گورا کالوں کو اپنی ایڑی کے نیچے دبا کر رکھتا ہے،کوئی کالا سالانہ 5 ہزار ڈالر کما سکے تو یہ بہت غیر معمولی بات ہے

گورا کالوں کو اپنی ایڑی کے نیچے دبا کر رکھتا ہے،کوئی کالا سالانہ 5 ہزار ڈالر ...
گورا کالوں کو اپنی ایڑی کے نیچے دبا کر رکھتا ہے،کوئی کالا سالانہ 5 ہزار ڈالر کما سکے تو یہ بہت غیر معمولی بات ہے

  

مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)

ترجمہ :عمران الحق چوہان 

قسط :36

 ایک بار میں نے صوفیہ کو بوسٹن میں فون کیا اس نے بتایا کہ وہ اگلے ہفتے تک فارغ نہیں ہے حال ہی میں اس کی ایک خوشحال گورے سے شادی ہوئی تھی جوکہ ملازمت پیشہ تھا اور چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔ صوفیہ میرے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتی تھی جس پر مجھے بھی اعتراض نہ تھا میں سیمی کا شکر گزار تھا کہ اس نے مجھے کالے مرد اور گوری عورت کی نفسیات کے بارے میں پہلے ہی سے اچھی طرح بتا رکھا تھا اور میں صوفیہ کی شادی کے متعلق ذہنی طور پر مکمل تیار تھا۔ سیمی نے مجھے بتایا کہ سفید فام عورت بہت عملی ہوتی ہے وہ جانتی ہے کہ معاشرے میں سیاہ فام کی کوئی حیثیت نہیں۔ گورا کالوں کو اپنی ایڑی کے نیچے دبا کر رکھتا ہے جبکہ سیاہ فام عورت آسائش پسند ہے اسے اپنے ہم نسل گوروں کی توجہ اچھی لگتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ”لطف“ بھی چاہتی ہے۔ ان میں سے بعض عورتیں گورے مردوں سے صرف سہولت اور تحفظ کے لیے شادی کرتیں ہیں ضروری نہیں کہ انہیں کسی کالے سے محبت ہی ہو اسے صرف اپنی خواہش سے محبت ہوتی ہے۔”ممنوعہ خواہش“ سے۔

 اگر ایک گورا سالانہ 40,30,20 یا 50 ہزار ڈالر کمائے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی کالا سالانہ 5 ہزار ڈالر بھی کما سکے تو یہ بہت غیر معمولی بات ہے۔

مجھے ہارلم میں رہتے ہوئے بہت زیادہ عرصہ ہوگیا تو مجھے ”ریڈ“ کے نک نیم سے پکارا جانے لگا وہاں میرے علاوہ بھی دو”ریڈ“ تھے ایک تو ”سینٹ لوئس ریڈ“ تھا جو پیشہ ور مسلح ڈکیتیوں میں ملوث تھا جب میں جیل میں تھا تو وہ بھی ڈکیتی کے الزام میں سزا کاٹ رہا تھا دوسرا ”شکاگو ریڈ“ تھا اس سے مزاحیہ شخص پوری دنیا میں کہیں نہ ہوگا اب وہ قومی سطح کا سٹیج اور نائٹ کلب کامیڈین ہے۔ میرا نام”ڈیٹرائڈریڈ“ رکھ دیا گیا اور یہی میری پہچان بن گیا۔1943ءکی ایک سہ پہر کی بات ہے کہ ایک سیاہ فام فوجی میری میزوں میں سے ایک پر بیٹھا شراب پی رہا تھا چوتھا یا پانچواں گلاس دیتے ہوئے میں میز صاف کرنے کے لیے جھکا اور اس کے کان میں آہستہ سے کہا کوئی عورت تو نہیں چاہیے؟ مجھے پتا تھا کہ یہ سمالز پیراڈائیز کا ہی نہیں بلکہ ہر شراب خانے کا طے شدہ اصول تھا کہ سرکاری ملازموں کو غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث کرنے کی کوشش کبھی نہیں کرنی چاہیے اور نہ انہیں ہاتھ کی صفائی دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے ان باتوں سے کئی بار مسائل کھڑے ہو چکے تھے۔ کچھ لوگوں کو فوج نے علاقے سے نکال دیا تھا اور کچھ کے ریاستی یا شہری لائسنس ضبط ہو چکے تھے۔

