سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، 49ویں قسط
1982-83ء میں لاہور میں سیاسی سرگرمیاں منجمد ہونے کے باعث بظاہر کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی تھی لیکن اندرون شہر زندہ دلان لاہور نے ایک اور مشغلہ اختیار کررکھا تھا۔ نوجوان سیاسی پابندیوں اور مارشل لاء کے خطرات کو پس پشت ڈال کر گلیوں میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔اس دور میں نہ صرف صبح کے وقت کھیل کے میدانوں اور بڑی بڑی سڑکوں پر میچ کھیلتے بے فکرے نوجوان نظر آتے بلکہ راتوں کو لائٹسکی روشنی میں ٹینس بال ٹورنامنٹ کی ثقافت پروان چڑھ رہی تھی۔مزنگ کا علاقہ اس حوالے سے نوجوانوں کا سرگرم ترین علاقہ تھا۔ یہاں کے ایک نوجوان محمد یامین صدیقی نے نوجوانوں کی تنظیم ورلڈ اسلامک یوتھ آرگنائزیشن کو نہایت متحرک کیا ہوا تھا۔ وہ تنظیم کے جنرل سیکرٹری ا ورسپورٹس ونگ کے انچارج تھے۔خود بھی کراٹے اور کرکٹ کے کھلاڑی تھے اور پیشہ ور فوٹو گرافر،صحافی، سماجی اور سیاسی کارکن تھے۔لیکن ان کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ نوجوانوں کو عملی زندگی میں متحرک کرنے اور مثبت صحت مند سرگرمیوں میں سرگرم عمل رکھتے تھے۔بعد میں یہی نوجوان فوٹو جرنلزم صحافت کا قدر آور نام بن گیا۔ وسیم اکرم کے بچپن کی کرکٹ ان کے سامنے جوان ہوئی انہوں نے اپنی یادداشتوں کے حوالے سے بتایا۔
اڑتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’وسیم اکرم اس زمانے میں مزنگ کی گلیوں میں ایک عام لڑکے کی طرح کرکٹ کھیلتا تھا اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ مستقبل میں یہ لڑکا شہرہ آفاق شہرت حاصل کرے گا۔اسی دور میں تحریک پاکستان کی راہنما بیگم سلمیٰ تصدق نے اپنے شوہر کی یاد میں مصدق حسین ٹینس بال کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کرایا۔ لاہور کی20نمایاں ٹیموں نے حصہ لیا۔مزنگ کرکٹ کلب چناب کرکٹ کلب اور یوتھ کرکٹ کلب اس زمانے میں لاہور کی فیورٹ ٹیمیں تھیں۔یہ ٹورنامنٹ مزنگ ہائی سکول کی گراؤنڈ میں کھیلا گیا ۔فلڈ لائٹس میں ساری رات کھیل جاری رہتا اور پورے لاہور کے نوجوان جوش و خروش اور نظم و ضبط کے سامنے میچ دیکھتے اور کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ٹورنامنٹ میں اس وقت ہیجان اور دلچسپی پیدا ہو گئی جب مزنگ کی سڑکوں پر مشتمل ایک عام سی ٹیم میدان میں اتری اور اس نے اپنے سے تگڑی اور معروف ٹیم کو ناکوں چنے چبوا دیئے اس غیر معروف اور وقتی کرکٹ کلب کے ایک لڑکے نے تو کمال ہی کر دکھایا۔ اس کے دائیں بازو پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ بائیں بازو سے اس قدر تیزی اور مہارت سے بال کررہا تھا کہ تماشائی اس کی جرات، بہادری اور مہارت پرعش عش کر اٹھے۔ٹورنامنٹ تو یوتھ کلب نے جیت لیا، مگر مین آف دی میچ اس عام سے لڑکے کو ملا۔ اس کا نام وسیم اکرم تھا۔اس سے قبل میں اسے نہیں جانتا تھا مگر ٹورنامنٹ کے بعد اسکے جوہر آشکار ہوئے اورمعلوم ہوا کہ وہ گندم منڈی کی گلیوں میں کرکٹ کھیلتا ہے۔میری اس کی والدہ اور نانی سے دعا سلام تھی۔ اس کی والدہ کو بھی فوٹو گرافی کا شوق تھا اور بڑی ماہر فوٹو گرافر تھیں۔وہ میری دکان پر بھی آتی تھی۔وہ ان دنوں اپنی والدہ کے پاس رہ رہی تھیں۔ان کی اپنے شوہر کے ساتھ ناراضگی تھی جو ماڈل ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے۔وسیم اکرم بھی والدہ اورنانی کے پاس رہ کر پڑھ رہا تھا، اور سکول کے بعد سارا سارا دن گلیوں میں کرکٹ کھیلتا رہتاتھا۔ میں نے وسیم اکرم کو آفر دی کہ وہ یوتھ کرکٹ میں شامل ہو جائے۔وسیم اکرم شرمیلااور کم گو تھا، مگر اس وقت جب میں نے اسے اپنے کلب میں شامل کیا تو ممنونیت سے میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔مجھے احسان ہوا کہ یہ آفر اس کی روحانی تسکین کا باعث بنی ہے اور اسے قارون کا خزانہ مل گیا ہے۔
وسیم اکرم باقاعدگی سے یوتھ کلب کی طرف سے کھیلنے لگا۔ آہستہ آہستہ مجھے احساس ہوا کہ اس کے اندر ایک بہت بڑا کھلاڑی چھپا ہوا ہے۔میں اس کی نانی اور والدہ سے ملتا تووسیم اکرم کے بارے میں بات کرتا اور انہیں کہتا کہ وسیم اکرم ایک روز بڑا کھلاڑی بنے گا مگر اس کی نانی اور والدہ کو وسیم اکرم کا کرکٹ کھیلنا اچھا نہ لگتا۔اس کی والدہ نے کئی بار مجھے کہا کہ وہ اسے پڑھا لکھا کر بڑا افسر بنانا چاہتی ہیں مگروسیم اکرم پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہا۔
جاری ہے۔ پچاسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