اعلیٰ تعلیم کی کامیابیاں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن

اعلیٰ تعلیم کی کامیابیاں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن
اعلیٰ تعلیم کی کامیابیاں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تاریخ عالم کا مطالعہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ ادارے کسی بھی قوم کی فکری و سماجی تاریخ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قوموں کا عروج و زوال اداروں کے عروج و زوال کے ساتھ مشروط رہا ہے ۔ اگر کسی قوم کے ادارے مستحکم ہوں تو قوم ترقی کی جانب اپنا سفر تیزی سے طے کرتی ہے اور اگر اس قوم کے ادارے ہی اکھاڑ پچھاڑ میں مبتلا ہو جائیں تو پوری قوم کا مستقبل مخدوش اور حال مصلوب ہو جاتا ہے ۔ مغربی معاشرہ اس وقت مستحکم بنیادوں پر استوار اور ترقی یافتہ ہے تو صرف اسی وجہ سے کہ مغربی قوموں نے صدیوں کی محنت سے اپنے تعلیمی ، سماجی اور فکری اداروں کو مضبوط بنایا ہے ۔ تعلیم و تربیت کا اعلیٰ نظام کسی بھی معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ الحمد اللہ کہ ملک عزیز پاکستان میں بھی چند برس پہلے HEC کی صورت میں ایک ایسا ادارہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد اولین پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا ۔
کم و بیش ایک عشرے سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے کمیشن اور اس کی محب وطن قیادت نے جس جذبے ، لگن اور حوصلے سے مسلسل کام کیا اس کے نتیجے میں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کارکردگی کی ہر حوالے سے عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی ہے ۔ حال ہی میں کیو ایس ورلڈ یونیورسٹیز رینکنگز 2013 کا اعلان ہوا اس کے مطابق پاکستان کی سات یونیورسٹیاں ایشاءکی 250 بہترین یونیورسٹیوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہیں جبکہ زراعت و جنگلات کی تعلیم کے شعبے میں ہماری تین جامعات دنیا کی 200 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہو گئی ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ کواکوریلی سائمنڈز (Quacquarelli Symonds) جو برطانیہ سے تعلق رکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مستند رینکنگ ایجنسی ہے،اس کے نتائج کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد 119 ویں نمبر، NUSTاسلام آباد 120 ویں نمبر پر ، آغا خاں یونیورسٹی کراچی 152 ویں، لمز لاہور191ویں نیز یو ای ٹی لاہور، کراچی یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف پنجاب لاہور ایشاءکی 250 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہو ئی ہیں جبکہ زرعی شعبے کی رینکنگ میں پاکستان کی تین جامعات یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد 142 ویں، ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی 152 ویں اور کیو اے یو اسلام آباد 172 ویں نمبر پر دنیا کی 200 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہو گئی ہیں ۔ مایوسیوں، ناکامیوں اور پستیوں کے سائے تلے پریشان اور خوفزدہ قوم کے لیے یہ چھوٹی بات نہیں بلکہ خوشی اور فخر کی بات ہے ۔ یہی نہیں ڈاکٹر جاوید ایس لغاری کی علم دوست شخصیت اور نفیس طبع قیادت میں پاکستان نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں کئی اور نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مثلاً گذشتہ دو سالوں میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تحقیقی مطبوعات میں لائق تحسین پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور تحقیقی مطبوعات کی تعداد 3939 سے بڑھ کر 6200 ہو چکی ہے ۔ یہ دنیا بھر میں دوسرا اہم ترین اضافہ ہے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود آج پاکستان فی کس آبادی کے لحاظ سے انڈیا سے زیادہ تحقیقی مقالے شائع کر رہا ہے ۔ HEC کی کارکردگی ہی کی بدولت گذشتہ دو سالوں میں ہماری جامعات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل اساتذہ کی تعداد 4203 سے بڑھ کر 6067 ہو گئی ہے یعنی اس میں بھی پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب HEC کے پی ایچ ڈی سکالرز کی وجہ سے ممکن ہوا۔ نہ صرف یہ کہ بیرون ممالک سے ہر ہفتے دس پندرہ پی ایچ ڈی سکالرزHEC کی وساطت سے وطن عزیز آرہے ہیں بلکہ ملک میں بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے سکالرز کی انرولمنٹ میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ یہ تعداد 6937 سے بڑھ کر 9858 ہو چکی ہے ۔ اسی طرح ملک بھر میں ایم فل اور ایم ایس کے سکالرز کی انرولمنٹ میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ 16960 سے بڑھ کر یہ تعداد 28122 ہو چکی ہے ۔ گذشتہ تین سالوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی 628 سے بڑھ کر 927 ہو چکی ہے ۔
