ساڈا دوپٹہ تے ساڈی دھوتی
محبت اندھی ضرور ہوتی ہے پر اتنی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ بعدمیں مریم بی بی اور بلاول ایک دوسر ے پر کچیچیاں وٹتے ہوئے جگتیں مارنا شروع کر دیں،بھئی بے قدروں سے یاری لگائیں گے تو وہ تڑک کرکے ٹو ٹ ہی جائے گی۔سینٹ الیکشن میں گیلانی پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار تھے آگے بھی یہی ہونا چاہیے تھا۔میں تو با ر بار کہتا ہوں بے ایمانی کے کاموں میں بے ایمانی نہیں کرنی چاہیے۔لیکن میرا یار جو سب پر بھاری ہے پتہ نہیں اس کے پاس کونسی سائیکل ہے جسے مرضی بٹھا کے چکر دے دیتا ہے۔سائیکل پر بیٹھنے والے کو شروع میں مزہ آتا ہے اور وہ آنکھیں بند کر کے کبھی نوڈیرو کبھی گڑھی خدا بخش میں پکارتا ہے ”’پھائی پھائی زور دی۔آنکھیں تو اس کی تب کھلتی ہیں جب سائیکل کے چکر پورے ہوتے ہیں اور نیچے اتر کر بھی اسے چکر آتے رہتے ہیں۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اتحاد ایسے ہی ہے جیسے دو سوکنیں مل بیٹھیں اور انتظار میں رہیں کہ کون شوہر کوپٹاکر فرار ہو جائے۔زرداری سیاست کے وہ پتھر ہیں جوسب پر بھاری رہتے ہیں انہوں نے مسلم لیگ کے ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی کو جتوایا،پھر سنجرانی کے خلاف عدالت چلے گئے،پھر سنجرانی کے ہی ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنو ا دیا۔سیاست کونسا جنٹلمین گیم ہے،بھیا یہ دھندہ ہے اور بہت ہی گندا ہے۔
لتروں سے پٹنے کی بجائے لتروں کو چمکانا زیادہ چنگا ہے۔وہ زرداری ہو یا نواز شریف دونوں کون سے اخلاقیات کے کوہ ہمالیہ پر فلیٹوں میں رہتے ہیں۔مفادات کی جنگ میں کوئی اصول،کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔سنتا سنگھ بولا وہ دیکھو مٹیار مجھے ہنس کے دیکھ رہی ہے،بنتا سنگھ بولا چّولا وہ ہنس کے نہیں دیکھ رہی،تجھے دیکھ کر ہنس رہی ہے۔بھئی تم تو خود کئی دہائیوں سے اس جمہوریت کو دیکھ کر ہنس رہے ہو۔جہاں 20 کروڑ روز اپنے زندہ رہنے کا تاوان بھرتے ہیں،بھوکے مرتے ہیں،اپنی اولادوں کو اپنے سامنے بھوک سے ایڑیاں رگڑتا دیکھتے ہیں اور پھر مسکرا کے اپنے قاتلوں کو جمہوریت کے دیوتا قرار دیتے ہیں ان کے پیچھے صدق دل سے پکارتے ہیں دیکھو دیکھو کون آیا،آئی آئی پی ٹی آئی،ایک زرداری سب پر بھاری،گٹر کا ملا پانی پیتے ہیں۔زہر میں بجھی خوراک کھاتے ہیں اور اپنے قائد ین کے کتوں کو بھی ایسے چومتے ہیں جیسے مرشد کے بچوں کو چوما جاتا ہے۔بھیا ہم 20 کروڑ عوام تو ڈبل روٹی کا وہ پہلا سلائس ہوتے ہیں جسے اٹھا کر باہر رکھ دیا جاتا ہے۔لندن سے صدائیں آرہی ہیں کہ ”میرے دوست قصہ یہ کیا ہو گیا،سنا ہے کہ تو بے وفا ہو گیا“۔رہی پی ڈی ایم تو بھیا اب مریم بی بی،ذوالفقار بھٹواور محترمہ بے نظیر کو شہید کہنے انہیں سلام پیش کرنے پر جتنی مرضی تھو مارہ کہہ لیں چڑیا اور کاں کھیت چگ چکے۔
عزیزم فواد چودھری کی تجویز بہتر ہے کہ اب آگے بڑھا جائے اور تصادم کی بجائے افہام کے ساتھ ملکی معاملات چلائے جائیں۔بہتر ہو گا کہ وزیر سائنس ایسی سائنس ایجاد کریں جس سے ایوان وزیر اعظم کے باہر لکھا ”ضد نہ کر سوہنیا خاں تے آپ بڑا ضدی اے“مٹایا جا سکے۔سنتا سنگھ اپنی بیگم سے بولا میں تنگ آگیا ہوں تمہارے منہ سے یہ سنتے سنتے یہ میری کار،یہ میرا بنگلہ،یہ میرا بنک اکاؤنٹس،پھر بولا اب الماری میں کیا تلاش کر ہی ہو؟،بیگم بولیں ساڈا دوپٹہ۔بھائیجان فواد چودھری صاحب ہمارا مشترکہ دوپٹہ نہیں ملتا تو الماری سے کوئی دھوتی ہی نکلوالیں جو تمام سیاستدانوں کو پوری آجائے۔دھوتی کی خوبی یہ ہے کہ دھوتی دھوتی نہ دھوتی۔
مجھے لگ رہاہے کہ 20کروڑ رانجھے مجھیاں چراتے رہ جائیں گے اور امریکہ آئی ایم ایف،سٹیٹ بنک کی ڈولی اٹھا کے لے جائیں گے۔نئے مجوزہ آرڈیننس یا قانون سازی کے بعد پاکستان کی”گلیاں سنجیاں“ہو جائیں گی اور اس میں کلّا گورنر سٹیٹ بنک پھرے گا۔بنتا سنگھ ہسپتال میں داخل تھا،اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں تھیں، کسی نے پوچھا بھیا کیسے ٹوٹ گئیں،وہ بولا یار میں روز گلی سے گذرتا وہاں ایک سنڈا کھڑا دیکھتا اور سوچتا اگر میں اور میری دھوتی اس کی سینگوں میں پھنس جائے تو کیا ہو گا؟،آخر ایک دن میں نے خود کو اس کے سینگوں میں پھنسا لیا اس نے مجھے وٹ وٹ کے مارا اور میری ٹانگیں ٹوٹ گئیں،پھر بنتا سنگھ نے آنکھیں بند کر لیں اور لمباسانس لے کے بولا ”چلو لتاں ٹٹ گئیاں پر روز دی ٹینشن وی مک گئی کہ جے میری دھوتی سنڈے دے سینگاں وچ پھس جائے تے کی ہوئے گا“۔مکائیں روز روز کی ٹینشن،دے دیں ملک کو گروی آئی ایم ایف کو،قوم کی دھوتی ویسے ہی لیرو لیر ہے۔پھنسا لیں سٹیٹ بنک کے گورنر کے سینگوں میں،قوم پہلے کونسی ”میک فیری“کھا رہی ہے۔کونسا چکن چاؤ منگ پنیر برگر کھا رہی ہے۔بھوکے بٹیرے ہیں اسی لئے لڑتے ہیں مرجائیں گے تو ٹینشن مک جائے گی۔