جہانِ کرگس

  جہانِ کرگس
  جہانِ کرگس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکاحمد توفیق جیلانی کی خوبصورت آٹوبائیوگرافی بہ عنوان جہانِ کرگس مجھے ارشد محمود بھائی نے دی جو رشتے میں میرے کزن ہیں اور احمد توفیق جیلانی صاحب کے ساتھ ان کی دوستی 62سالوں پر محیط ہے۔جیلانی صاحب کی 445صفحوں کی کتاب دیکھتے ہی میں کچھ ٹھٹھکی کہ یہ کتاب اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث کیسے پڑھ سکوں گی اور پھر اس پر اپنی رائے دینا اس سے بھی مشکل کہ میرے معمولات ہر پل مجھے گھیرے رکھتے ہیں مگر ارشد محمود بھائی کی محبت جو وہ مصنف سے رکھتے ہیں اور کتاب کی رونمائی میں ان کی وارفتگی دیکھتے ہوئے میں نے خوشی اور محبت سے اس کتاب کو قبول کیااور اسے پوری توجہ اورخلوص سے پڑھا۔

کئی سالوں پر محیط ادبی خدمات کے بارے میں اہل دل سے لے کر اہلِ فکر و نظر تک جو رائے قائم کی جاتی ہے  انہیں ترتیب دینا اور ان کو ادبی محاسن کے دائرے میں لانا آپ کے لئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ بہرحال میں اتنا کہوں گی کہ جیلانی صاحب تو فوجی بھائی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ ادب کے بھی ایک ذمہ دار اور مخلص سپاہی ہیں۔ احمد توفیق جیلانی کی کتاب ”جہانِ کرگس“ ایک منفرد آٹو بائیو گرافی ہے وہ ایسے تخلیق کار ہیں جن کا مزاج سچائی، بے نیازی، آزادی اور حرمت جیسے عناصر سے بنا ہے۔ وہ وقت کے بے کنار صحرا میں اس طرح سفر کرتے ہیں کہ ان کے نقشِ قدم کی تہہ سے ہزاروں آفتاب ابھرتے ہیں۔ گویا ایک سلسلہء نور ہے جو زمان و مکان پر محیط ہے نہ کسی کا پابند نہ کسی کا اسیر، خوش خرامی کے سحر میں ملفوف، خود میں مکمل، ان کی تحریر یہ واضح کرتی ہے کہ ان کی انگلیاں نگارِ وقت کی نبض پر ہیں اور اس متحرک عمل سے وہ اس کے دل کی توانا دھڑکنوں تک بخوبی پہنچ رہے ہیں اور وہی رقم کررہے ہیں جو ان کے گرد و پیش ظہور پذیر ہوتا رہا ہے یعنی ان کا آئینہ احساس سارے مناظر کو سمیٹ رہا ہے اور وہ انہیں آئندہ زمانوں کے لئے محفوظ کررہے ہیں۔ ان کی کتاب انسانی زندگی کی صباحت و لطافت شکستگی و بوسیدگی کی ایک ایک تاریخ بیان کرتی ہے جس میں ان کے الفاظ مثبت تاثر کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔بقول شاعر:

تمام کھڑکیاں دروازے کھول ڈالے مگر

گھسا ہوا تھا جو گھر میں دھواں وہ کم نہ ہوا

میں نے جہانِ کرگس کے مطالعہ کے دوران شگفتہ الفاظ میں معنی کی تہہ داریوں کے ایک جہانِ ہوش رُبا کے وجود کو محسوس کیا۔

اس طرح کہ جیسے عصر ِ رواں کے زندہ متحرک لمحے میرے سامنے قطار اندر قطار آئینے لئے ہوئے ایستادہ ہوں اور مجھے ان عکسوں کا نظارا کرا رہے ہوں جن کے رگ و پے میں ادیب کے افکار کی قوس و قزح جھلک رہی ہو، ان کے خوبصورت الفاظ میں معانی کی ایک بے کراں اور عظیم الشان دنیا آباد ہے۔ ان کی تحریر میں شگفتگی اور مزاح کا عنصر نمایاں ہے جو ان کے انفرادی اسلوب تراشنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ فوجی ہونے کی وجہ سے ان کے اندر خود اعتمادی ہونا ایک فطری عمل ہے مگر بے پایاں تخلیقی صلاحیتوں کی آگہی نے بھی ان میں چارچاند لگا دیئے ہیں۔ 

تحریر کی ساخت میں برمحل الفاظ کے استعمال کا قرینہ، جذبات اور احساسات کی سچائی انسانوں کو پڑھنے اور سمجھنے کا فن اور الفاظ کی جادوگری یہ ان سب تخلیقی رموز سے واقف ہیں۔بقول شاعر:

میں اس سے نظریں ملاتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں 

کہ آنکھوں آنکھوں میں وہ ذہن پڑھنے لگتا ہے

احمد توفیق جیلانی کی تحریر میں نفاست اور تہذیبی رچاؤ ہے وہ سماجی قدروں کی گہری معنویت کو اجاگر کرتے ہیں۔ معاشی اور سیاسی اسباب سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس بددیانتی اور فریب کاریوں سے آج ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے۔

جیلانی صاحب کا خاندان 1947ء میں فیروزپور انڈیا سے ہجرت کے بعد راولپنڈی میں آباد ہوا ہمارے خاندان نے بھی امرتسر سے ہجرت کی ہم ساری زندگی اپنی پڑدادی، دادا اور رشتہ داروں کے علاوہ والدین سے بھی پارٹیشن کی کئی دردناک کہانیاں بچپن ہی سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔بھرا گھر چھوڑ کر صوفی تبسم کی بہن جو ارشد بھائی کی نانی جان تھیں گھر کی صرف چابیاں ہی ساتھ لا سکیں ان کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ امرتسر جائیں گی کیونکہ سب ہی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پاکستان تو دہلی تک ان کو ملنے والا ہے۔

یہ واقعہ سناتے ہوئے سب بے حد غمگین ہو جاتے مگر مجھے معلوم نہیں کہ جیلانی صاحب کی والدہ نے ان سے یہ بات کیوں چھپائے رکھی جو بات انہیں بچپن میں معلوم ہونا چاہیے تھی وہ بچپن تک ان سے مخفی رہی۔ ان کی کتاب میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ان کے بھائی میجر طاہر محمود جیلانی کا شہیدہونا اور پھران کے جسدخاکی کا نہ ملنا ان کا اس کرب ناک واقعہ کو تحریرکرنا واقعی میں ایک جان لیوا حوصلہ ہوگا۔ ”جہانِ کرگس“ احمد توفیق جیلانی کی خوبصورت آٹو بائیوگرافی ہے اگر آپ کو یہ کتاب میسر آئے تو ضرور پڑھیئے۔

مزید :

رائے -کالم -