 اس فوجی نے میری پیشکش پر شکریہ کا اظہار کیا جس کے جواب میں میں نے اسے اپنی بہترین دوست طوائف کا فون نمبر دیا وہ فوج کا جاسوس تھا۔

 مجھے گڑبڑ کا احساس تب ہوا جب وہ شخص مجوزہ طوائف تک نہیں پہنچا میں علم ہوتے ہی سیدھا چارلی کے دفتر پہنچ گیا۔ چارلی میں کچھ کر بیٹھا ہوں میں نے کہا ”پتہ نہیں میں نے سب کیوں کیا؟“

اور اسے سب کچھ بتا دیا۔ چارلی نے میری طرف دیکھا ”کاش تم یہ سب نہ کرتے ریڈ۔“

جب سادہ کپڑوں و الا ویسٹ انڈین مخبر ”جوبیکر“ آیا تو میں اس انتظار کر رہا تھا۔ میں خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑا۔ جب ہم 135th Streetکے تھانے پہنچے تو مجھے چند دیگر مخبروں نے بھی پہچان لیا۔ دو باتیں میری حمایت میں جاتی تھیں پہلی یہ کہ پولیس کو آج تک مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوئی تھی۔ دوسری یہ کہ جب ”جوبیکر“ نے مجھے ”ٹپ“ دی تھی میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ میں یہ صرف ہمدردی میں کر رہا ہوں۔ 

غالباً انہوں نے فیصلہ کیا کہ مجھے صرف دھمکا کر چھوڑ دیا جائے ”جوبیکر“ مجھے ایک کمرے میں لے گیا جہاں ساتھ کے کمرے میں کسی دلال کی دھنائی ہو رہی تھی اور اس کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ (بعد میں جوبیکر نیوجرسی میں ایک دلال اور طوائف کو ہراساں کرنے کے الزام میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا) 

مجھے ”سمالز“ سے نہ صرف نکال دیا گیا بلکہ داخلے پر پابندی بھی لگا دی گئی کیونکہ میں زیرِنگرانی تھا اور سمال برادران کو اپنا کاروبار عزیز تھا۔ 

ان بُرے حالات میں ”سیمی“ میرا حقیقی دوست ثابت ہوا۔ اس نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور نئے دھندے کا فیصلہ کرنے سے قبل اس نے مجھے میری زندگی کے بہترین ”میری جوآنا“ پلائے۔ 

نمبروں کے دھندے میں آمدنی نہیں تھی۔ دلالی میرے بس کا کام نہیں تھا مجھے شک تھا کہ طوائفیں ڈھونڈتا ہوا فاقوں سے مر جاﺅں گا۔ بالآخر اتفاق رائے سے میں نے ”ری فرز“ (نشہ بھرے سگریٹس) بیچنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس میں تجربہ ضروری نہیں تھا اور آمدنی معقول تھی، سیمی اور میں چند ایسے افراد سے وابستہ تھے جو کچی میری جوآنا مہیا کر سکتے تھے۔ ان ری فرز کے سب سے بڑے اور مستقل گاہک موسیقی کے شعبہ سے وابستہ افراد تھے جن میں اکثر میرے دوست تھے۔ وہ زیادہ سخت نشہ بھی استعمال کرتے تھے۔ میں نے بعد میں وہ بھی مہیا کرنے کا ارادہ کیا گو اس میں خطرہ زیادہ تھا لیکن آمدنی بھی زیادہ تھی۔ ہیروئن اور کوکین کی فروخت سے 100ڈالر یومیہ تک آمدن ہو سکتی تھی لیکن اس کے لیے تجربہ اور تعلقات کا ہونا بے حد ضروری تھا۔ ( جاری ہے )

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -