زندگی تو پانی ہے

زندگی تو پانی ہے
زندگی تو پانی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر رفعت حسین میرے بزرگ دوست ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے سرجن ‘ ڈاکٹر ہیں اور پچھلے پچاس برس سے امریکہ میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ دیار غیر میں رہتے ہوئے ان کی حب الوطنی یوں عیاں ہے کہ سال میں ایک دو بار پاکستان آتے ہیں تو مختلف پرائیویٹ ہسپتالوں میں ان بچوں کے مفت آپریشنوں اور سرجری میں مصروف رہتے ہیں‘ پیدائشی طور پر جن کے ہونٹ کٹے ہوتے ہیں یا حلق اور تالو وغیرہ میں سوراخ ہوتا ہے۔ پاکستان کے داخلی معاملات اور یہاں کے عوام کو درپیش مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے اور وہ ان مسائل کے حل کے بارے میں سوچ بچار بھی کرتے رہتے ہیں۔ چند روز پہلے ان کا فون آیا تو بولے’’ پاکستان آ رہا ہوں اور ایک اہم معاملے پر سمجھ بوجھ رکھنے والے کچھ دوستوں سے اپنے خیالات شیئر کرنا چاہتا ہوں‘ ایسی کسی سٹنگ کا اہتمام ہو سکتا ہے؟‘‘
میں نے کہا’’ کیوں نہیں‘ آپ جب چاہیں‘‘ دو ایک روز کے بعد انہوں نے اپنے آنے کی تاریخ بنائی تو میں نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے کچھ دوستوں کے لئے ایک ریستوران میں رات کے کھانے کا بندوبست کر لیا۔ کھانا بلاشبہ لذیذ تھا‘ لیکن ڈاکٹر صاحب نے جو اظہارِ خیال فرمایاوہ اس سے بھی زیادہ توجہ طلب تھا۔
جب سب لوگ اکٹھے ہو گئے تو ڈاکٹر صاحب نے آج کے دور کے ایک اور غالباً آنے والے ادوار کے سب سے بڑے مسئلے کی جانب احباب کی توجہ بڑی درد مندی اور مکمل اخلاص کے ساتھ مبذول کرائی۔ کہا کہ دنیا بھر میں پانی کی قلت کا مسئلہ گمبھیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اگر اس کے حل کی طرف توجہ نہ گئی تو آنے والا وقت میں نہانے اور کپڑے دھونے کے لئے تو دور کی بات پینے کے لئے بھی صاف پانی دستیاب نہ ہو گا۔ڈاکٹر صاحب نے دو چار روز پہلے منظر عام پر آنے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کا شمار ان 25ممالک میں شامل ہے‘ جہاں 2040تک پانی ختم ہو جانے کا خدشہ ہے۔ یعنی اگلے صرف 23برسوں میں ہمارے ملک میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جانے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے دوستوں سے کہا کہ ہمیں مل کر ایسی مہم چلانی چاہئے کہ پانی کی بچت کے حوالے سے عوام میں آگہی پیدا کی جائے اور ان کا شعور اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کے ضیاع کے بارے میں بیدار کیا جائے۔ ہمیں اس نعمت کو ضائع ہونے سے بچانا چاہئے۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ انسانی جسم کا 75 فیصد پانی پر مبنی اور پوری کائنات کے معاملات پانی کی وجہ سے ہی چل رہے ہیں۔انہوں نے یہ کہہ کر سب دوستوں کو گہری سوچ میں ڈال دیا کہ پانی کی قلت یا خاتمے کا مطلب موت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پانی کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہئے اور مجموعی طور پر پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہمیں دو طرح کے کام کرنے کی اشد ضرورت ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم یا دورسا کوئی ڈیم تو جب بنے گا تب بنے گا‘ لیکن فی الحال عوام یہ کر سکتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے ڈیم یا پانی کے ذخیرے بنانے کی تیکنیک آزمائی جائے۔ یہ کام عام آدمی مقامی سطح پر خود بھی کر سکتے ہیں۔ اپنی تحقیق کی بنیاد پر انہوں نے انکشاف کیا کہ صرف خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ سے زائد چھوٹے چھوٹے ڈیم بن سکتے ہیں‘ جو مختلف علاقوں کی مقامی آبادی کی پانی کی ضروریات پوری کر سکیں گے اور اس طرح سمندر میں ضائع ہو جانے والے پانی کا ضیاع روکا جا سکے گا‘ علاوہ ازیں اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ پانی ضائع نہ ہو۔ ہمیں نہانے کے لئے کم پانی استعمال کرنا چاہئے۔ واش روم جائیں تو کوشش ہونی چاہئے کہ کم پانی استعمال ہو۔ ہم ہر سال سمندر میں ہو لاکھوں ایکڑ فٹ پانی سمندروں میں ضائع کر دیتے ہیں‘ وہ بچانے کی ضرورت ہے۔ نئے بڑے ڈیموں کی تعمیر ہمارے لئے ناگزیر ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق‘ اگر ہم نے انفردای اور اجتماعی سطح پر پانی کو ذخیرہ کرنے اور پانی کے ضیاع کو روک نے کے لئے اقدامات نہ کئے تو نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ‘ بلوچستان اور سرحد بھی صحرا میں تبدیل ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر صاحب کی باتوں نے تو ہمارے چودہ طبق روشن کردئیے۔ہم زندگی قطرہ قطرہ کھورہے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ زندگی تو پانی ہے۔آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ اس بارے میں کیا ہوش ربا صورتحال پیش کرتی ہے۔
دنیا بھر میں ستر فیصد پانی زرعی شعبے میں آب پاشی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ توانائی کے حصول‘ صنعتی سیکٹر اور انسانی استعمال کے لئے پانی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آبادی کی دیہات اور قصبوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کی وجہ سے واٹر سپلائی اور سینی ٹیشن نظاموں کے لئے بھی پانی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی پانی کی طلب اور رسد کا نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی خشک سالی اپنے ڈیرے ڈال لیتی ہے اور کبھی سیلاب بستیوں کی بستیاں بہا لے جاتے ہیں ۔اور جوں جوں موسمیاتی تبدیلیاں شدت اختیار کر رہی ہیں‘ خشک سالیوں اور سیلابوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا کی دو تہائی آبادی اس وقت بھی ایسے علاقوں میں رہ رہی ہے‘ جہاں سال بھر میں کم از کم ایک ماہ پانی کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے علاقے ایسے ہیں‘ پانی کی قلت پیدا ہو جانے کی وجہ سے جہاں کے باشندے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ پھر بہت سے علاقوں میں پانی آلودہ ہو چکا ہے۔ یہ نہانے اور دوسرے استعمال کے تو لائق ہے‘ لیکن پینے کے قابل نہیں رہا۔ حالیہ برسوں میں کئی رپورٹیں سامنے آئی ہیں کہ لاہور اور دوسرے کئی شہروں میں زیر زمین پانی میں اس قدر مضر صحت اجزا شامل ہو سکے ہیں کہ یہ پینے کے قابل بھی نہیں رہا۔
امیر ملکوں میں میونسپل اور صنعتی سیکٹر سے نکلنے والے آلودہ پانی کا 70فیصد ٹریٹ کیا جاتا ہے‘ یعنی ایسے عمل سے گزارا جاتا ہے کہ وہ آلودہ نہیں رہتا۔درمیانے درجے کے امیر ممالک میں یہ شرح 38فیصد بنتی ہے۔ یہ شرح اپر مڈل انکم ممالک میں 28فیصد اور غریب ملکوں میں محض 8فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 80فیص آلوددہ اور گدلا پانی بغریر کسی ٹریٹمنٹ کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف فضا اور ہوا کو آلودہ کرتا ہے بلکہ اس علاقے میں موجود صاف پانی کو بھی آلودہ کر دیتا ہے۔ اس سے پینے کے پانی کی کمی مزید شدت اختیار کر جاتی ہے۔موسمیات پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اوراس سے بھی پانی کی کمی بیشی جیسے عوامل انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔


ابھی گزشتہ ماہ ہی یو این ڈی پی (یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں پانی کے حوالے سے صورتحال ایتھوپیا جیسی ہوتی جا رہی ہے اور اگر پانی کی دستیابی میں 14.2 فیصد تک اضافہ کیا گیا تو 2025تک صورتحال مزید ابتر ہو جائے گی۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی قلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1990سے 2015 کے درمیانی عرصے میں یعنی پچیس سالوں میں پانی کی دستیابی 2172کیوبک میٹر فی کس سے کم ہو کر 1306کیوبک میٹر فی کس ہو چکی ہے اور اس شرح میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان میں 74.3فیصد تازہ پانی بھال کئے جا سکنے والے ذرائع (Renewable water resource)سے حاصل کیا جاتا ہے‘ اس طرح ان وسائل پر دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 27.2ملین یعنی دو کروڑ 72لاکھ پاکستانیوں کو صحت کے لئے محفوظ پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے‘ جبکہ 52.7ملین یعنی پانچ کروڑ ستائیس لاکھ پاکستانیوں کو سینی ٹیشن کی مناسب سہولیات تک رسائی حاصل نہیں۔ ہر سال 39000بچے آلودہ پانی کے استعمال اور سینی ٹیشن کی ناقص سہولیات کی وجہ سے ڈائیریا کا شکار ہو کر پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی وفات پا جاتے ہیں۔ ہم ہر سال کتنا پانی ضائع کرتے ہیں اور اگر اس پانی کو ذخیرہ کر لیا جائے تو اس کے ہماری زندگی پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوں گے‘ اس پر کبھی اگلی نشست میں بات کریں گے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -