قاضی جاوید،اظہار کا سلیقہ رکھتے تھے

قاضی جاوید،اظہار کا سلیقہ رکھتے تھے
قاضی جاوید،اظہار کا سلیقہ رکھتے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قاضی جاوید ایسے سچے علم دوست اور علم پرور انسان کا اٹھ جانا، ایک بڑے المیئے سے کم نہیں۔
اک دیا اور بجھا، اور بڑھی تاریکی
گرد و پیش کی زندگی سے کبھی جی گھبرا جاتا تو میں ان کی کتاب پڑھنے لگتا ہوں۔ گہری تفکر آمیز تحریریں دل و دماغ کو عجب روشنی دینے والی ہیں، کبھی میں ان سے ملنے بھی چلا جاتا۔ وہ ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر تھے میں ان کے کمرے میں داخل ہوتا تو وہ ”آؤ بھئی خالد ہمایوں“ کہتے ہوئے کھڑے ہو جاتے میں تیزی سے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ تھامتا اور کہتا، قاضی صاحب شرمندہ نہ کریں، آپ تشریف رکھیں۔ میرے ایسے کم علم اور کم فہم آدمی کو اتنی پذیرائی دیتے ہیں، میں بھلا اس قابل کہاں! بیٹھتے ہی پہلے چائے کا پوچھتے پھر حال احوال دریافت کرتے۔ جاتے وقت میں مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا تو وہ مجھے بار بار منع کرنے کے باوجود باہر تک چھوڑنے آ جاتے۔ وہ دفتر پلٹتے تو میں پرانے وقتوں میں کھو جاتا۔


غالباً یہ 1975ء کے دن تھے، پنجاب یونیورسٹی میں نظریاتی دھڑے بندی عروج پر تھی۔ ہم جو دائیں بازو کے طالبعلم تھے ہماری نظروں میں سوشلزم کے حامی طلبا اور اساتذہ کھٹکتے رہتے تھے۔ ایک دن نیو کیمپس کے طویل کاریڈور میں چلتے چلتے ہمارے ایک دوست نے کوٹ پتلون میں ملبوس درمیانہ قامت کے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ قاضی جاوید ہیں، جن کی حال ہی میں شعبہ فلسفہ میں ایڈہاک بنیاد پر بطور لیکچرار تعیناتی ہوئی ہے، خیر سے سوشلسٹ خیالات رکھتے ہیں۔ ایک تیسرے دوست نے کہا سیدھا کیوں نہیں کہتے، سرخ ہیں اس پر ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا، جس پر راہ چلتے کئی لوگوں کی نظریں بے اختیار ہماری طرف اٹھ گئیں۔


جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آ گیا تو بائیں بازو کے اساتذہ زیر عتاب آ گئے۔ قاضی صاحب کی لیکچرر شپ بھی جاری نہ رہ سکی۔ بڑا مشکل وقت تھا لیکن قاضی صاحب نے اپنی صلاحیتوں کو بکھرنے سے یوں بچا لیا کہ تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ ایک انگریزی اخبار میں کالم بھی لکھنے لگے۔ وہ پی ایچ ڈی کا مقالہ یونیورسٹی میں جمع کرا چکے تھے لیکن دائیں بازو والوں نے مختلف حربوں سے ڈگری کا اجرا نہ ہونے دیا۔ بعد میں انہوں نے اس گراں قدر علمی کام کو ”برصغیر میں مسلم فکر کا ارتقا“ کے عنوان سے کتابی صورت میں چھپوا دیا۔ اس میں انہوں نے حضرت داتا گنج بخش سے لے کر حضرت شاہ ولی اللہ تک، مسلم افکار کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ قاضی صاحب کا علمی میدان فلسفہ تھا لیکن وہ ادق سے ادق موضوع پر بھی بڑی سلاست کے ساتھ لکھنے پر قادر تھے۔ بیسویں صدی کی ایک فلسفیانہ تحریک وجودیت(Existentialism)تھی، اس پر انہوں نے اتنی سلاست کے ساتھ لکھا اور اسے ذہنوں میں اتارا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔


فکری حوالے سے انہوں نے جو کام کئے ان میں ”پنجاب کے صوفی دانشور“ سرسید سے اقبال تک اور افکار شاہ ولی اللہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ان کی تمام تر علمی تگ و دو کا مقصد فکری جمود توڑنا تھا اور اس حوالے سے وہ بڑی حد تک کامیاب رہے۔ اب ان کے پڑھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ ہے۔
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں 
اب یاں مرے رازداں اور بھی ہیں 


اسی مقصد کے تحت انہوں نے کئی اہم انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ برٹرینڈرسل کی ”آپ بیتی“، ایرک فرام کی ”صحت مند معاشرہ“، وائن ڈبلیو ڈائر کی ”دکھتی رگیں“ اور وینکٹ رامانی کی ”پاکستان میں امریکہ کا کردار“۔ ان کتابوں کے اب تک کئی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ قاضی صاحب ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے تو مجھے بے حد خوشی ہوئی میں نے انہیں مبارکباد دی اور ان سے طویل انٹرویو کیا جو قومی ڈائجسٹ کے ستمبر 2009ء میں شائع ہوا۔


قاضی صاحب کو پاکستانی ماحول کے سرد و گرم کا بہت جلد تجربہ ہو گیا تھا۔ جبر، تشدد اور استحصال کو انہوں نے بھی موضوع بنایا لیکن بڑے عمدہ استدلال اور سلیقے کے ساتھ ایک روز میں نے دوران گفتگو ان کے ڈاکٹریٹ ورک کا مسئلہ چھیڑا کہ کس طرح ڈگری کے اجرا میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ میرا خیال تھا موضوع بہت تلخ ہے، ممکن ہے لہجے میں غصہ اور گلہ شکوہ در آئے لیکن ان کے بڑے سنبھلے ہوئے جواب نے مجھے حیران کر دیا۔ کہنے لگے ”خالد ہمایوں ٖ شاید وہ لوگ بھی ٹھیک تھے، کچھ مجھ سے بھی غلطیاں ہو گئیں۔“


میں سمجھتا ہوں قاضی صاحب نے آئندہ نسلوں کو سبق دیا کہ اس تیرہ و تاریک ماحول میں جو کچھ دیکھیں اس پر بھڑک اٹھنے کی بجائے صبر و ضبط اور اظہار کے سلیقے سے کام لیں، خلوص اور جذبے سے کیا ہوا کام کبھی ضائع نہیں جاتا وہ ایک دن اپنے نتائج ضرور سامنے لاتا ہے۔ 
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب

مزید :

رائے -کالم -