سقوط ریلوے بچایا جائے 

  سقوط ریلوے بچایا جائے 
  سقوط ریلوے بچایا جائے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان ریلوے ایک عظیم ادارہ تھا، لیکن پچھلے ساڑھے تین سال میں جس طرح اسے تباہ کیا گیا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ٹرینوں کے اوقات پر عمل ختم ہوچکا ہے۔ موجودہ ٹائم ٹیبل دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ریلوے کا نظام سٹیشن ہیڈ کوارٹر لاہور سے نہیں، بلکہ پاگل خانے سے آپریٹ ہو رہا ہے۔اگر واقعی ریلوے ہیڈ کوارٹر سے ہورہا ہے تو پھر اسے آپریٹ کرنے والے انتہائی سفاک،بے رحم، عوام دشمن اور ریلوے سے تنخواہیں لے کر ان تنخواہوں کو حرام کر رہے ہیں ……”ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے“ کا محاورہ پاکستان ریلوے کے ہیڈ کوارٹر کی اعلیٰ انتظامیہ پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔اُلو کے بارے میں محاورہ مشہور ہوگیا ہے، جبکہ ریلوے ہیڈ کوارٹر میں دماغ سے فارغ لوگ بیٹھے ہیں، جنہوں نے عوام کی سہولت کے لئے قائم ادارے کو عوام کے لئے اذیت بنادیا ہے……آئیے پہلے ٹرینوں کے اوقات سے آپ کو آگاہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اسے بنانے والوں کی عقل کہاں غائب ہے۔لاہور سے شام تین بجے سے ٹرین ڈرامہ دوسرے لفظوں میں عوام کی خواری شروع ہوجاتی ہے۔شام 3بجے سے لے کرشام پونے سات بجے تک پانچ ٹرینیں نکالی جاتی ہیں۔ ایک ٹرین کے کم ازکم ایک ہزار مسافر ہوتے ہیں۔ قراقرم ایکسپریس شام تین بجے،پاک بزنس ایکسپریس شام چار بجے، جعفرایکسپریس شام چار بج کر پندرہ منٹ پر،کراچی ایکسپریس شام پانچ بجے اور عوام ایکسپریس شام چھ بج کر چالیس منٹ پر لاہور سے روانہ ہوتی ہیں۔آپ پچھلے ایک سال کا ٹائم ٹیبل دیکھ لیں تو پاک بزنس اور کراچی ایکسپریس کبھی اپنے ٹائم پر روانہ نہیں ہو سکیں۔پاک بزنس کو تو گدھا گاڑی بنا دیا گیا ہے اور اس کا دو سے چار گھنٹے تاخیرسے روانہ ہونا معمول ہے۔سال میں دوبار اوقات ضرور تبدیل ہوتے، ترتیب یہی رہتی ہے۔
کراچی ایکسپریس کے وقت میں بھی ایک سے دو گھنٹے تاخیرکوئی انوکھی بات نہیں رہی۔قراقرم ایکسپریس جسے لاہور سے کراچی کے لئے سب سے بہترین ٹرین مانا جاتا تھا، اس کی بھی دو گھنٹے تاخیر معمول کی بات ہے۔ان تیز رفتار ٹرینوں کے درمیان عوام ایکسپریس اور جعفر ایکسپریس ہیں۔ عوام ایکسپریس کے لاہور سے 47سٹاپ ہیں،جبکہ جعفر ایکسپریس کے لاہور سے کوئٹہ تک 25 سٹاپ ہیں۔یہ دونوں ٹرینیں ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر رکتی ہیں،جبکہ کراچی ایکسپریس اور پاک بزنس تاخیر سے روانہ ہوں تو ان سے پہلے جعفر ایکسپریس اور عوام ایکسپریس روانہ کر دی جاتی ہیں، ان کے پیچھے پھر کراچی ایکسپریس اور پاک بزنس جاتی ہیں اور یہ دونوں گاڑیاں ساٹھ ستر کلو میٹر سے اوپر نہیں چل پاتیں،کیونکہ آگے عوام ایکسپریس اور جعفر ایکسپریس ہوتی ہیں، جنہوں ہر چھوٹے سٹیشن پر رکنا ہے،اس لئے پیچھے آنے والی ٹرینوں کو اپنی رفتار کم رکھنا پڑتی ہے،  اس طرح  لاہور سے کراچی کا سولہ گھنٹے کا سفر اکثر بیس سے بائیس گھنٹے کا معمول بن چکا ہے۔


دوسری طرف سے فیصل آباد سے آنے والی ٹرینیں  قراقرم،  سر سید،ملت،رحمان بابا اور شاہ حسین بھی خانیوال پہنچ کر لاہور سے براستہ ساہیوال جانے والی ٹرینوں کے درمیان میں یا آگے لگ جاتی ہیں اور اب انتہائی دلچسپ (احمقانہ) صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ ہر ٹرین دوسری ٹرین سے بیس منٹ کے فاصلے پرہوتی ہے اور ان کی سپیڈ ستر سے اسی کلومیٹر فی گھنٹہ سے اوپر نہیں جا سکتی اس طرح ٹرین کا یہ سفر طویل ہوتا جاتا ہے اور لوگ اذیت سے گزرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کے ذمہ دار ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے  نااہل لوگ ہیں جنہوں نے اتنا مضحکہ خیز ٹائم ٹیبل بنایا ہے  اور اگر بنایا ہے تو گاڑیوں کو وقت کا پابند نہیں کرسکے۔


