دوسری شادی

میرے کالم کے عنوان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں خاکم بدہن، دوسری شادی کے فضائل بیان کرنے والا ہوں۔ یہ تو ایک ایسے آدمی کا خوش گوار المیہ اور تجربہ ہے جسے ایک ہی دن میں دو دو شادیاں بھگتانا پڑتی ہیں۔ ان دنوں لاہور ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں شادیوں کا سیزن چل رہا ہے۔اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ چند دن کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے۔دوسرا سب یہ کہ سردی اپنے جوبن پر ہے۔ہر کنوارا یہی سمجھتا ہے کہ سردی کا اصل فائدہ شادی شدہ لوگوں ہی کو ہوتا ہے۔ہمارے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے بھی شاید اسی لیے لکھا تھا کہ سردی روئی سے جاتی ہے یا دوئی سے۔
شادیوں کے مدعوئین البتہ کچھ کچھ پریشان ہیں۔مہینے کے آخری دن چل رہے ہیں۔سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمتیں کرنے والے لوگ ان دنوں پہلی تاریخ کا انتظار کر رہے ہیں۔پہلی تاریخ تو سراب کی طرح دور بہت دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔آنے کا نام ہی نہیں لے رہی لیکن ہر دوسرے دن ایک نئی شادی کا دعوت نامہ وٹس ایپ پر موصول ہو جاتا ہے۔اس وقت شدید پریشانی لاحق ہونے لگتی ہے جب ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں دو شادیوں کے بلاوے آ جاتے ہیں۔ستم اس پر یہ کہ ایک تقریب مشرق میں ہوتی ہے دوسری مغرب میں اور اس مشرق و مغرب کے درمیان بے ہنگم ٹریفک کا ہجوم بھی ہوتا ہے۔
مجھے بھی کل ایسی ہی دو شادیوں میں شریک ہونا پڑا۔دونوں ہی ایسی شادیاں تھیں کہ کوئی معقول یا نامعقول بہانہ بنا کر ان میں شرکت سے بچنا محال تھا۔پہلی شادی ملک کے سب سے بڑے اور پرانے کارٹونسٹ جاوید اقبال کے اکلوتے فرزند ارج مند ذوہیب اقبال کے ولیمے کی تھی۔یہ تقریب انھوں نے جاتی عمرہ کے سامنے واقع ایک ہرے بھرے اور پرفضا گاوں مانک میں اپنے فارم ہاوس کے وسیع و عریض میدان میں رکھی تھی۔میں بھاگم بھاگ ان کی طرف جانے کے لیے نکلا۔گوگل میپ نے اس بار بھی وہی حرکت کی جو یہ ہر بار کرتا ہے۔اس نے مجھے منزل سے بہت دور لے جا کر کھڑا کر دیا۔ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ارد گرد کچھ بھی نظر نہ آیا۔ایک دوست کو فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ واپس آوء۔تقریبا" سوا دو بجے میں جاوید اقبال صاحب کے فارم ہاؤس پر پہنچ گیا۔انھوں نے دولھا میاں کے ساتھ استقبال کیا۔میرے دیرینہ دوست اور پی۔ ٹی وی کے ایگزیکٹو پروڈیوسر سید محسن جعفر اور مظفر آباد آزاد کشمیر کے ایس۔ ایس۔ پی چودھری عطا محمد بھی موجود تھے۔
جاوید اقبال صاحب اور ان کے بیٹے کو مبارک باد دے کر دوسری شادی کے لیے نکل کھڑا ہوا۔یہ میرے دیرینہ دوست ڈاکٹر سعیدالہی کے فرزند ارج مند یحیی' الہی کے ولیمے کی تقریب تھی جو پنجاب یونیورسٹی کے گراونڈ میں رکھی گئی تھی۔خیال تھا کہ تین بجے تک وہاں پہنچ پاوں گا جب کھانے کی طشتریاں اور کشتیاں سمیٹی جا چکی ہوں گی۔تب مجھے پنجابی کی وہ کہاوت بھی رہ رہ کر یاد آ رہی تھی جس کے مطابق دو گھروں کا مہمان ہمیشہ بھوکا رہ جاتا ہے۔سڑکوں پر بے پناہ ٹریفک کے سمندر کا سینہ چیرتا ہوا پنجاب یونیورسٹی پہنچا تو کھلا کہ پاکستانیت کے جذبے کے تحت تقریب تاخیر کا شکار ہو چکی ہے اور لوگ ابھی کھانا کھلنے کے منتظر ہیں۔ہزار دو ہزار مہمان وہاں موجود تھے۔جو ذرہ جس جگہ تھا، وہیں آفتاب تھا۔ڈاکٹر سعید الہی صاحب کو بہت مشکل سے تلاش کیا اور مبارک باد کے قیمتی لفظ ان کی سماعت کی جیب میں ڈالے۔اس شادی میں سب سے پہلی ملاقات پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ صاحب اور پرووائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود صاحب سے ہوئی۔وہ چونکہ اپنے بارے میں میری لکھی ہوئی نظم پڑھ چکے تھے اس لیے انھوں کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آفس میں کافی پینے کی دعوت دی جو ظاہر ہے کہ کسی بھی طور ٹالی نہیں جا سکتی۔اس نظم کے کے دوشعر دیکھیے:
رئیس جامعہ پنجاب بن کے آیا ہے
وہ جس پہ رحمت رب العلی' کا سایہ ہے
دیا گیا ہے محمد علی کا نام اسے
نصیب اپنا در پنجتن سے لایا ہے
ڈاکٹر سعید الہی صاحب نے مجھے بتا دیا تھا کہ میرے اور سب کیمحترم مجیب الرحمن شامی صاحب اور ڈاکٹر امجد ثاقب کہاں براجمان ہیں اس لیے میں بھی ان کے پہلو میں جا بیٹھا۔شامی صاحب کے تمام فرزندان خوش خیال اور روزنامہ "پاکستان" کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر محمد نوشاد علی اور تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی بھی وہیں موجود تھے۔یہ کنج عافیت اگرچہ ٹیل پر تھا لیکن "پانی" کا بہاو یہاں خاصا تیز تھا۔کھانا کھایا اور رج کر کھایا۔پہلی بار یہ کہاوت جھوٹ لگنے لگی کہ دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے۔
پتا نہیں کون لوگ ہیں جو دوسری شادی کو برا کہتے ہیں۔مجھے تو میری یہ دوسری شادی بہت اچھی لگی اور ہاں پہلی کو تو کوئی مائی کا لال برا کہ ہی نہیں سکتا۔