مذکورہ اعداد و شمار سے واضح طور پر نمایاں ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں گذشتہ عشرے کی سرمایہ کاری نفع بخش ثابت ہوئی ہے ۔ ان کامیابیوں پر ہر علم دوست اور پاکستان دوست مسرور ہے اور اسے بجا طور پر HEC کا کارنامہ سمجھتا ہے ۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن نے مثبت اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کروائیں۔ انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لیے جامعات کے محققین کو ڈیجیٹل لائبریری تک رسائی، اساتذہ کی تربیت، ممتاز عالمی اداروں کے ساتھ اشتراک اور وظائف کی میرٹ پر تقسیم کے کلچر نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں کوئی انقلاب پیدا کیا ہویا نہ کیا ہو ، اس کی جانب سمت کا تعین ضرور کر دیا ہے ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئر مین ڈاکٹر جاوید ایس لغاری نے کہا ہے کہ گذشتہ سال چھ پاکستانی یونیورسٹیاںایشیاءکی 300 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل تھیں اور اس سال 7 یو نیورسٹیاں 250 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ یہ بات تصدیق کرتی ہے کہ پاکستان میں گذشتہ تین سالوں میں اعلیٰ تعلیم کے آسمان پر پاکستانی ستارے بھی جگمگانے لگے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید لغاری کو یقین ہے کہ آئندہ دو سالوں میں پاکستان کی دس یونیورسٹیاں دنیا کی ممتاز دانش گاہوں کی فہرست میں جگہ حاصل کر لیں گی ۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے ساتھ ریاستی یتیموں کا سا سلوک ہوتا رہا ہے ۔ جدید اور مہذب دنیا کے برعکس ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم کے اداروں نے طفیلی نظام کے سہارے چل کر بھی جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ تحسین و مبارکباد کے لائق ہیں۔ تحقیق اور فکر تازہ اعلیٰ تعلیم کا معتبر ترین وظیفہ ہے ۔ یہ تحقیق و دانش ہی قومی ترقی کا پائیدار راستہ ہے ۔ Chriss Van Hollen نے شاید اسی لیے کہا تھا کہ One of the greatest obstacel to escaping poverty is the staggering cost of higher education.
لیکن ہمارے ہاں تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے عشروں کی ناقص منصوبہ بندی نے جو ناگفتہ بہ صورتحال پیدا کر رکھی ہے اسے دیکھ کر یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ ریاست کے زیر انتظام اور زیر ملکیت اعلیٰ تعلیم کے اداروں اور دانش گاہوں کے مقدر میں بہتری کی امید نہیں کیونکہ حکمرانوں کے پاس اصلاح احوال کے لیے کوئی پروگرام ہی نہیں ۔ تاہم HEC کی کاوشوں کے ثمر کے طور پر اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے اچھی خبروں نے مایوسی کے بادل کم کیے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم کے بارے میں حب الوطنی کے تقاضوں سے ہم آہنگ پالیسی اپنائے بغیر چارہ نہیں اور کوئی بھی حکومت اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کیے بغیر نئی نسلوں کا اعتماد حاصل نہیں کر سکتی ۔ Ron Lewis کہتا ہے کہ Ensuring quality higher education is one of the most important things we can do for future generation.
اعلیٰ تعلیم کو جدید و مربوط بنانے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن اور اسکی قیادت نے پچھلے ایک عشرہ میں جس جانفشانی اور لگن کا ثبوت دیا ہے وہ قابل صد تحسین ہے ۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ HEC جیسے ادارہ کو مزید مستحکم اور فعال بنایا جائے تاکہ مستقبل میں یہ ادارہ زیادہ تن دہی سے کام کرتے ہوئے پاکستان کو تعلیمی انقلاب سے مالا مال کر دے ۔ تعلیم کے حوالہ سے جتنی بھی ترقی ہو گی اس کے سماجی و معاشی فوائد یقینا پاکستانی عوام کو پہنچیں گے اور قوموں کی برادری میں پاکستان کا تشخص زیادہ بہتر ہو گا۔ اعلیٰ تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر دنیا کی دیگر اقوام نے سماجی ترقی کی ہے اور اپنی معیشتوں کو مضبوط و توانا بنایا ہے ۔ حکمرانوں سے استدعا ہے کہ وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مزید فعال و متحرک بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ وطن عزیز پاکستان مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ بہتر طریقہ سے کرسکے۔    ٭

مزید :

کالم -