خاکسار تحریک سے تنظیم اسلامی تک

خاکسار تحریک سے تنظیم اسلامی تک
خاکسار تحریک سے تنظیم اسلامی تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

1857ء کی ناکام جنگ ِ آزادی کے بعد ہمارے علمائے دین نے زوال کا سبب اسلام سے دوری قرار دیا۔انگریز حکومت کے جبرو تشدد تلے علماء اور مدارس کے حالات بہت ناگفتہ بہ تھے، تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری اور قرآن و حدیث اور فقہ سے متعلق علوم کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ دوسری طرف کچھ لوگوں کا موقف یہ تھا کہ اس وقت ہمیں اپنے قومی وجود کی بقا کے لئے انگریزی تعلیم حاصل کرنی چاہئے اور سیاست میں انگریز حکومت سے مفاہمت کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے قیام کے پیچھے یہی تصور کار فرما تھا۔


بیسویں صدی کے آغاز میں ایسے لوگ بھی سامنے آئے جن کے پاس دین کا علم بھی تھا اور وہ انگریزی علوم سے بھی بہرہ ور تھے۔انہوں نے تنظیم و تحریک کا راستہ اختیار کیا۔ علامہ عنایت اللہ خاں المشرقی نے ”تذکرہ“ لکھ کر مسلمان نوجوانوں کا خون گرما دیا۔اس سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریریں اور علامہ اقبال کی انقلاب آفریں نظمیں زمین ہموار کر چکی تھیں۔علامہ مشرقی نے خاکسار تحریک کی بنیاد رکھی۔ ان کے وابستگان ایک تو خاکی وردی پہنتے،دوسرے خدمت ِ خلق کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔

یہ لوگ جب بیلچے اٹھائے بینڈ باجے کے ساتھ سڑکوں پر چپ راست کرتے تو عام مسلمانوں کے دِلوں میں جذبہ  جہاد انگڑائیاں لینے لگتا۔ وہ سمجھتے کہ اسی طرح ہم غلامی کے طوق سے نجات پا سکیں گے۔علامہ صاحب ”تذکرہ“ میں بتا چکے تھے کہ یورپی اقوام کے عروج اور غلبے  کی بڑی وجہ ان کی علمی دُنیا پر تحقیق و تفتیش کا رجحان غالب ہے۔ آج کی دُنیا میں ابھرنے کے لئے ہمیں بھی یہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا، لیکن عجیب بات ہے کہ خود علامہ صاحب ہی نے اپنے پیرو کاروں کو قلم کے راستے کی طرف نہ آنے دیا۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ وہ فوجی قسم کی وردی میں ملبوس اپنے کارکنان سے سڑکوں پر پریڈ کراتے تھے، لیکن انگریز حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔


علامہ مشرقی نے خاکسار تحریک کو جذباتی انداز میں شروع کیا اور اس کا خاتمہ بھی جذباتی طریقے سے کر دیا۔ اگست1947ء میں انہوں نے خاکساروں سے کہا کہ اگر وہ تین لاکھ کی تعداد میں دہلی میں جمع ہو جائیں تو وہ کوئی نیا لائحہ عمل دیں گے، لیکن صرف ڈیڑھ لاکھ خاکسار ہی دہلی پہنچ سکے۔علامہ صاحب نے کہیں اندر بیٹھ کر تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ مولانا مودودیؒ 1938ء میں پیش گوئی کر چکے تھے کہ علامہ صاحب جس طبیعت اور مزاج کے آدمی ہیں، وہ آگے چل کر پوری تحریک کی گاڑی کو اچانک کسی کھڈ میں دھکیل دیں گے، سو بالآخر یہی کچھ ہوا۔


اسلام کے غلبے کے ضمن میں مولانا مودودیؒ  دوسرے بڑے دینی رہنما تھے۔ وہ بڑے منظم اور مرتب ذہن کے آدمی تھے۔انہوں نے قرآن، حدیث کا براہِ راست ڈوب کر مطالعہ کیا تھا اور یورپی تہذیب کو بھی پوری گہرائی سے پڑھا اور سمجھا۔ پہلے پہل انہوں نے ہندوستانی سیاست کا کھل کر تجزیہ کیا۔کانگرس کی پُرفریب سیاست کے بخیے ادھیڑے اور دلائل کے ساتھ اس سیاست کے عقب میں کار فرما مسلم دشمن ذہن کو بے نقاب کیا، پھر ان مسلمان جماعتوں کا تجزیہ کیا،جن کے پاس صرف مسلم قوم پرستی کا جذبہ تھا، اسی جذبے کے تحت ان کی کانگرس سے جنگ جاری تھی۔ان حالات میں  مولانا مودودیؒ نے قوم کو جھنجھوڑا کہ اسے اسلام کی فکر کیوں نہیں۔ مسلمان اُمت کا سب سے بڑا فریضہ اقامت ِ دین کا ہے۔ مولانا کا اسلوب اتنے اچھے دلائل سے مزین تھا کہ جس سلیم الفکر مسلمان نے پڑھا، وہ ان کا ہمنوا بن گیا۔ مولانا مودودیؒ نے مکمل انقلاب کا داعی ہونے کا دعویٰ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم پیچ ورک کے قائل نہیں، ہم باطل نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں،لیکن قیام پاکستان کے بعد مولانا کی اپروچ بدل گئی۔ وہ جمہوریت کے حامی بن گئے اور تادمِ آخر اسی روش پر قائم رہے۔

اس کا بڑا ثبوت1951ء کے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہیں جن میں جماعت اسلامی کا حمایت یافتہ صرف ایک امیدوار ہی کامیاب ہو سکا۔اس کے بعد جماعت کے کچھ ساتھیوں نے تجویز دی کہ ہمیں ابھی سیاست کے ہنگاموں سے دُور رہ کر اپنی تنظیمی اور اخلاقی طاقت بڑھانا چاہئے۔مولانا اپنی رائے پر قائم رہے تو وہ لوگ جماعت سے الگ ہو گئے۔مولانا 1972ء تک جماعت کے امیر رہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن مکمل کی اور اسلام کی سیاسی اور معاشی تعلیمات پر مبنی کئی کتابیں شائع کیں۔ان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن مجید سے دستور سازی اور قانون سازی کے حوالے سے اصول و ضوابط پیش کئے۔ وہ جمہوریت کے حامی تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر پاکستان میں انتخابی عمل جاری رہا تو ایک دن عوام ہمیں بھی خدمت کا موقع ضرور دیں گے۔اسلام کے مقابلے میں سوشلزم کا چرچا ہونے لگا تو مولانا اور ان کی جماعت نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ان کا مؤقف یہ تھا کہ اسلام مکمل ضابطہئ حیات ہے،ہمیں کسی ازم کی پیروی نہیں کرنا چاہئے۔1970ء کے الیکشن میں جماعت نے جس جوش جذبے سے حصہ لیا، اسی اعتبار سے اسے بُرے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ جمہوری راستے سے مایوس ہو گئے،لیکن متبادل راستہ بھی نہ  بتا سکے۔


جماعت اسلامی کی سیاسی سرگرمیوں سے کٹ کر اپنی الگ جماعت بنانے والوں میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا اسم گرامی بہت نمایاں ہے۔ڈاکٹر صاحب قرآنی فکر عام کرنے اور اپنے متاثرین کو ”تنظیم اسلامی“ کے پلیٹ فارم پر منظم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔انہوں نے بھی تفسیر لکھی اور ”تنظیم“ کی دعوت عام کی۔ جب کبھی دینی حلقوں کو کسی اجتماعی مسئلے پر اکٹھا ہونا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب اپنی اور اپنی تنظیم کا تعاون پیش کر دیتے۔ ڈاکٹر صاحب وفات پانے سے پہلے ہی تنظیم کی باگ ڈور حافظ عاکف سعید کے سپرد کر گئے۔گزشتہ برس  حافظ صاحب اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے تو ان کی جگہ شجاع الدین شیخ نے امارت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔


تنظیم اسلامی نے انتخابی سیاست میں تو دلچسپی نہیں لی،البتہ جماعت اسلامی کی طرح کارکنوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت پر توجہ مرکوز کئے رکھی۔ حال ہی میں تنظیم کے ترجمان رسالے ہفت روزہ ”ندائے خلافت“ کا ایک خصوصی شمارہ (اشاعت19جنوری2021ء) نظر سے گزرا ہے، اس میں بہاولپور میں منعقد ہونے والے سالانہ اجتماع کی مکمل روداد شائع ہوئی ہے۔


”ندائے خلافت“ کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس جماعت کو بھی پاکستان کے ریاستی نظام کی حشر سامانیوں اور خوفناک حد تک روبہ زوال معاشرتی صورتِ حال سے کوئی دلچسپی نہیں۔اس کے پاس بھی راستے کی مزاحم قوتوں کا کوئی تجزیہ نہیں۔اس کے لٹریچر میں بڑھتی ہوئی خود کشیوں، مہنگائی، دہشت گردی اور اسلامی دُنیا کے بگڑے ہوئے حالات کا ذکر تو ملتا ہے اور اس پر گہری تشویش کا اظہار بھی ہوتا ہے،لیکن ان سب کے عقب میں مفاد پرست طبقات کی حکمت عملیوں پر کھل کر کوئی تحقیق و تفتیش پیش نہیں کی جاتی۔

شاید یہ ذرا مشکل راستہ ہے،بلکہ سخت آزمائش کا معاملہ ہے، اِس لئے اس طرف دانستہ توجہ نہیں دی جاتی،حالانکہ حق و باطل کا معرکہ تو اسی طرح برپا ہو گا کہ دینی سکالر اور جماعتیں بگاڑ کی اصل قوتوں کا چہرہ بے نقاب کریں اور ان کے ظالمانہ، بلکہ استحصالی ہتھکنڈوں کو بھی اپنے لٹریچر اور تربیت گاہوں کاموضوع بنائیں۔ تنظیم اسلامی نے تربیت کے حوالے سے جو دس اصول بتائے ہیں، ان کا تعلق فرد کی اصلاح سے ہے،معاشرتی بگاڑ سے کس طرح نبرد آزما ہونا ہے،اس کا کوئی جواب موجود نہیں۔ مَیں مدت دراز سے تنظیم کی جدوجہد کا مطالعہ کر رہا ہوں، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے بھی جماعت اسلامی کی طرح جنت کا حق دار بننے کے لئے بہت آسان راستہ اختیار کیا ہوا ہے، یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے!

مزید :

رائے -کالم -