ایک اور تماشہ لاہور اور کراچی ریلوے سٹیشن پر دیکھنے کو ملتا ہے،یہی صورت حال ملتان،خانیوال، بہاولپور، روہڑی، حیدر آباد کے ریلوے سٹیشنوں پر ہوتی ہے۔ٹرینوں کی تاخیر اور اپنے اوقات پر روانہ نہ ہونے کی وجہ سے پانچ چھ ٹرینوں کے مسافر سٹیشن پر اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ایک میلہ لگ جاتا ہے۔سٹیشن پر ان مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے بیٹھنے کے لئے  دس فیصد نشستیں بھی نہیں ہوتیں، لہٰذا لوگ اپنے بچوں  اور خواتین کے ساتھ گھنٹوں فرش پر بیٹھنے پر مجبور ہوتے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ریلوے کا کوئی والی وارث نہیں اور انتظامیہ کو عوام کی مشکلات کا بالکل بھی احساس نہیں،بلکہ عوام کی خواری انہیں محظوظ کررہی ہے۔ ریلوے کے اعلیٰ حکام کی سوچ انتہائی ظالمانہ، بے رحمانہ اورانسانی اوصاف سے محروم ہے۔ ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ ساڑھے تین سال سے محکمہ ریلوے تباہ و برباد ہورہا ہے اور افسر تنخواہیں کھا رہے ہیں۔انہیں عوامی مشکلات کا کوئی احساس ہے نہ کوئی فکر۔دفتروں میں بیٹھ کر یہ وقت گزاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے اور انہیں کوئی فکر نہیں کہ ٹرینیں کئی سال سے مسلسل چار سے پانچ گھنٹے لیٹ ہورہی ہیں اور پاک بزنس اور کراچی ایکسپریس تو کئی بار کینسل بھی ہوجاتی ہیں۔


ایک اور ظلم لاہور سے کراچی کے طویل سفر کا ہے،جو ریلوے ٹائم ٹیبل کے مطابق تو پندرہ سے سولہ گھنٹے کا ہے، لیکن ریلوے انتظامیہ کی نااہلی سے یہ پچھلے دو تین سال سے بیس سے بائیس گھنٹوں کا ہوچکا۔اس سفر کے دورا ن ڈ ائننگ کارکی سہولت میسر تھی، جہاں گرم کھانا مل جاتا تھا جو اب سٹیشن کے ڈھابے سے انتہائی بدمزہ کھانا پڑتا ہے،اسی طرح  ٹرینوں میں ٹی بیگ اور خشک دودھ کی چائے میسر ہوتی تھی، جسے تبدیلی سرکار کے آتے ہی ختم کر دیا گیا، اسی طرح تکیہ کمبل کی سہولت بھی موجود تھی، جسے پہلے تبدیلی سرکار نگل گئی، پھر کورونا کا بہانہ چلنے لگا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہر مسافر کو کسی سٹیشن سے چائے لینا پڑتی ہے اور یقین کیجئے یہ چائے انتہائی فضول اور گھٹیا معیار کی ہوتی ہے۔چائے کی پتی صبح سے شام تک وہی چلتی رہتی ہے اور دودھ  نام کا کوئی جعلی فلیور ڈالا ہوتا ہے۔جب ریلوے کے کسی ملازم سے کہا جائے تو وہ کہتا ہے سٹیشن ماسٹر کے کمرے میں دودھ پتی پہنچ جاتی ہے، باقی مسافروں کو اس دودھ پتی کے لئے قربان کر دیا جاتا ہے۔ٹرینوں میں صفائی کا نظام بھی بہت ناقص ہوچکا اور اب لاہور سے کراچی اور کراچی سے لاہور کے درمیان صفائی کرنے والا کوئی نہیں ملتا،اور الیکٹرک بورڈ لٹک رہے ہوتے ہیں۔سعد رفیق جو بہتری لائے تھے، وہ تبدیلی سرکار دوبارہ بلور دور میں لے گئی۔

لوگ سعد رفیق کو یاد کرتے ہیں۔اس کے دور میں  ریلوے کا معیار بہت اچھا تھا۔ ٹرینیں بھی اپنے اوقات پر پہنچتی تھیں۔تبدیلی سرکار نے ٹرین سروس کو تبدیل کرکے ایکسپریس ٹرینوں کو گدھا گاڑیوں میں بدل دیا ہے۔لگتا ہے کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے ہی نہیں،اگر ہو  توکیسے ہوسکتا ہے کہ ساڑھے تین سال سے روزانہ ہزاروں لوگ ٹرینوں کی تاخیر کی وجہ سے سٹیشنوں پر رُل رہے ہوں۔یہ لوگ دفتروں سے باہر نکلتے ہی نہیں، کسی کو کچھ پرواہ نہیں۔ عام آدمی کے لئے ٹرین سروس کسی نعمت سے کم نہیں، حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے کہ ریلوے نظام کو سقوط  بچایا جائے، اگر یہ اسی طرح زوال پذیر رہا تو یہ بہت بڑا قومی المیہ ہو گا۔ پچھلے ساڑھے تین سال سے جن لوگوں نے ریلوے کو تباہی سے دوچار کیا ہے، ان  لوگوں کا کڑا احتساب ہونا چاہئے اور ان لوگوں کو ان کی نااہلی پر فارغ کرنا چاہئے۔سوشل میڈیا پر ایک ٹرین کے انجن ڈرائیور کا ٹرین روک کر دہی لینے کا واقعہ گردش کرتا رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں بیٹھے تمام اعلیٰ افسران دہی لینے گئے ہوئے ہیں اور یہ محکمہ بے یارومددگار چل رہا ہے، جس کا خمیازہ عوام بھاری کرائے دینے کے باوجود تکالیف اٹھا کر بھگت رہے ہیں۔  حالانکہ بڑے دعوے کرنے والا وزیر تبدیل ہوا، دوسرے محترم بھی یہی کام کرتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -