بچالیا ہے۔ اگرچہ اس تدبیر میں حمزہ شہباز کی قربانی بھی دینا پڑی ہے لیکن مریم نواز کو عوام نے بطور سیاسی لیڈر قبول کرلیا ہے، نون لیگ کی سیاسی ساکھ کے لئے یہی کافی ہے۔ پنجاب میں بلاشرکت غیرے قبولیت اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑے رکھنے سے نون لیگ کو وہ کچھ حاصل ہوگیا ہے جو نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنا کر شائد نہ حاصل ہو پاتا۔ 

اس کا مطلب ہے کہ آصف زرداری کے مقابلے میں نواز شریف نے زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے کہ انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں، یعنی پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کو بھی پنجاب سے بے دخل کردیا ہے۔ اسی لئے ایک زمانے میں سابق گورنر پنجاب میاں اظہر نے نواز شریف کے لئے ایک جملہ کہا تھاکہ وہ بدترین حالات میں بہترین سودے بازی کرتے ہیں جو آج حرف بحرف درست ثابت ہوا ہے۔ اس ساری صورت حال میں پی ٹی آئی نے عید کے بعد جو توپ چلانی ہے اس کا ابھی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی علامہ طاہرالقادری کی طرح پی ٹی آئی کو اپنا کراؤڈ آن رینٹ نہیں دیں گے۔ وہ مجمع لگائیں گے تو اس کا پورا پورا کریڈٹ بھی لیں گے او رجس دن پی ٹی آئی مولانا کے کراؤڈ کے سامنے کنٹینر پر چڑھی وہ اس کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ہوگا۔ ایسا ممکن ہے کہ بجٹ کے بعد پی ٹی آئی میں مزید ٹوٹ پھوٹ ہو اور پیپلز پارٹی سے ٹوٹے ہوئے الیکٹ ایبلز دوباہ اس سے آن ملیں۔

مزید :

رائے -کالم -